سوال(۶۳): کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بعض لوگ وضو کے بعدآسمان کی طرف شہادت کی انگلی اٹھاکر ایک دعا پڑھتے ہیں، کیا یہ دعا صحیح ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو کے بعد کلمۂ شہادت اور دعا پڑھنا، اور دعا پڑھتے ہوئے آسمان کی طرف نظر اٹھانا احادیثِ شریفہ سے ثابت ہے؛ البتہ شہادت کے وقت آسمان کی طرف انگلی اٹھانا کسی روایت میں صراحۃً نظر سے نہیں گذرا؛ لیکن فقہاء نے اسے مستحسن قرار دیا ہے، اس لئے ایسا کرنے کی ممانعت نہیں ہے، مگر اسے ضروری یا مسنون عمل نہ سمجھا جائے۔
عن عقبۃ بن عامر الجہني رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیث تناوب الرعایۃ - رعایۃ الإبل - وفیہ قال: فنظرت فإذا ہو عمر بن الخطاب فقلت: ما ہي یا أبا حفص؟ قال: إنہ قال آنفاً قبل أن تجیئ: ما منکم من أحد یتوضأ فیحسن الوضوء، ثم یقول حین یفرغ من وضوئہ: أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ، إلا فتحت لہ أبواب الجنۃ یدخل من أیہا شاء۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ / باب ما یقول الرجل إذا توضأ ۱؍۲۶ رقم: ۱۶۹)
وفي روایۃ عنہ مرفوعاً قال: من توضأ فأحسن وضوأہ ثم رفع إلی السماء، فقال: أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وأن محمداً عبدہ ورسولہ، فتحت لہ ثمانیۃ أبواب من الجنۃ یدخل من أیہا شاء۔ (مسند أحمد ۴؍۱۵۱، سنن أبي داؤد ۱؍۲۲)
وفي روایۃ عنہ مرفوعاً نحوہ وفیہ: قال عند قولہ: فأحسن الوضوء، ثم رفع نظرہ إلی السماء۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۶ رقم: ۱۷۰)
وزاد في المنیۃ أن یقول بعد فراغہ:؛ سبحانک اللّٰہم وبحمدک أشہد أن لا إلٰہ إلا أنت أستغفرک وأتوب إلیک، وأشہد أن محمداً عبدک ورسولک ناظراً إلی السماء۔ (شامي ۱؍۲۵۳ زکریا)
ذکر الغزنوي أنہ یشیر بسبابتہ حین النظر إلی السماء۔ (حاشیۃ الطحطاوي ۷۷)
والإتیان بالشہادتین بعدہ قائماً مستقبلاً، قال الطحطاوي: ذکر الغزنوي أنہ یشیر بسبابتہ حین النظر إلی السماء۔ (طحطاوي علی المراقي ۴۳، فتاویٰ رحیمیہ ۷؍۱۴۰) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۱؍۴؍۱۴۲۴ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
No comments:
Post a Comment