ایس اے ساگر
آپ حضرات سے چند سؤالوں کے جوابات معلوم کرنے ہیں:
(۱) شادی کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
(۲) لڑکی کی رخصتی کیلئے بارات لے جانا مسنون ہے یا اکیلے دولہا کا جانا مسنون ہے؟
(۳) آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں کیا معمول تھا؟
۴) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دلہن کے گھر بارات لے جاناثابت ہے یا نہیں؟
(۵) اگر ثابت ہے تو اس میں برادری کے تمام افراد شامل تھے یا چند افراد جا کر لڑکی لے آتے تھے؟
برائے مہربانی شادی کے بارے میں جو مسنون طریقہ ہو، جلد بیان کرکے ممنون فرمائیں۔
(۱) شادی کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
(۲) لڑکی کی رخصتی کیلئے بارات لے جانا مسنون ہے یا اکیلے دولہا کا جانا مسنون ہے؟
(۳) آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں کیا معمول تھا؟
۴) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دلہن کے گھر بارات لے جاناثابت ہے یا نہیں؟
(۵) اگر ثابت ہے تو اس میں برادری کے تمام افراد شامل تھے یا چند افراد جا کر لڑکی لے آتے تھے؟
برائے مہربانی شادی کے بارے میں جو مسنون طریقہ ہو، جلد بیان کرکے ممنون فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب:
شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے اور اس کی ترغیب بھی بہت سی روایات میں آئی ہے۔ شادی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے عقد نکاح ہو، بہتر یہ ہے کہ عقد نکاح مسجد میں ہو، تاکہ سب لوگوں کو اس کا علم ہوجائے۔ اس کے بعد رخصتی کا عمل ہو، پھر شب زفاف کے بعد ولیمہ کا انعقاد ہوجائے۔
لڑکی کی رخصتی کیلئے باقاعدہ طور پر بارات لے جانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شادی میں دلہن کو لانے کے لئے ایک آدمی بھیجا ہے، خود دلہن کے گھر نہیں گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں عام معمول یہ تھا کہ لڑکی کا باپ یا ولی لڑکی کو تیار کرکے خود یا کسی اور کے واسطے سے دولہا کے گھر پہنچا دیتا، جیسا کہ حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی رخصتی سے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں سب سے بہتر یہ ہے کہ لڑکی والے خود دلہن کو دولہا کے گھر پہنچائیں۔ اگر وہ پہنچانے کیلئے تیار نہ ہوں تو پھر دولہا خود یا کسی ایسے شخص کو (جو دلہن کا محرم بنتا ہو) لڑکی کو لانے کیلئے بھیج دے ۔ مروّجہ طریقوں سے بارات لے جانا اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، البتہ اگر خلافِ شرع امور سے اجتناب کرتے ہوئے لڑکے کے خاندان کے چند افراد بارات کی صورت میں جائیں اور لڑکی کو رخصت کر کے لے آئیں تو اس کی گنجائش ہے۔
لما فی صحیح البخاری (۷۷۵/۲): عن عائشة رضي الله عنها: " تزوجني النبي ﷺ فأتتني أمي فأدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر "
وفی جامع الترمذی (۲۰۷/۱):عن عائشة رضي الله عنهاقالت قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أعلنوا هذا النكاح واجعلوه فى المساجد واضربوا عليه بالدفوف ۔
وفی إعلاء السنن تحت ھذا الحدیث(۵/۱۱۔۷) قال الفقھاء: المراد بالدف مالا جلا جل لہ ۔۔۔ فائدۃ:۔۔۔(واجعلوہ فی المساجد) ۔۔۔ فإن العلۃ إنما ھی الإعلان والمسجد أولی لہ لکونہ جامعا للمسلمین من غیر حاجۃ إلی الاھتمام بالتداعی، ولذا استحب لہ یوم الجمعۃ لھذہ العلۃ بعینھا واقتصر فی ”الفتح“ (ص۳: ۱۰۲) علی الجواب الأول، قال ویستحب عقد النکاح فی المسجد لأنہ عبادۃ وکونہ یوم الجمعۃ۔
وفی الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب (۴۰۱/۴۔ ۴۰۲): وروی عن سعید عن قتادۃ أن النجاشی زوج النبیﷺ أم حبیبۃبنت ابی سفیان رضی الله عنھمابأرض الحبشۃوأصدق عنہ بمائتی دینار۔۔ (الی أن قال) زوجھا إیاہ النجاشی وجھزھا الیہ واصدقھا اربعمائۃ دینار، و أولم علیھا عثمان بن عفان لحما وثریداً وبعث الیھا رسول الله ﷺ شرحبیل ابن حسنۃ فجآء بھا۔۔الخ۔
........
نکا ح کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر اور رخصتی کا مسنون طریقہ
س: نکاح کے وقت حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر کتنی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیا عمر تھی ؟ رخصتی کب ہوئی اور رخصتی کا سنت طریقہ کیا ہے؟
شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے اور اس کی ترغیب بھی بہت سی روایات میں آئی ہے۔ شادی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے عقد نکاح ہو، بہتر یہ ہے کہ عقد نکاح مسجد میں ہو، تاکہ سب لوگوں کو اس کا علم ہوجائے۔ اس کے بعد رخصتی کا عمل ہو، پھر شب زفاف کے بعد ولیمہ کا انعقاد ہوجائے۔
لڑکی کی رخصتی کیلئے باقاعدہ طور پر بارات لے جانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شادی میں دلہن کو لانے کے لئے ایک آدمی بھیجا ہے، خود دلہن کے گھر نہیں گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں عام معمول یہ تھا کہ لڑکی کا باپ یا ولی لڑکی کو تیار کرکے خود یا کسی اور کے واسطے سے دولہا کے گھر پہنچا دیتا، جیسا کہ حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی رخصتی سے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں سب سے بہتر یہ ہے کہ لڑکی والے خود دلہن کو دولہا کے گھر پہنچائیں۔ اگر وہ پہنچانے کیلئے تیار نہ ہوں تو پھر دولہا خود یا کسی ایسے شخص کو (جو دلہن کا محرم بنتا ہو) لڑکی کو لانے کیلئے بھیج دے ۔ مروّجہ طریقوں سے بارات لے جانا اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، البتہ اگر خلافِ شرع امور سے اجتناب کرتے ہوئے لڑکے کے خاندان کے چند افراد بارات کی صورت میں جائیں اور لڑکی کو رخصت کر کے لے آئیں تو اس کی گنجائش ہے۔
لما فی صحیح البخاری (۷۷۵/۲): عن عائشة رضي الله عنها: " تزوجني النبي ﷺ فأتتني أمي فأدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر "
وفی جامع الترمذی (۲۰۷/۱):عن عائشة رضي الله عنهاقالت قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أعلنوا هذا النكاح واجعلوه فى المساجد واضربوا عليه بالدفوف ۔
وفی إعلاء السنن تحت ھذا الحدیث(۵/۱۱۔۷) قال الفقھاء: المراد بالدف مالا جلا جل لہ ۔۔۔ فائدۃ:۔۔۔(واجعلوہ فی المساجد) ۔۔۔ فإن العلۃ إنما ھی الإعلان والمسجد أولی لہ لکونہ جامعا للمسلمین من غیر حاجۃ إلی الاھتمام بالتداعی، ولذا استحب لہ یوم الجمعۃ لھذہ العلۃ بعینھا واقتصر فی ”الفتح“ (ص۳: ۱۰۲) علی الجواب الأول، قال ویستحب عقد النکاح فی المسجد لأنہ عبادۃ وکونہ یوم الجمعۃ۔
وفی الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب (۴۰۱/۴۔ ۴۰۲): وروی عن سعید عن قتادۃ أن النجاشی زوج النبیﷺ أم حبیبۃبنت ابی سفیان رضی الله عنھمابأرض الحبشۃوأصدق عنہ بمائتی دینار۔۔ (الی أن قال) زوجھا إیاہ النجاشی وجھزھا الیہ واصدقھا اربعمائۃ دینار، و أولم علیھا عثمان بن عفان لحما وثریداً وبعث الیھا رسول الله ﷺ شرحبیل ابن حسنۃ فجآء بھا۔۔الخ۔
........
نکا ح کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر اور رخصتی کا مسنون طریقہ
س: نکاح کے وقت حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر کتنی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیا عمر تھی ؟ رخصتی کب ہوئی اور رخصتی کا سنت طریقہ کیا ہے؟
ج: بوقت نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے بارے میں 2 قول ہیں۔ ایک قول پندرہ سال اور ساڑھے پانچ مہینے اور دوسرا قول 19سال اور ڈیڑھ مہینے کا ہے۔ پہلا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ علامہ اشرف علی تھانوی اور علامہ زرقانی نے اسی کو لکھا ہے۔ حضرت علی ؓ کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کس سن میں مشرف بااسلام ہوئے تھے۔ ایک قول یہ ہےکہ آٹھ سال کی عمر میں اوردوسراقول یہ ہے کہ 10 سال کی عمر میں مشرف بااسلام ہوئے تھے ۔ پہلے قول کی بناء پر نکاح کے وقت عمر 21 سال اور پانچ مہینہ ہوگی اور دوسرے قول کے مطابق 24 سال اور ڈیڑھ مہینہ ہوگی۔ سیرۃ المصطفیٰ، ج:3: ص: 369، ط: الطاف اینڈ سنز نکاح اور رخصتی ۲ھ میں ہوئی، نکاح کے ساڑھے سات مہینے بعد رخصتی ہوئی جیسا کہ زرقانی میں ہے:
وبنی بھا بعد تزویجھا بسبعۃ أ شھر ونصف فیکون فی شوال ج:2،ص:385،ط: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت
رخصتی کا کوئی خاص مسنون طریقہ نہیں ہے، البتہ بوقت رخصتی سادگی اختیار کرنا بہتر ہے، خرافات اور ناجائز کاموں سے اجتناب لازم ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے وقت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چارپائی اور تکیہ جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا دیا۔ حضرت ام ایمن کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچا دیا۔
جامعۃ العلوم الااسلامیہ
بنوری ٹاؤن
........
مہرفاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آج کے انڈین روپیہ اور سعودی ریال میں کتنا ہوگا، برائے کرم بتائیں؟
(۲) کیا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا رخصتی کے وقت شلوار قمیص میں ملبوس تھیں؟
(۳) کسی ایسی مستند کتاب کا نام بتائیں جس میں ایسی سنتیں بھی موجود ہوں جو عام کتابوں میں نہیں ملتی، جس میں خاص عورتوں کے لیے نکاح کی سنتیں ہوں․․․( فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سادگی دوران نکاح اوررخصتی) ۔
(۴) کیا دودھ میں سورہ یوسف دم کرکے نکاح کے بعد آدھا آدھا پلانا سنت ہے؟
جامعۃ العلوم الااسلامیہ
بنوری ٹاؤن
........
مہرفاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آج کے انڈین روپیہ اور سعودی ریال میں کتنا ہوگا، برائے کرم بتائیں؟
(۲) کیا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا رخصتی کے وقت شلوار قمیص میں ملبوس تھیں؟
(۳) کسی ایسی مستند کتاب کا نام بتائیں جس میں ایسی سنتیں بھی موجود ہوں جو عام کتابوں میں نہیں ملتی، جس میں خاص عورتوں کے لیے نکاح کی سنتیں ہوں․․․( فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سادگی دوران نکاح اوررخصتی) ۔
(۴) کیا دودھ میں سورہ یوسف دم کرکے نکاح کے بعد آدھا آدھا پلانا سنت ہے؟
Feb 02,2009
Answer: 10482
فتوی: 171=171/ م
(۱) مہر فاطمی کی مقدار موجودہ وزن کے حساب سے ڈیڑھ کلو، تیس گرام نوسو ملی گرام (1.531 kg)چاندی ہوتی ہے، چاندی، سونے کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، اس لئے روپیہ اور ریال میں تعیین مشکل ہے، آپ بازار سے بھاوٴ معلوم کرکے انڈین روپیہ اور سعودی ریال کا حساب لگالیں۔
(۲) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ایمن سے فرمایا کہ حضرت فاطمہ کو پہنچادو۔ وہ برقعہ، چادر، پہناکر ہاتھ پکڑکر پہنچا آئیں، (مثالی دلہن، ص:۳۲، بحوالہ حقوق زوجین)
(۳) بہشتی زیور، اسلامی شادی وغیرہ مطالعہ کیجئے۔
(۴) سنت کہنا تو دشوار ہے، اس لئے کہ کسی حدیث سے نکاح کے بعد اس عمل کا ثبوت نہیں، البتہ اگر رسم و رواج کی پابندی اور دباوٴ میں نہ ہو، اور خیر وبرکت کی نیت سے ہو تو مضائقہ نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
........
رخصتی شریعت کے مطابق کیسے کی جائے؟
(۱) مہر فاطمی کی مقدار موجودہ وزن کے حساب سے ڈیڑھ کلو، تیس گرام نوسو ملی گرام (1.531 kg)چاندی ہوتی ہے، چاندی، سونے کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، اس لئے روپیہ اور ریال میں تعیین مشکل ہے، آپ بازار سے بھاوٴ معلوم کرکے انڈین روپیہ اور سعودی ریال کا حساب لگالیں۔
(۲) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ایمن سے فرمایا کہ حضرت فاطمہ کو پہنچادو۔ وہ برقعہ، چادر، پہناکر ہاتھ پکڑکر پہنچا آئیں، (مثالی دلہن، ص:۳۲، بحوالہ حقوق زوجین)
(۳) بہشتی زیور، اسلامی شادی وغیرہ مطالعہ کیجئے۔
(۴) سنت کہنا تو دشوار ہے، اس لئے کہ کسی حدیث سے نکاح کے بعد اس عمل کا ثبوت نہیں، البتہ اگر رسم و رواج کی پابندی اور دباوٴ میں نہ ہو، اور خیر وبرکت کی نیت سے ہو تو مضائقہ نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
........
رخصتی شریعت کے مطابق کیسے کی جائے؟
سؤال: کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شادی میں رخصتی کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ نیز نکاح مسجد میں پڑھنا افضل ہے یا نہیں؟ اگر گھر میں زیادہ لوگ جمع ہوگئے توگھر میں نکاح پڑھ لیا جائے کیونکہ مسجد میں نماز کے بعد بہت کم لوگ ہوتے ہیں ؟ کیا مجلسِ نکاح میں لوگوں کی کثرت کو نہیں دیکھا جائے گا؟
الجواب بعون الملک الوھاب
نکاح ایک عبادت ہے اس لئے مسجد میں اس کاانعقاد افضل ہے ،چونکہ مسجد میں بلا کسی تکلف کے مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے اور خیر و برکت کا ماحول بھی ہوتا ہے، اس لئے اگر گھر کے مجمع کو مسجد میں لاکر مجلس نکاح منعقد کی جائے تو یہ صورت زیادہ مناسب ہے، گو گھر وغیرہ پر ہی مجمع میں نکاح کرلیا جائے تو اس میں بھی کوئی کراہت نہیں ،تاہم مسجد کی خیر وبرکت کا حصول اس صورت میں نہ ہوسکے گا۔
پھر نکاح کے بعد لڑکی کو دولہا کے گھر پہنچا دیا جائے اور اس موقع پر اگر رشتہ دار خواتین وحضرات اور دوست واحباب جمع ہوجائیں اور غیر شرعی امور وبے جا تکلفات سے اجتناب کیا جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں (گو بالکل خشک ماحول بھی مطلوب نہیں)، لیکن ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ کہیں عورتوں کا مجمع ہو اور وہاں بے پردگی، مردوزن کا اختلاط، نمازوں کا ضیاع نہ ہو، اس لئے ایسے پر مسرت موقع پر ان معاصی، خرافات اور غفلت پیدا کرنے والے ماحول سے خصوصی طور پر زیادہ سے زیادہ بچنے کا اہتمام کیا جائے۔ غرض اسلامی مزاج و مذاق یہ ہے کہ جتنی سادگی اور بے تکلفی سے آدمی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو یہ زیادہ بہتر اور قابل ستائش ہے۔ اس میں میزبانوں کیلئے بھی آسانی ہے اور مہمانوں کو بھی راحت ہے۔
لمافی القرآن الکریم (الأحزاب:۲۱):لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيْرًا
وفی الصحیح للامام البخاری (۷۷۵/۲):عن عائشة رضي الله عنها: " تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم، فأتتني أمي فأدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر "۔
وفی روایۃ أخری:ثم أخذت شيئا من ماء فمسحت به وجهي ورأسي، ثم أدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن على الخير والبركة، وعلى خير طائر، فأسلمتني إليهن، فأصلحن من شأني، فلم يرعني إلا رسول الله ﷺ ضحى، فأسلمتني إليه، وأنا يومئذ بنت تسع سنين۔
وفی عمدۃ القاری (۱۴۶/۲۰): لأن العادة أن أم العروس إذا أتت بالعروس إلى بيت زوجها يكون معها نساء قليلات كن أو كثيرات فأم عائشة ومن معها والعروس هن مدعو لهن والنسوة من الأنصار اللاتي كن في البيت هن الداعيات لقوله فيه فقلن على الخير إلى آخره۔
وفیہ أیضا (۱۴۸/۲۰): (باب البناء بالنهار بغير مركب ولا نيران) أي هذا باب في بيان جواز دخول الرجل على امرأته بالنهار ولا يختص بالليل قوله:بغير مركب أي بغير ركوب ناس للإعلان ويروی بغيرموكب۔۔۔ قوله:ولا نيران أي ولا نيران توقد بين يدي العروس وحاصله أن زيادة الإعلان بركوب القوم بين يدي العروس أو بإيقاد النيران مكروه وقد روي سعيد بن منصور من طريق عروة بن رويم أن عبد الله بن قرظ الثمالي وكان عامل عمر رضي الله تعالى عنهما على حمص فمرت به عروس وهم يوقدون النيران بين يديها فضربهم بدرته حتى تفرقوا عن عروسهم ثم خطب فقال إن عروسكم أوقدوا النيران و تشبهوا بالكفرة والله مطفىء نارهم۔
وفی صحیح البخاری (۷۷۵/۲): عن أنس رضي الله عنه، قال: أقام النبي ﷺ بين خيبر والمدينة ثلاثا يبنى عليه بصفية بنت حيي، فدعوت المسلمين إلى وليمته۔۔۔ الی قولہ۔۔۔ فلما ارتحل وطى لها خلفه ومد الحجاب بينها وبين الناس۔
دعاء الناس الی الولیمۃ بغیر تسمیۃ ولا تکلف وھی سنۃ، (عمدۃ القاری،۱۵۱/۲۰)
وفی اعلاء السنن (۹/۱۱): فان النکاح لہ شبہ عظیم بالعبادات دون المعاملات ۔۔۔ فإن العلۃ انما ھی الاعلان والمسجد اولیٰ لہ لکونہ جامعا للمسلمین من غیر حاجۃ الی الاھتمام بالتداعی ولذا استحب لہ یوم الجمعۃ لھذہ العلۃ بعینھا۔
وفیہ أیضا (ص۱۴) وکل ذلک مقید بأن لا یشتمل علی مفسدۃ دینیۃ، وقلما یخلو اجتماع النساء منھا، فتراھن فی الولائم لایصلین الصلوات لأوقاتھا، ولا یحتجبن من الأجانب ولا یراعین آداب الاجتماع فی المجالس والی الله المشتکی۔
وفی الدر المختار (۸/۳۔۹): ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة ۔۔۔ وهل يكره الزفاف المختار لا إذا لم يشتمل على مفسدة دينية۔
وفی الرد تحتہ: قوله (ويندب إعلانه) أي إظهاره والضمير راجع إلى النكاح بمعنى العقد لحديث الترمذي أعلنوا هذا النكاح وجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف فتح ۔۔۔ قوله( يوم جمعة) أي وكونه يوم جمعة فتح تنبيه قال في البزازية والبناء والنكاح بين العيدين جائز وكره الزفاف والمختار أنه لا يكره لأنه عليه الصلاة والسلام تزوج بالصديقة في شوال وبنى بها فيه وتأويل قوله عليه الصلاة والسلام لا نكاح بين العيدين إن صح أنه عليه الصلاة والسلام كان رجع عن صلاة العيد في أقصر أيام الشتاء يوم الجمعة فقاله حتى لا يفوته الرواح في الوقت الأفضل إلى الجمعة اھ۔
وفی الشامیۃ أیضا (۹/۳): قوله ( وهل يكره الزفاف) هو بالكسر ككتاب إهداء المرأة إلى زوجها قاموس والمراد به هنا اجتماع النساء لذلك لأنه لازم له عرفا أفاده الرحمتي ۔
از نجم الفتاوی
نکاح ایک عبادت ہے اس لئے مسجد میں اس کاانعقاد افضل ہے ،چونکہ مسجد میں بلا کسی تکلف کے مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے اور خیر و برکت کا ماحول بھی ہوتا ہے، اس لئے اگر گھر کے مجمع کو مسجد میں لاکر مجلس نکاح منعقد کی جائے تو یہ صورت زیادہ مناسب ہے، گو گھر وغیرہ پر ہی مجمع میں نکاح کرلیا جائے تو اس میں بھی کوئی کراہت نہیں ،تاہم مسجد کی خیر وبرکت کا حصول اس صورت میں نہ ہوسکے گا۔
پھر نکاح کے بعد لڑکی کو دولہا کے گھر پہنچا دیا جائے اور اس موقع پر اگر رشتہ دار خواتین وحضرات اور دوست واحباب جمع ہوجائیں اور غیر شرعی امور وبے جا تکلفات سے اجتناب کیا جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں (گو بالکل خشک ماحول بھی مطلوب نہیں)، لیکن ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ کہیں عورتوں کا مجمع ہو اور وہاں بے پردگی، مردوزن کا اختلاط، نمازوں کا ضیاع نہ ہو، اس لئے ایسے پر مسرت موقع پر ان معاصی، خرافات اور غفلت پیدا کرنے والے ماحول سے خصوصی طور پر زیادہ سے زیادہ بچنے کا اہتمام کیا جائے۔ غرض اسلامی مزاج و مذاق یہ ہے کہ جتنی سادگی اور بے تکلفی سے آدمی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو یہ زیادہ بہتر اور قابل ستائش ہے۔ اس میں میزبانوں کیلئے بھی آسانی ہے اور مہمانوں کو بھی راحت ہے۔
لمافی القرآن الکریم (الأحزاب:۲۱):لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيْرًا
وفی الصحیح للامام البخاری (۷۷۵/۲):عن عائشة رضي الله عنها: " تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم، فأتتني أمي فأدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر "۔
وفی روایۃ أخری:ثم أخذت شيئا من ماء فمسحت به وجهي ورأسي، ثم أدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن على الخير والبركة، وعلى خير طائر، فأسلمتني إليهن، فأصلحن من شأني، فلم يرعني إلا رسول الله ﷺ ضحى، فأسلمتني إليه، وأنا يومئذ بنت تسع سنين۔
وفی عمدۃ القاری (۱۴۶/۲۰): لأن العادة أن أم العروس إذا أتت بالعروس إلى بيت زوجها يكون معها نساء قليلات كن أو كثيرات فأم عائشة ومن معها والعروس هن مدعو لهن والنسوة من الأنصار اللاتي كن في البيت هن الداعيات لقوله فيه فقلن على الخير إلى آخره۔
وفیہ أیضا (۱۴۸/۲۰): (باب البناء بالنهار بغير مركب ولا نيران) أي هذا باب في بيان جواز دخول الرجل على امرأته بالنهار ولا يختص بالليل قوله:بغير مركب أي بغير ركوب ناس للإعلان ويروی بغيرموكب۔۔۔ قوله:ولا نيران أي ولا نيران توقد بين يدي العروس وحاصله أن زيادة الإعلان بركوب القوم بين يدي العروس أو بإيقاد النيران مكروه وقد روي سعيد بن منصور من طريق عروة بن رويم أن عبد الله بن قرظ الثمالي وكان عامل عمر رضي الله تعالى عنهما على حمص فمرت به عروس وهم يوقدون النيران بين يديها فضربهم بدرته حتى تفرقوا عن عروسهم ثم خطب فقال إن عروسكم أوقدوا النيران و تشبهوا بالكفرة والله مطفىء نارهم۔
وفی صحیح البخاری (۷۷۵/۲): عن أنس رضي الله عنه، قال: أقام النبي ﷺ بين خيبر والمدينة ثلاثا يبنى عليه بصفية بنت حيي، فدعوت المسلمين إلى وليمته۔۔۔ الی قولہ۔۔۔ فلما ارتحل وطى لها خلفه ومد الحجاب بينها وبين الناس۔
دعاء الناس الی الولیمۃ بغیر تسمیۃ ولا تکلف وھی سنۃ، (عمدۃ القاری،۱۵۱/۲۰)
وفی اعلاء السنن (۹/۱۱): فان النکاح لہ شبہ عظیم بالعبادات دون المعاملات ۔۔۔ فإن العلۃ انما ھی الاعلان والمسجد اولیٰ لہ لکونہ جامعا للمسلمین من غیر حاجۃ الی الاھتمام بالتداعی ولذا استحب لہ یوم الجمعۃ لھذہ العلۃ بعینھا۔
وفیہ أیضا (ص۱۴) وکل ذلک مقید بأن لا یشتمل علی مفسدۃ دینیۃ، وقلما یخلو اجتماع النساء منھا، فتراھن فی الولائم لایصلین الصلوات لأوقاتھا، ولا یحتجبن من الأجانب ولا یراعین آداب الاجتماع فی المجالس والی الله المشتکی۔
وفی الدر المختار (۸/۳۔۹): ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة ۔۔۔ وهل يكره الزفاف المختار لا إذا لم يشتمل على مفسدة دينية۔
وفی الرد تحتہ: قوله (ويندب إعلانه) أي إظهاره والضمير راجع إلى النكاح بمعنى العقد لحديث الترمذي أعلنوا هذا النكاح وجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف فتح ۔۔۔ قوله( يوم جمعة) أي وكونه يوم جمعة فتح تنبيه قال في البزازية والبناء والنكاح بين العيدين جائز وكره الزفاف والمختار أنه لا يكره لأنه عليه الصلاة والسلام تزوج بالصديقة في شوال وبنى بها فيه وتأويل قوله عليه الصلاة والسلام لا نكاح بين العيدين إن صح أنه عليه الصلاة والسلام كان رجع عن صلاة العيد في أقصر أيام الشتاء يوم الجمعة فقاله حتى لا يفوته الرواح في الوقت الأفضل إلى الجمعة اھ۔
وفی الشامیۃ أیضا (۹/۳): قوله ( وهل يكره الزفاف) هو بالكسر ككتاب إهداء المرأة إلى زوجها قاموس والمراد به هنا اجتماع النساء لذلك لأنه لازم له عرفا أفاده الرحمتي ۔
از نجم الفتاوی
No comments:
Post a Comment