ایس اے ساگر
سماجی روابط کی سائٹوں پر مولانا ضیاالرحما ن ذاکر الامیینی، دارالعلوم رسولیہ قصبہ نگر (بھرت پور) راج 8003619786 کا پیغام نظر سے گذرا کہ "عوام الناس میں یہ جو مشہور ہے کہ دادی حوا علیھا السلام، دادا آدم علیہ السلام کی بائیں جانب کی سب سے اوپر کی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں، دراصل یہ تصور بائبل (کتاب پیدائش باب 2 آیات 24/22 ) کا ہے، پھر وہاں سے اسلامی روایات میں آیا ہے۔ جبکہ روح المعانی میں سورۃ النساء کی آیت :
خَلَقَكُمٌ مِنٌ نَّفٌسٍ وَّاحِدَةٍ
کی تفسیر میں حاشیہ خود مفسر نے امام باقر رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ جس مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئیے گئے تھے اس کے باقی ماندہ یعنی بچی ہوئی مٹی سے حضرت حوا علیھاالسلام پیدا کی گئی تھیں۔ ویسے یہ بات عقل میں آنے والی بھی ہے کیونکہ تمام حیوانات جن میں توالد اور تناسل کا سلسلہ قائم ہے ان کے پہلے افراد ( نراورمادہ) مٹی سے ہی پیدا کئے گئے ہیں کوئی مادہ، نر کی پسلی سے پیدا نہیں کی گئی.
واللہ اعلم"
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻤﺮﺗﻀﯽٰ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ
( ﺍﻻﺷﺒﺎﮦ ﻭﺍﻟﻨﻈﺎﺋﺮ ‘ ﺝ : ۲ ‘ ﺹ : ۵۷۰ ) ” ﺍﻟﻔﺼﻮﻝ ﺍﻟﻤﮩﻤﮧ ﻓﯽ ﻣﻨﺎﻗﺐ ﺍﻻﺋﻤﮧ “ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺳﮯ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻤﺮﺗﻀﯽٰ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﺍ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﻮ ﻭﺭﻃﮧٴﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ :
ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻨﺜﯽٰ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ (ﺧﻨﺜﯽٰ) ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺩﯼ، ﻭﮦ ﺧﻨﺜﯽٰ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﺮﺝ، ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ (ﺧﻨﺜﯽٰ) ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻤﺎﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﺗﻮﻟﺪ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﺱ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻤﺎﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ، ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻤﺮﺗﻀﯽٰ رضی اللہ عنہ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﺮﺝ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺎﮨﻮﺍﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺧﺮﻭﺝ ﻣﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺑﺮﻕ ﺍﻭﺭ ﻗﻨﺒﺮ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﺴﻠﯿﺎﮞ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ، ﺍﮔﺮ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﺴﻠﯽ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﻮ ﻣﺮﺩ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ، ﻭﺭﻧﮧ ﻋﻮﺭﺕ، ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ، ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺮﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺻﺎﺩﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﻔﺮﯾﻖ ﮐﺮﺩﯼ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ :
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺍﮐﯿﻼ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﭘﺮ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﮌ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮﺍﯾﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﺳﮑﻮﻥ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﮮ، ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺍﻣﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻮﺍ علیہا السلام ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺟﺐ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﯾﮏ ﺣﺴﯿﻦ ﻭ ﺟﻤﯿﻞ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﯽ ﭘﺴﻠﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﯽ ﭘﺴﻠﯿﺎﮞ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﮐﻞ ﭘﺴﻠﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﭼﻮﺑﯿﺲ ﮨﮯ، ﺑﺎﺭﮦ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﮦ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﺎﺭﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻮ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﮐﻞ ﭘﺴﻠﯿﺎﮞ ﭼﻮﺑﯿﺲ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺗﺌﯿﺲ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ” ﺿﻠﻊ ﺍﻋﻮﺝ “ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺗﺼﺮﯾﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﭨﯿﮍﮬﯽ ﭘﺴﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻧﻔﻊ ﺍﭨﮭﺎ۔
کی تفسیر میں حاشیہ خود مفسر نے امام باقر رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ جس مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئیے گئے تھے اس کے باقی ماندہ یعنی بچی ہوئی مٹی سے حضرت حوا علیھاالسلام پیدا کی گئی تھیں۔ ویسے یہ بات عقل میں آنے والی بھی ہے کیونکہ تمام حیوانات جن میں توالد اور تناسل کا سلسلہ قائم ہے ان کے پہلے افراد ( نراورمادہ) مٹی سے ہی پیدا کئے گئے ہیں کوئی مادہ، نر کی پسلی سے پیدا نہیں کی گئی.
واللہ اعلم"
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻤﺮﺗﻀﯽٰ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ
( ﺍﻻﺷﺒﺎﮦ ﻭﺍﻟﻨﻈﺎﺋﺮ ‘ ﺝ : ۲ ‘ ﺹ : ۵۷۰ ) ” ﺍﻟﻔﺼﻮﻝ ﺍﻟﻤﮩﻤﮧ ﻓﯽ ﻣﻨﺎﻗﺐ ﺍﻻﺋﻤﮧ “ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺳﮯ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻤﺮﺗﻀﯽٰ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﺍ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﻮ ﻭﺭﻃﮧٴﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ :
ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻨﺜﯽٰ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ (ﺧﻨﺜﯽٰ) ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺩﯼ، ﻭﮦ ﺧﻨﺜﯽٰ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﺮﺝ، ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ (ﺧﻨﺜﯽٰ) ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻤﺎﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﺗﻮﻟﺪ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﺱ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻤﺎﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ، ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻤﺮﺗﻀﯽٰ رضی اللہ عنہ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﺮﺝ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺎﮨﻮﺍﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺧﺮﻭﺝ ﻣﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺑﺮﻕ ﺍﻭﺭ ﻗﻨﺒﺮ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﺴﻠﯿﺎﮞ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ، ﺍﮔﺮ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﺴﻠﯽ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺧﻨﺜﯽٰ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﻮ ﻣﺮﺩ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ، ﻭﺭﻧﮧ ﻋﻮﺭﺕ، ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ، ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺮﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺻﺎﺩﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﻔﺮﯾﻖ ﮐﺮﺩﯼ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ :
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺍﮐﯿﻼ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﭘﺮ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﮌ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮﺍﯾﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﺳﮑﻮﻥ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﮮ، ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺍﻣﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻮﺍ علیہا السلام ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺟﺐ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﯾﮏ ﺣﺴﯿﻦ ﻭ ﺟﻤﯿﻞ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﯽ ﭘﺴﻠﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﯽ ﭘﺴﻠﯿﺎﮞ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﮐﻞ ﭘﺴﻠﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﭼﻮﺑﯿﺲ ﮨﮯ، ﺑﺎﺭﮦ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﮦ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﺎﺭﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻮ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﮐﻞ ﭘﺴﻠﯿﺎﮞ ﭼﻮﺑﯿﺲ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺗﺌﯿﺲ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ” ﺿﻠﻊ ﺍﻋﻮﺝ “ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺗﺼﺮﯾﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﭨﯿﮍﮬﯽ ﭘﺴﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻧﻔﻊ ﺍﭨﮭﺎ۔
تفسیر ماجدی:
اس سلسلے میں اہل علم حضرات سے رجوع کرنے پر پتی چلا کہ تفسیر ماجدی میں بھی اس سے ملتا جلتا موقف اختیار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ" تخلیق حوا کی تفصیلی کیفیت سے قرآن مجید تو یکسر ساکت ہے رہی حدیث سو اس کا بھی یہی حال ہے۔ جس مشہور حدیث کی رو سے حضرت حوا (علیہ السلام) کا حضرت آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا ہونا بیان کیا جاتا ہے اس میں ذکر نہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا ہے نہ حضرت حوا (علیہ السلام) کا ، بلکہ محض عورت کی پیدائش اور کج سرشتی کا بیان ہے ۔ آثار میں جو روایت ملتی ہے وہ روایت توریت کی آواز باز گشت ہے اور توریت کابیان حسب ذیل ہے :
’’ خداوندا نے آدم پر پیاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا ۔ اور خداوند خدا نے اس پسلی سے جو اس نے آدم (علیہ السلام) سے نکالی تھی ایک صورت بنا کر آدم کے پاس بھیجا ‘‘ (پیدائش 2:22،23
تفسیر در منثور
لیکن متعدد حوالوں میں پسلی سے پیدائش کی ہی تائید ملتی ہے. تفسیر در منثور میں وارد پے کہ
لیکن متعدد حوالوں میں پسلی سے پیدائش کی ہی تائید ملتی ہے. تفسیر در منثور میں وارد پے کہ
:عبد بن حمید وابن جریر رحمہ اللہ علیہ وابن المنذر نے قتادہ (رض) سے روایت کیا کہ (آیت )’’ خلقکم من نفس واحدۃ ‘‘ (تم کو پیدا کیا ایک جان سے ) یعنی آدم (علیہ السلام) سے (آیت )’’ وخلق منھا زوجھا ‘‘ (النساء آیت ١) (اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا ) یعنی آپ کی بیوی حضرت حوا کو آپ کو آپ کی پسلیوں میں سے ایک پسلی سے پیدا کیا ۔ (آیت )’’ وانزل لکم من الانعام ثمنیۃ ازواج، یخلقکم فی بطون امھتکم خلقا من بعد خلق فی ظلمت ثلث ‘‘ (اور تمہارے نفع کیلئے آٹھ نر اور مادہ چوپایوں کے پیدا کئے ۔ تم کو ماؤں کے پیٹ میں ایک کیفیت اور گوشت پھر طرح طرح بال اگائے (آیت )’’ فی ظلمت ثلث ‘‘ (تین اندھیروں میں ) یعنی پیٹ رحم اور مچھلی ( جس میں بچہ پیدا ہوتا ہے ) (آیت) ’’ فانی تصرفون ‘‘ (پھر تم کہاں حق سے پھرے جارہے ہو ) یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے (آیت )’’ فانی تصرفون ‘‘ (یعنی تم کہاں پھرے جاتے ہو)
تفسیر در منثور تخلیق حوا کی تفصیلی کیفیت سے قرآن مجید تو یکسر ساکت ہے رہی حدیث سو اس کا بھی یہی حال ہے۔ جس مشہور حدیث کی رو سے حضرت حوا (علیہ السلام) کا حضرت آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا ہونا بیان کیا جاتا ہے اس میں ذکر نہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا ہے نہ حضرت حوا (علیہ السلام) کا ، بلکہ محض عورت کی پیدائش اور کج سرشتی کا بیان ہے ۔ آثار میں جو روایت ملتی ہے وہ روایت توریت کی آواز باز گشت ہے اور توریت کابیان حسب ذیل ہے :۔’’ خداوندا نے آدم پر پیاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا ۔ اور خداوند خدا نے اس پسلی سے جو اس نے آدم (علیہ السلام) سے نکالی تھی ایک صورت بنا کر آدم کے پاس بھیجا ‘‘ (پیدائش 2:22،23
فتح اللہ گولن
انسان کسی ارتقا کا نتیجہ نہیں، جیسا کہ مغربی مفکر ڈارون کا نظریہ ہے بلکہ فتح اللہ گولن کے نزدیک اس کی تخلیق ایک مستقل نوع کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ اس کا ظہور دوسری انواع کے ارتقا کے نتیجے میں ہوا، نہ اس کی خصوصیات ارتقائی مراحل کا نتیجہ ہیں اور نہ ہی وہ خود فطری انتخاب کا نتیجہ ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی حیثیت سے اس کی تخلیق فرمائی ہے۔ انسانی تخلیق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق کی مانندمعجزہ ہے،جس کی اسباب کی روشنی میں کوئی توجیہہ پیش کرناممکن نہیں،ابھی تک علمائے طبیعیات اورماہرین ارتقا زندگی کے ظہورپذیرہونے کی کیفیت کی مثبت اور صحیح اندازسے وضاحت نہیں کرسکے۔اس سلسلے میں انہوں نے جو نظریات پیش کیے ہیں ان کی بنیادیں کھوکھلی اور کمزور ہیں۔وہ کسی صحیح سائنسی بنیادپرقائم نہیں۔کڑے تنقیدی جائزوں کے نتیجے میں ان کی بے مائیگی واضح ہوچکی ہے۔اس موضوع پربہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔دلچسپی رکھنے والے حضرات ان کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں۔
جب ہم اسباب کے دائرے میں اس موضوع پرگفتگوکرتے ہیں توہم ‘علت و معلول’، ‘سبب اور مسبب’ اور ‘علت کی مناسبت’ کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں، مثلاًہم کہتے ہیں کہ مشیت خداوندی کے بعد ایک چھوٹے سے بیج سے ایک قدآور درخت کے نشوونما پانے کے لئے مخصوص شرائط مثلاًمناسب آب و ہوا اور اچھی زمین کے ساتھ ساتھ بیج میں عناصرِحیات کا پایا جانا ضروری ہے۔ جب یہ تمام اسباب جمع ہو جاتے ہیں تو ‘علت تامہ’ وجود میں آتی ہے، جو معلول کے ظہور پذیر ہونے کا باعث بنتی ہے، دوسرے لفظوں میں یہ اسباب اذنِ خداوندی سے بیج سے درخت اور انڈے سے چوزے کے پیداہونے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
پہلے انسان کی تخلیق ایک معجزہ ہے۔ سبب اور مسب کے پہلو سے ہم اس موضوع کا درج ذیل طریقے سے تجزیہ کرسکتے :
فرض کریں ہم ایک جانورسے دوسراجانورحاصل کرناچاہتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ہم نے پرندے اور مرغی نیزگھوڑی اور درازگوش میں جنسی ملاپ کرایا۔پہلی صورت میں کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا،جبکہ دوسری صورت میں خچرکی صورت میں ایک ایسا بانجھ جانورحاصل ہوا جو اپنی نسل کوجاری رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے،اس لیے ثابت ہوتاہے کہ علت ناقص تھی، دوسرے لفظوں میں‘‘علت کی مناسبت’’کے اصول کے تحت نتیجے تک پہنچنے میں کہیں کوتاہی ہوئی ہے،لیکن دوسری طرف مرداورعورت کے جنسی ملاپ کے نتیجے میں ایک کامل انسان وجودمیں آتاہے،کیونکہ عورت کے رحم میں مردکے ‘‘سپرم’’کے عورت کے ‘‘بیضہ’’کے ساتھ ملاپ کے وقت تمام اسباب مکمل طور پر موجود ہوتے ہیں اورجنین اذنِ خداوندی اورمشیت الہٰیہ سے نشوونماپاتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتاہے اوربلاآخر ماں کے پیٹ سے اس عالم رنگ و بومیں آجاتاہے،دوسرے لفظوں میں تمام اسباب کے بیک وقت پائے جانے کی وجہ سے ہمیں حسبِ توقع نتائج حاصل ہوجاتے ہیں،گو اللہ تعالیٰ اس نظام کوتبدیل کرنے پربھی قدرت رکھتے ہیں اور بچے کوکسی دوسرے طریقے سے بھی پیدافرماسکتے ہیں۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولادت۔(عربی مترجم)
یہ بات تواسباب کی حد تک تھی،لیکن جب کوئی واقعہ سبب و مسبب اورعلت و معلول کے دائرے سے باہرپیش آئے تواسے ارتقا اورفطری انتخاب کی روشنی میں سمجھنے کی بجائے اسی صورت میں قبول کرناچاہیے،جس صورت میں اس کے وقوع پذیرہونے کی اللہ اوراس کے رسول نے ہمیں اطلاع دی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتے ہیں کہ زیرغور موضوع سے متعلق بعض معجزات بھی رونما ہوئے ہیں،جن کی کوئی عقلی یاسائنسی توجیہہ پیش کرنے سے ہم قاصرہیں،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے معجزانہ طورپرپیدافرمایا،جس سے ثابت ہوتاہے کہ اگراللہ تعالیٰ چاہیں توکسی بھی جاندار کو بغیر باپ یا بغیر ماں یا بغیر ماں باپ کے پیدا فرما سکتے ہیں،ایسے مواقع پر اسباب کی کڑیاں نہیں ملائی جا سکتیں۔قرآن کریم چیلنج کرتے ہوئے کہتاہے:﴿قُلْ سِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَیْفَ بَدَأ الْخَلْقَ﴾(العنکبوت:۲۰)‘‘کہہ دو کہ ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کیا ہے۔’’ کیونکہ عدم سے تخلیق کرنے کی کوئی سائنسی توجیہہ ممکن نہیں۔
اسی سے ملتی جلتی صورتِ حال حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت حواء علیہا السلام کی تخلیق کی ہے،جو ایک مستقل معجزہ ہے،کیونکہ اس صورتِ حال کی اسباب کے دائرے میں توجیہہ ممکن نہیں ہے،تاہم کسی چیزکومحض ناقابل توجیہہ ہونے کی بنیادپررد نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بھی یہی صورتحال ہے:﴿إِنَّ مَثَلَ عِیْسَی عِندَ اللّہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَہُ کُن فَیَکُون﴾(آلِ عمران:۵۹)‘‘عیسیٰ کا حال اللہ کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے پہلے مٹی سے ان کو بنایا پھر فرمایا باشعور انسان ہو جا تو وہ ویسے ہی ہو گئے۔’’انسانیت تخلیق کے آغازکی حقیقت کوفراموش کر چکی تھی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت نے اس بھولی ہوئی حقیقت کو پھر سے انسانیت کے ذہن نشین کرایا۔
اب ہم حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت حواء علیہا السلام کی پیدائش کے موضوع کی طرف آتے ہیں۔میرے خیال میں اس موضوع سے متعلق اور بھی سوالات ذہنوں میں جنم لیتے ہیں، مثلاًحضرت حواء علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کی سب سے چھوٹی پسلی سے کیوں پیدا کیا گیا؟ پھر پسلی کا ہی انتخاب کیوں ہوا؟ نیز انہیں حضرت آدم علیہ السلام سے ہی کیوں پیداکیاگیا؟
تاہم سب سے پہلے میں آپ کی توجہ ایک اہم پہلو کی طرف مبذول کرانا مناسب خیال کرتاہوں، وہ یہ کہ انسان کے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونے پراس کثرت سے مضبوط دلائل موجودہیں کہ انہیں ردکرناممکن نہیں۔یہ حقیقت اللہ تعالیٰ کے وجود کی بھی کھلی دلیل ہے اورکائنات میں جاری قوانین،نظم ونسق اوراصول ومبادی اس حقیقت پر شاہدہیں،نیزانسان کی حقیقت،اس کی باطنی کیفیات،دل اور ابھی تک پردۂ خفا میں موجود دیگر لطائف بھی وجودِ باری تعالیٰ کی طرف مشیرہیں۔اللہ تعالیٰ کے وجود پر ہزاروں مضبوط دلائل موجودہیں۔فلاسفہ،مفکرین اور علمائے کرام میں سے جس نے بھی ان دلائل کاسہارا لیاہے،وہ سلامتی کے ساحل پرجاپہنچا۔اگرآپ کے پاس ایسے ایک ہزار دلائل موجود ہوں تو آپ کا موقف کس قدر مضبوط ہو گا۔
آج بعض منکرینِ خدا اور بے دین لوگ ان تمام دلائل سے صر فِ نظر کر کے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حواء علیہا السلام کی پیدائش کو انکارِخدا اوربے دینی کے جواز کی دلیل کے طورپرپیش کرتے ہیں۔ایک عظیم مرشد بدیع الزمان سعید نورسی مرادہیں۔(عربی مترجم)ایسے لوگوں کی حالت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اے دوست!دراصل تمہارے دل میں اندھاپن ہے،جوآفتابِ حقیقت کے مشاہدے میں رکاوٹ ہے۔’’مشاہدے اورتجربے سے ثابت ہے کہ اگر اس قسم کے اندھے پن میں مبتلا لوگ کسی ماہرتعمیرات کے بنائے ہوئے عالیشان محل کو دیکھیں اور اس محل کے وجود پر بے شمار دلائل موجود ہوں،لیکن اگر انہیں اس محل میں کوئی ایک چھوٹا سا پتھر بھی غیرمتوازن صورت میں پڑا ہوا ملے تو وہ سرے سے محل کے وجود کا ہی انکار کردیتے ہیں۔اس سے ان کی جہالت،حماقت اور تخریبی ذہنیت کااندازہ ہوتا ہے۔‘‘یہ اندھی تقلید،بغیردلیل کے رائے قائم کرنے اور عقل و دانش کے فقدان کے سوا کچھ نہیں۔انفس و آفاق میں وجودِ باری تعالیٰ پرہزاروں دلائل کے ہوتے ہوئے اس قسم کی یک طرفہ سوچ رکھناکیا واضح غلطی نہیں ہے؟‘‘ پسلی سے پیدائش کاتذکرہ صحیح بخاری،صحیح مسلم اورمسنداحمدبن حنبل کی روایات میں موجود ہے۔ کتبِ حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حواء علیہا السلام کی پیدائش کے تذکرے کے علاوہ سورتِ نساء میں مذکورہے:
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا﴾(النساء:۱)
‘‘اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو،جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا یعنی اول اس سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں ضمیر ‘‘ھاء’’ آدم کی بجائے ‘‘النفس’’ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ایک اورآیت مبارکہ میں بھی یہ بات واضح طورپردکھائی دے رہی ہے:﴿خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا﴾(الزمر:۶) ‘‘
اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘
یہ تعبیرقابل غورہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کی ذات کی بجائے ان کی ماہیت سے پیداکیا ہے۔یہ بہت باریک نکتہ ہے۔نفسِ آدم ماہیت آدم سے مختلف چیزہے،مثلاًانسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی لمبائی،وزن اور خدوخال ایسے ایسے ہیں،نیزاس کی ایک ماہیت،ظاہری عالم،باطنی عالم،فکراوراللہ تعالیٰ سے قرب یا بُعدہے۔جب انسان کو ذات کی حیثیت سے زیربحث لایاگیاہے تو اسے ماہیت کی حیثیت سے بھی زیربحث لایا جاناچاہیے،کیونکہ پہلی حیثیت تومحض اس کی ظاہری ہیئت سے عبارت ہے۔اس اعتبار سے ان کی ذات اورنفس ایک ہی چیزکے دو نام ہیں اوران کا جسم ان سے مختلف اوردوسری چیزہے۔قرآنِ کریم حضرت حواء علیہا السلام کی تخلیق کے موضوع پرگفتگوکرتے ہوئے کہتاہے کہ ان کی تخلیق آدم کے نفس سے ہوئی ہے نہ کہ آدم سے۔
چونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث تواتر سے ثابت نہیں،بلکہ اخبارِاحادہیں،اس لیے ضروری ہے کہ ان کے مفہوم کا تعین قرآنی آیات کی روشنی میں کیاجائے۔آیات و احادیث کی تشریح و توضیح کے سلسلے میں یہ ایک اہم اصول ہے۔چونکہ زیربحث آیت مبارکہ متواتربھی ہے اوراللہ تعالیٰ کاکلام بھی ہے، اس لیے حدیث نبوی کے مبہم پہلوؤں کی وضاحت کے لیے آیت مبارکہ کی طرف رجوع کرناضروری ہے،نیزاس حدیث کے سیاق و سباق اورپس منظرسے واقفیت بھی ناگزیرہے۔
ارشادنبوی ہے:‘‘جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتاہے،وہ اپنے پڑوسی کو ایذاء نہ پہنچائے،عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کو قبول کرو۔وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔پسلی کاسب سے ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والاحصہ ہوتاہے۔اگرتم اسے سیدھاکرنے لگوگے تواسے توڑبیٹھوگے اوراگراسے یوں ہی چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔عورتوں کے بارے میں خیرخواہی کی نصیحت کوقبول کرو۔’’(۳) البخاری، النکاح،۸۰ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا مقصدعورتوں کی تربیت اور گھر کے نظم ونسق کے بارے میں بتانا ہے،لہٰذا اگرآپ جلدی میں عورت کی اصلاح کی کوشش کریں گے توآپ اسے توڑ بیٹھیں گے اور اگر آپ نے اس کی اصلاح کو نظرانداز کر دیا تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے آپﷺنے ایک بہت اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے،وہ یہ کہ عورتوں میں مردوں کی بہ نسبت کج روی کے پیداہونے کازیادہ امکان ہوتاہے،نیز نازک مزاج ہونے کی وجہ سے ان میں شکستگی کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ درحقیقت حدیث شریف کااصل مقصدحضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حواء علیہا السلام کی تخلیق کی وضاحت کرنانہیں ہے،بلکہ اس طرف اشارہ کرناہے کہ اگر عورت کو اپنے حال پرچھوڑدیاجائے تواس میں کج روی باقی رہتی ہے اوراگراسے جلدبازی میں سیدھاکرنے کی کوشش کی جائے تو اس کانتیجہ شکستگی کی صورت میں نکلتا ہے۔
مفہوم کی اس تعبیر میں حکمت پوشیدہ ہے۔رسول اللہﷺنے حدیث پاک میں ’’من ضلع‘‘کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔عربی زبان میں‘‘من’’ کا لفظ کبھی توتبعیض یعنی جزئیت پر دلالت کرنے کے لیے آتاہے اور کبھی‘‘بیان’’ یعنی جنس کی وضاحت کے لیے آتاہے، لہٰذاچونکہ رسول اللہﷺنے اس موضوع پر کوئی واضح موقف اختیارنہیں فرمایا،اس لیے اس تعبیر کی مختلف توجیہات ہوسکتی ہیں۔
ذخیرۂ احادیث میں اس کی اور بھی بہت سے مثالیں ملتی ہیں،مثلاًارشادِنبوی ہے: ‘‘لا تصلوا فی مبارک الابل،فانہا من الشیاطین’’(۴)
فیض القدیر،جلددوم،حدیث نمبر: ۱۹۴۸.
‘‘اونٹوں کے باڑے میں نمازمت پڑھو،کیونکہ وہ شیاطین میں سے ہے۔’’جب رسول اللہﷺانسانوں کی طرح جانوروں کے لیے بھی شیاطین کا ہونا بتاتے ہیں تواس سے رسول اللہﷺکا مقصود یہ ہوتا ہے کہ جانور بعض اوقات شیطانی کام کرتے ہیں،یعنی ہمیں شیطانی تصرف سے آگاہ کرنا مقصود ہوتاہے۔جب ہم کسی بے حس اور موٹی عقل کے انسان کے بارے میں کہتے ہیں: ‘‘ھذا الرجل مخلوق من خطب’’ (یہ شخص لکڑی کابناہواہے۔) توہمارا مقصود یہ بتانا نہیں ہوتا کہ وہ واقعی لکڑی کا بنا ہوا ہے،بلکہ ہم مجازاً اس کی بے حسی،شعور کی کمی اور جذبات کی پژمردگی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں،اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص شیطان ہے توہم اس طرف اشارہ کرناچاہتے ہیں کہ وہ لوگوں کوبہکاتا،گمراہ کرتا اور گناہوں کے راستے پرڈالتاہے۔
اب ہم آیت مبارکہ کی روشنی میں اس حدیث نبوی پرغورکرتے ہیں۔عورت کے آدم کی پسلی سے جنم لینے کامطلب یہ ہے کہ عورت آدم کا جوڑ اور اس کی ہم جنس ہے اور دونوں کے موروثی خواص ایک جیسے ہیں۔اگر مرد اورعورت کی جنس ایک نہ ہوتی توان کے درمیان توالدوتناسل کاسلسلہ نہ چل سکتا،کیونکہ آیت مبارکہ میں آگے چل کر ہے:﴿وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء﴾(النساء:۱)’’پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پیدا کر کے روئے زمین پر پھیلا دئیے۔‘‘یعنی اگردونوں کی جنس مختلف ہوتی تو ان کے درمیان توالدوتناسل کاسلسلہ جاری نہ ہوتا،اس لئے دونوں کا ہم جنس ہونا ناگزیر تھا۔حدیث میں مذکور لفظ ’’ضلع‘‘میں کج روی کی بہ نسبت کج روی کی طرف میلان اورسہولت سے کج روی کے پیداہونے کامفہوم زیادہ پایاجاتاہے۔
عورت کے مرد کی بہ نسبت کج روی کی طرف زیادہ مائل ہونے کی تعبیر کو رسول اللہﷺ نے بڑے اہتمام سے اختیارفرمایاہے۔اس معاملے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں،کیونکہ عملی صورت حال اس پرشاہد ہے۔غافل اورگمراہ لوگ دوسروں کوبہکانے کے لیے عورتوں کو آلہ کار کے طورپراستعمال کرتے ہیں۔بیسویں صدی میں توعورت کو اس قدراستعمال کیاگیاہے کہ پہلے کبھی بھی اسے اس قدراستعمال نہیں کیاگیا۔اشتہارات کو مؤثر بنانے کے لیے اکثر اشتہارات میں عورت کااستعمال اور اسے آلہ کار بنانا حدیث شریف میں وارد عورت کے ضعف کی وجہ سے ہی ہے اوراس کی دلیل بھی ہے۔ بھلاگاڑیوں کے ماڈلوں،باتھ ٹپ اور حمام کے سامان،کٹے ہوئے گوشت اور ہام برگر کی تشہیر میں عورت کی تصویروں کے استعمال کا کیا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟عورت اور ان اشیاء کے درمیان آخرکیاتعلق ہے؟رسول اللہﷺنے ہمیں بتایاہے کہ عورت مردکے سب سے ٹیڑھے حصے سے پیدا ہوئی ہے۔عورت کادورحاضرمیں گمراہ لوگوں کے ہاتھوں میں آلہ کار بننا اس بات کی تائید ہے۔عورت نوع انسانی کے سب سے زیادہ ٹیڑھے پہلوؤں کی علامت بن چکی ہے۔بلاشبہ اس بات کی وضاحت کے لیے اس سے بہترتعبیر اختیارنہیں کی جاسکتی تھی۔
آئیے اس موضوع کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھتے ہیں۔تورات کے سفرتکوین میں واضح طورپرمذکورہے کہ حضرت حواء علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے پہلو سے پیدا کیا گیا ہے۔اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں،کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ایک معجزہ تھی اورجب حضرت آدم علیہ السلام ابھی آب و گل کی درمیانی کیفیت میں تھے،اس وقت اماں حواء کی تخلیق کے لیے ان کے جسم کے کسی حصے سے کچھ اجزاء لینے میں کوئی تعجب کی بات نہیں،کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام اوراماں حضرت حواء علیہا السلام دونوں پہلی تخلیق کامعجزانہ مظہرتھے۔
اس پہلی تخلیق کے بارے میں سائنس کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کر سکتی۔ وہ اس کی حقیقت تک رسائی پانے سے عاجز ہے،کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ہربات کو تسلیم کرتے ہوئے اس تخلیق کو ایک معجزہ مانتے ہیں،لیکن ہم اسے بغیردلیل کے تسلیم نہیں کرتے،بلکہ ایٹم سے لے کرپوری کائنات تک ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کے ارادے ،حکم اور علم کامشاہدہ کرنے کے بعد اس پرایمان رکھتے ہیں،دوسرے لفظوں میں ہم اس بات کو دل و جان
سے تسلیم کرتے ہیں۔
تفسیر مظہری
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
ترجمہ:
یایھا الناس اے لوگو ! جو لوگ نزول آیت کے وقت موجود تھے ان کو براہ راست خطاب ہے اور آئندہ تمام آنے والے ان کے ذیل میں مخاطب ہیں۔
اتقوا ربکم اپنے رب سے ڈرو یعنی اسکے عذاب سے ڈرو جس کی (ظاہر) صورت یہ ہے کہ اسکے احکام پر چلو۔
الذی خلقکم جس نے تم کو پیدا کیا یعنی آغاز تخلیق کے زمانہ میں۔
من نفس واحدۃ ایک شخص سے یعنی حضرت آدم ( علیہ السلام) سے۔
و خلق منھا زوجھا اور اسی سے پیدا کیا اس کے جوڑے کو یعنی حضرت حوا کو بائیں پسلی سے حضرت ابو ہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : عورتیں آدم کی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں۔ (الحدیث صحیحین)
ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ حوا کو آدم کی سب سے چھوٹی پسلی سے پیدا کیا گیا ۔ ابن ابی شیبہ ، عبدبن حمید، ابن جریر ، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد کا قول بیان کیا ہے کہ آدم جب سورہے تھے تو حوا کو ان سے پیدا کیا گیا پھر وہ بیدار ہوئے ۔ دوسرا جملہ خلق منھا پہلے جملہ خلقکم من نفس واحدۃ کے مضمون کو پختہ کرنے کے لیے ذکر فرمایا۔
تفسیر ابن کثیر
کہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قدرت یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے بنائے کہ وہ تمہاری بیویاں بنتی ہیں اور تم ان کے خاوند ہوتے ہو ۔ یہ اس لئے کہ تمہیں ان سے سکوں وراحت آرام وآسائش حاصل ہو ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیویاں پیدا کی تاکہ وہ اس کی طرف راحت حاصل کرے ۔ حضرت حوا حضرت آدم کی بائیں پسلی سے جو سب سے زیادہ چھوٹی ہے پیدا ہوئی ہیں پس اگر انسان کا جوڑا انسان سے نہ ملتا اور کسی اور جنس سے ان کا جوڑا بندھتا تو موجودہ الفت ورحمت ان میں نہ ہوسکتی ۔
تفسیر در منثور
١:۔ عبد بن حمید وابن جریر رحمہ اللہ علیہ وابن المنذر نے قتادہ (رض) سے روایت کیا کہ (آیت )’’ خلقکم من نفس واحدۃ ‘‘ (تم کو پیدا کیا ایک جان سے ) یعنی آدم (علیہ السلام) سے (آیت )’’ وخلق منھا زوجھا ‘‘ (النساء آیت ١) (اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا ) یعنی آپ کی بیوی حضرت حوا کو آپ کو آپ کی پسلیوں میں سے ایک پسلی سے پیدا کیا ۔ (آیت )’’ وانزل لکم من الانعام ثمنیۃ ازواج، یخلقکم فی بطون امھتکم خلقا من بعد خلق فی ظلمت ثلث ‘‘ (اور تمہارے نفع کیلئے آٹھ نر اور مادہ چوپایوں کے پیدا کئے ۔ تم کو ماؤں کے پیٹ میں ایک کیفیت اور گوشت پھر طرح طرح بال اگائے (آیت )’’ فی ظلمت ثلث ‘‘ (تین اندھیروں میں ) یعنی پیٹ رحم اور مچھلی ( جس میں بچہ پیدا ہوتا ہے ) (آیت) ’’ فانی تصرفون ‘‘ (پھر تم کہاں حق سے پھرے جارہے ہو ) یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے (آیت )’’ فانی تصرفون ‘‘ (یعنی تم کہاں پھرے جاتے ہو)
جدید سائنس کی روشنی میں
قرآن کریم کو جدید دور کے سائنسی تقاضوں کے تناظر میں پڑھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ جدید سائنسی نظریات کے تناظر میں اگر ہماری نوجوان نسل کی رہنمائی نہ کی گئی تو وہ دین سے بہت دور ہو جائے گی اور ان کی سمجھ میں نہیں آئے گاکہ کس نظریہ کو تسلیم کرے۔ اگر یہ نسل تخلیق آدم کے بارے میں ہماری روایتی دینی تعلیم اور اس میں بیان کردہ نظریہ کو سامنے رکھ کر جدید سائنسی نظریہ پر غور کرتی ہے جو انسان کی تخلیق کے ارتقائی عمل سے متعلق ہے تو دورِ جدید کے ذہن کے لئے ہر دو نظریات پر بیک وقت یقین کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ بادی النظر میںیہ دونوں نظریے آپس میں متضاد و متصادم دکھائی دیتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں نظریوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ذہنی انتشار کا شکارہوکر رہ جاتا ہے۔ ہمیں ان خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب ہمیں جدید سائنس خصوصاً (Creation & Evolution ) کا بھی پوری طرح سے ادراک ہو۔ 2006ء تک تخلیق آدم کے سلسلہ میں Evolutionist کے مقابل Creationist اس بات کو چیلنج کرتے تھے کہ تدریجی ارتقائی عمل تو ایک عام پروٹین کی تخلیق کی بھی وضاحت نہیں کرسکتا جب کہ تخلیق آدم میں DNA اور RNA جو جینوم کی اکائیاں ہیںاور انتہائی پیچیدہ پروٹین کی شکلیں ہیں وہ صرف اور صرف ارتقائی عمل سے کیسے وجود میںآسکتی ہیں؟ میں نے اس سلسلہ میں امریکہ کے ایک موقر جریدے ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کو ایک مراسلہ لکھا کہ آپ قرآن حکیم کی آیاتِ کریمہ (الحجر15:26، الرحمن 55:14) کو اگر غور سے پڑھیں تو یہ زمین کی عمیق گہرائیوں میں بتدریج تخلیق کی اکائی (DNA اور RNA ) کی طرف اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بعد ازاں ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کے 2009ء ستمبر کے شمارے میں ایک مضمون شائع ہوا جس کی تفصیل آگے آئے گی اور وہ تقریباً ان آیاتِ کریمہ کی مکمل تفسیر بیان کرتا ہے۔
پیشتر اس کے کہ ہم اس مضمون کو آگے بڑھائیں ہمارے لئے سائنس کی اصطلاح میں انسانی روح اور بدنی اکائی کا جاننا ضروری ہے۔ سائنسدان اس بات پر متفق ہیںکہ ہماری روح اور بدنی اکائی جینوم (Genome ) ہے جس کے ڈی این اے (DNA ) اور آر این اے (RNA ) دو جزو ہیں آئندہ سطور میں ہم قرآن کریم کی روشنی میں زمین پر جینوم کی پیدائش اور ارتقاء کی وضاحت کریں گے
تخلیق آدم کی ابتداء کے ضمن میں قرآن کریم میں جو الفاظ آتے ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:
اَرْض ، تُرَاب ، طِیْن ، سلالۃ من طین ،
صلصال من حما مسنون ، صَلْصَال کالفخار
قرآن کریم میں آدم کی پیدائش کے لئے جو الفاظ آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
خلق ، انشأ ، انبت ۔
سب سے پہلے ہم ان الفاظ کے لغوی معانی تحقیق کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
انبت
اگانا، پروان چڑھانا، بتدریج بڑھانا، حیاتیاتی عمل وقوع پذیر ہونا۔ نامیاتی عمل وقوع پذیر ہونا۔ (dictionary.sensagent.com ) (لسان العرب)
انشأ
ابتداء کرنا، پیدا کرنا، اٹھانا، بلند کرنا۔ (لسان العرب)
خلق
پیدا کرنا، ابتداء کرنا، بنیاد رکھنا۔ (لسان العرب)
ارض
زمین، خشکی، مٹی، فرش۔ (dictionary.sensagent.com )
طین
(گارا، کیچڑ، دلدل۔) طین
تراب
(زمین، سطح زمین، مٹی۔) تراب
(۱)
صَلْصَال
ایسی مٹی جس میں ریت بھی شامل ہو اور جب وہ سوکھ جائے تو آواز دینے لگے۔
(۲)
فَخّار
جب ’’صلصال‘‘ کو آگ دی جائے تو وہ ’’فخّار‘‘ کہلاتی ہے۔ (انتہائی گرم سطح پر زمین کی ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے)
(۳)
حما
سیاہ مٹی زمین کی عمیق گہرائیوں میں موجود مختلف معدنیات اور نمکیات وغیرہ کی طرف اشارہ ہے
(۴)
مسنون
ایسی چیز جس کی حالت بدل دی گئی ہو اور بدبودار ہو۔ جس کی شکل تبدیل کردی گئی ہو۔ جس کو ڈھالا گیا ہو۔ جس کو رگڑا گیا ہو۔ (لسان العرب) معدنیات و نمکیات کا مسلسل اور متواتر انتہائی گرم اور انتہائی سرد طبقات الارض کے درمیان گردش رگڑ اورڈھلنے کا عمل۔
(۵)
سُلالۃ
اصل، جوہر۔
(۱-۵) ان تمام الفاظ کی تفصیل اور تفسیر کے تناظر میں اگر ہم آدم کی تخلیقی اکائی یعنی ابتدائی جزو ’’جین‘‘ کی مرحلہ وار تخلیق کو پرکھیں اور زمین کی عمیق گہرائیوں پہ نظر دوڑائیں تو یہ سڑا ہوا گارا (سیاہ مٹی)، آگ، ریت، ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی زمین وغیرہ ہمیں تخلیق آدم کی ابتداء میں DNA ، اور RNA کے پیدا کرنے سے متعلق بہت سے اشارے دیتی ہے۔
اﷲ رب العزت نے انسان کی تخلیق اسی زمین پر کی ہے۔ اور اس کی تخلیق کے لئے تمام ضروری اجزاء بھی اسی زمین سے مہیا کئے ہیں۔ ارشاد ہے:
ھُوَ اَنْشَأَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ (ہود 11:61)
اس (اﷲ) نے تمہیں زمین (میں) سے بنایا۔
اسی طرح قرآن حکیم میں یہ بات بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ تخلیق انسان کے ضمن میں جتنے بھی مراحل درکار تھے وہ بھی تمام کے تمام اسی زمین پر مکمل کیے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں انسان کی زمین سے بتدریج تخلیق کے بارے میں ارشاد ہے:
(ارض) قرآن کریم میں انسان کی تبدریج مٹی سے تخلیق کے بارے میں ارشاد ہے:
وَ اللّٰہُ اَ نْبَتَــکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَـبَـا تًا (نوح 71:17))
’’اور اﷲ نے تم کو زمین سے (بتدریج) ایک ( خاص) اہتمام سے اگایا (یعنی پروان چڑھایا) ہے۔‘‘
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تخلیق آدم کا تمام ارتقائی عمل اسی زمین پر مکمل ہوا تو درج ذیل آیت ملاحظہ فرمائیں جس میں اﷲ رب العزت نے تخلیق آدم کی ابتداء کے بارے میں ایک نہایت ہی اہم بات ارشاد فرمائی ہے۔ ارشاد ہے:
وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ (الحجر15:26)
اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے بے شک میں تخلیق کرنے والا ہوں بشر کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے۔
بالکل اسی طرح کا مضمون اسی سورۃ کی آیت نمبر26 اور 33 میں بھی وارد ہوا ہے جبکہ اسی طرح کا ایک اور مضمون قدرے تغیر کے ساتھ سورۃ رحمن کی آیت نمبر 14 میں آیا ہے۔ ارشاد ہے:
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ (الرحمٰن 55:14)
’’اس (اﷲ) نے انسان کو کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا جیسے ٹھیکرا۔‘‘
مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں سائنٹفک امریکن کے جریدہ ستمبر 2009 کے صفحہ نمبر 38 پر دیے گئے مضمون Life on Erarth جسے David Attenborough نے ترتیب دیا توجہ سے پڑھنے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مضمون در اصل سورۃ الحجر15 آیت نمبر 26,28 اور سورۃ رحمن 55 آیت 14 کی تفسیر ہے اس مضمون میں تخلیق آدم سے متعلق DNA کے لازمی جزو یعنی Nucliac Acid کی تخلیق کے عمل میں Peptide Nucliac Acid کی تخلیق کے عمل کو تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ یہ زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں کھنکھناتی مٹی اور سڑے ہوئے گارے کے مابین وقوع پذیر ہونے والا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ آپ لفظ ’’صلصال کالفخار‘‘ اور ’’صلصال من حما مسنون‘‘ کے عربی تراجم دیکھیں تو آپ حیران ہوجائیں گے کہ خداوند قدوس نے کس خوبصورتی سے تخلیق آدم کے عمل کو چند الفاظ میں بیان کردیا ہے۔
Researchers have found that the genetic molecule RNA could have formed from chemicals (black earthy material) present in the early earth. Other studies have supported this concept that primitive cells containing molecules similar to RNA could assemble spontaneously, reproduce and evolve, giving rise to nucleobases, peptide nucleic acid the proto cells and hence forming the basis of life. (Life on Earth-Scientific American Sep 2009 )
(Salsal Kalfakhar" and "Hama Masnoon " صلصال کالفخار، حما مسنون, if we carefully concentrate on the meaning of these two words mentioned in the Holy Qur'an are referring to the details of the chemical process taking place deep down in the early Earth)
DNA اور RNA کی تخلیق میں فاسفیٹ اور شوگر کے ذرات (Molecules ) ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ ذرات زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں دوسرے معدنیات کے ساتھ شروع ہی سے موجود تھے۔ تخلیق کے عمل میں وہ معدنیات جن میں فاسفورس یا فاسفیٹ موجودتھی انتہائی گرم درجہ حرارت پر محلول (Soluble State ) میں بدل جاتی تھیں یہ عمل دوسری جانب (شاید برف سے ڈھکے ہوے) ٹھنڈے پانی سے تعامل کرکے دوبارہ ان معدنیات کو ٹھوس شکل میں بدل دیتا تھا۔ ان دو انتہائی درجہ حرارت کے درمیان جب یہ فاسفیٹ اور شوگر پانی کی موجودگی میں انتہائی گرم حالت سے یکدم ٹھنڈے ہوتے تھے اور پھر گرم ہوتے تھے تو اس عمل کا باربار دہرایا جانا DNA اور RNA کی تخلیق میں کلیدی عامل ہونے کا سبب بنا۔ (جریدہ سائنٹفک امریکن کے مضمون کے متن سے ماخوذ)
Peptide Nucliac Acid کی تخلیق کا عمل زمین کی عمیق گہرائیوں میں طے ہونا قرار پایا۔ پھر یہ Genetic array صدیوں پر محیط وقت میں بتدریج جینیاتی تبدیلی کے ساتھ Nucliac acid اور پھر ’’تراب‘‘ Genetic Permutation of Sperm جو در اصل نطفہ کا جینیاتی نعم البدل ہے کی شکل دھار لیتا ہے جو بالآخر ’’طین‘‘ پر اپنے ارتقائی عمل کو مکمل کرلیتا ہے۔ ’’طین‘‘ در اصل نطفہ اور بیضہ کے ملاپ کے جینیاتی نعم البدل یعنی Genetic permutation of Fertilzed Ovum کو ظاہر کرتا ہے۔
قرآن کریم میں لفظ تراب کو بہت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے:
سورہ کہف 18 آیت نمبر 37، سورہ الحج 22 آیت نمبر 5، سورہ فاطر 35 آیت نمبر 11 میں اس بات کو تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ’’پہلے میں نے تمہیں تراب سے پیدا کیا پھر نطفہ سے‘‘ جبکہ سورہ آل عمران 3 آیت نمبر 59 میں آتا ہے کہ ’’بے شک (تخلیق) عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے بنایا اُس (آدم) کو تراب سے پھر اُسے کہا ’ہوجا‘، پس وہ ہوگیا۔
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَـــہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَــــہ کُنْ فَـیَـکُوْنُ (آلِ عمران 3:59)
’’بے شک عیسٰی کی مثال اﷲ کے نزدیک آدم کی مثال جیسی ہے۔ بنایا اس (آدم) کو ’’تراب‘‘ سے پھر اسے کہا ہو جا پس وہ ہوگیا۔‘‘
اب آپ قرآن کریم کی ان آیات کو پڑھیں جن میں تخلیق آدم سے متعلق یہ لکھا ہے کہ میں نے پہلے تمہیں تراب سے پیدا کیا پھر نطفہ سے اور اس کی تکرار تین آیات میں کریمہ میں ہے:
خَلَقَکَ مِنْ تُرْابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ (کہف 18:37)
’’اس (اﷲ) نے تمہیں تراب سے پیدا کیا پھر نطفہ سے۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش میں مرد (نطفہ) کا کوئی عمل نہیں تو پھر تراب جس کے لغوی معنی مٹی وغیرہ کے لئے گئے ہیں کا کیا عمل ہوسکتا ہے۔ یہ آیت کریمہ واضح طور پر جینیاتی عمل کی طرف اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور لفظ تراب کے معنی نطفہ کا جینیاتی نعم البدل (Genetic Permutation of Sperm ) بتاتی ہے۔ جبکہ تخلیق آدم میں لفظ ’’طین‘‘ اور ’’طین کے جوہر‘‘ کی تفصیل قرآنِ کریم کی ان آیاتِ کریمہ میں بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان ہوئی ہے۔
الَّذِیْ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْیئٍ خَلَقَــہ وَ بَدَ اَ خَلْقَ الْاِ نْسَا نِ مِنْ طِیْنٍo ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآئٍ مَّھِیْنٍ o (السجدۃ 32:7,8)
جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی پیدائش گارے (طین) سے شروع کی۔ پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے جوہر (نطفہ یعنی تراب) سے چلائی۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍٍ o ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍٍ مَّکِیْنٍٍ o (المؤمنون 23:12,13)
یقینا ہم نے انسان کو ’’طین‘‘ کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔
یہ دونوں آیات ’’طین‘‘ یعنی ابتدائی جینیاتی تخلیق اور بعد ازاں زمین پر انسانی تخلیق کے مراحل کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ’’طین‘‘ سے ایک انسان کی تخلیق عمل میں آتی ہے اور اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کا جوہر (نطفہ) سے عمل میں آتی ہے (دوسری آیات میں) اسی طین کے جوہر (نطفہ) سے اس کی نسل کی آئندہ تخلیق کے عمل کو (بیضہ اور نطفہ کے ملاپ کا جینیاتی متبادل) جاری رکھا اور اس جوہر (تراب) کو نطفہ بناکر ایک محفوظ جگہ (Testicles ) خصیے میں رکھ دیا۔
پہلے تخلیق آدم کی بنیاد تراب تھی جو بعد میں نطفہ سے آگے بڑھی در اصل ارتقائی عمل جس میں ’’تراب‘‘ جو در اصل نطفہ کا جینیاتی نعم البدل ہے اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے کہ تخلیق آدم کا عمل ہر مرحلہ میں ایک جینیاتی تبدیلی کا مرہونِ منت رہا ہے اور جب مکمل انسان (آدم، حوا) کی تخلیق ہوگئی تو بعد ازاں انسانی نسل کا اجراء نطفہ سے ہوا۔ یعنی تراب ہماری جینز کی ترتیب ہے جو بعد میں نطفہ یعنی Sperm کی عملی شکل بن گئی۔ حضر ت عیسیٰ کی پیدائش میں مرد کا کوئی حصہ نہیں یعنی نطفہ نہیں تو پھر یہ عمل ovum میں جینز کی ترتیب کو ایک مادۂ تولید کی جگہ عمل میں لا کر مکمل کیا گیا۔
جب انسان (آدم، حوا) کی تخلیق ہوگئی تو بعد ازاں انسانی نسل کی افزائش نطفہ سے جاری رہی۔ تخلیق کے ارتقائی عمل کو آگے بیان کرنے سے پیشتر سورہ الاعراف 7 کی آیت نمبر 172 پر نظر دوڑائیں:
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ مبَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِ ھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَ اَشْھَدَ ھُمْ عَلٰٓی اَ نْفُسِھِمْ اَ لَسْتُ بِرَ بِّکُمْ ط قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنَ (الاعراف 7:172)
اور جب تمہارے رب نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے ان ہی کے متعلق اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا) کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں۔ ہم گواہ بنتے ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) یہ اقرار اس لئے کرایا تھا کہ قیامت کے دن یوں نہ کہو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔
یہ آیت کریمہ تخلیق آدم کی اولین حیثیت کو واضح طور پر بیان کرتی ہے جو لفظ ’’طین‘‘ در اصل ایک جینیاتی عمل کی ایک شکل (Fertilized ovum ) ہے اور اس کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد ایک جینیاتی عمل ہے اسے آپ کچھ اس انداز سے دیکھیں ایک ماہر انجینئر کسی بلڈنگ کا ڈیزائن بناتا ہے اور بعد میں اس کی تعمیر اینٹ، بجری، سیمنٹ، لوہا وغیرہ سے شروع کی جاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کا حتمی طور پر اشارہ کررہی ہے کہ ہماری اولاً تخلیق کا عمل جینیاتی تھا اور اُس جینیاتی مخلوق سے ہی وعدہ لیا گیا کہ ’’تمہارا رب کون ہے؟‘‘
یہاں پر ایک بات قابل غور ہے کہ خداوند قدوس نے انسان (جینیاتی ماڈل) کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور پھر فرشتوں اور ابلیس سے اس کو سجدہ کرنے کے لئے کہا جس پر ابلیس نے انکا رکیا۔ اگر آدم یعنی انسان کی تخلیق آسمانوںمیں ہماری طرح ہوتی تو اس کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد بھی روز اول سے قیامت تک بعینہ ہماری شکل کی ہوتی جس سے وعدہ لیا گیا تھا کہ تمہارا رب کون ہے۔ لیکن اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ آدم کی پہلی تخلیق مٹی سے انسانی شکل میں ہوئی مگر اس کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد ارواح تھیں جن سے رب العزت نے وعدہ لیا۔ ’’اَلَسْتُ ِبِرَبِّکُمْ‘‘ اگر ہم سورۃ نوح کی سترہویں آیت کریمہ کو سامنے رکھتے ہوئے انسان کی تخلیق بتدریج مٹی سے ہونے کوسامنے رکھیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا تھا کہ یہ آدم اپنی تخلیق کے پورے مراحل زمین یا آسمانوں میں طے کر گیااور پھر جنت میں اُ س نے رب العزت کے احکامات کی تعمیل میں لغزش برتی۔ آگے کے واقعات آپ کے سامنے ہیں۔ لیکن ان ہر دو صورتوں میں ہماری تخلیق آسمانوں میں بھی انسانی حیثیت میں ہوتی، ایسی کوئی بات مسلمہ طور پر سامنے نہیں آتی۔
انسان کی تخلیق مٹی سے بتدریج ہونے کے تمام شواہد قرآنِ کریم کی آیات کے مندرجات سے واضح کردیئے گئے ہیں۔ یہاں ایک بات جو قرآنِ کریم اور سائنس میں قطعی طور پر مطابقت رکھتی ہے وہ نسلِ انسانی کی تخلیق میں ایک حوا (mitochondrial ) کا رول ماڈل ہے جو بعد میں کرۂ ارض کے تمام حصوں میں افریقہ سے پیدا ہونے کے بعد پھیل گیا۔ نیز یہ بات بھی خصوصی طورپر توجہ طلب ہے کہ جب بندروں کی نسل کرۂ ارض کے تمام حصوں میں پروان چڑھ رہی تھی تو پھریہ کیوں صرف اور صرف افریقہ ہی میں جدید دور کے انسان کی شکل میںپروان چڑھ سکی اور زود یا بدیر یہ دنیا کے دیگر حصوںمیں کیونکر ممکن نہ ہوسکا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جینیاتی کوڈ جو قدرت نے انسانی تخلیق کے لئے مخصوص کیا وہ اپنے انداز میں ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے خاص حالات میں بالآخر ایک جدید انسان بن سکا۔
وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہ تَقْدِیْرًا
اور (اﷲ ہی نے) ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا۔ (یعنی تخلیق کا کوڈ اس کے جینوم میں لکھ دیا اور اس کے لئے متعین کردیا)
اور حیران کن بات یہ ہے کہ جدید سائنسدان بھی (دیکھئے حوالہ (National Geographic Feb, 2009 ) اس بات پر متفق ہیں کہ ہر جاندار کے اندر اس کی تخلیق کا کوڈ اس کے (Genome )یعنیDNA, RNAمیں لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی قدرت ایک ایسی طاقت ہے کہ جس کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے جس نے اس قدر پیچیدہ کوڈ جو ساڑھے تین ارب حروف (Letters ) پر مشتمل ہے (اگر ایک سیکنڈ میں ہم دس حروف پڑھ سکیں تو ہمیں مکمل متن پڑھنے کے لئے گیارہ سال درکار ہوں گے) انسان کے جینوم میں لکھ دیا۔ اس کوڈ کو ابھی تک قطعی طور پر سمجھنا انسانی ذہن کے لئے تقریباً ناممکن ہے۔ یہ تمام بحث اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہر انسان کی تخلیق خداوند قدوس نے اپنے ہاتھوں سے مخصوص مقصد کے لئے فرمائی۔ جس نے بعد میں اپنا ارتقائی عمل جاری رکھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے رب العزت نے زمینوں اور آسمانوں کو حکم دیا کہ ہو جائویعنی ’’کُن‘‘ تو ’’فَیَکُوْن‘‘ یعنی تمام وسائل عوامل اور اصول جو کائنات کی تخلیق کے لئے ضروری تھے۔ پہلے ایک سیکنڈ میں وجود میں آ گئے اور پھر کائنات نے تخلیق کے عمل کو جاری رکھا جس کو اربوں سال پر محیط ایک لمبا سفر طے کرنا پڑا۔ اسی طرح انسانی وجود DNA, RNA یعنی Genome اور Genetic Array کو رب العزت نے اپنے ہاتھوں سے آسمانوں میں ایک ماڈل (آدم و حوا) کی شکل میں تخلیق کیا اور پھر اس زمین پر اپنا ارتقائی عمل جاری رکھتے ہوئے کتنا وقت لگا اس کا اندازہ شاید ہی ہم کر سکیں۔ تخلیق کا ارتقائی عمل ہمارے کئی عقدے حل کرتا ہے ان میں سب سے اچھوتی بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق میں جن جینوم نے حصہ لیا وہ کوئی غیر معمولی نوعیت کے نہیں بلکہ یہ تو وہی جینز ہیں جو دوسری مخلوقات میں پائی جاتی ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے مختلف بلڈنگ بنانے کے لئے آپ کو مختلف بلڈنگ مٹیریل درکار نہیں ہوتا ویسے ہی مختلف کتابیں لکھنے کے لئے آپ کو مختلف الفاظ درکار نہیں ہوتے۔اس طرح ہمارے Genomeکی ساخت اور نوعیت تقریباً 60% فیصد وہی ہے جو چوہے میں ہے جبکہ چمپنزی (chimpanzee ) کے ساتھ ہماری جینیاتی مماثلت 99% فیصد ہے اور نوع انسانی کے جینیاتی ماڈل آپس میں 99.9% فیصد مطابقت رکھتے ہیں یعنی ہم جیناتی اعتبار سے صرف 0.1% فیصد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دراصل تخلیق انسان کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں جسے فیکٹری میں جوڑا جائے یہ تو ماحول، دیگر اثرات کے اندر پرورش پاتی ہے اور پروان چڑہتی ہے اسی لئے ارتقائی عمل کا اسکے وجود پر اثرانداز ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ماحول کا ارتقائی عمل پر اثر انداز ہونے کے عمل کو Micro Evolutionکہتے ہیں جب کہ Evolution Macro قطعی طور پر موروثی جینیاتی کوڈ (Inbuilt Genetic Code ) پر منحصر ہے جو قدرت(Nature )نے اس کے لئے لکھ دیا ہے اب آپ اس قدرت کو رب العزت یا God یا بھگوان جو بھی چاہیں نام دے دیں یہ آپ کی صوابدید پر ہے۔ خداوند قدوس فرماتے ہیں:
قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلْقَتُ بِیَدَیَّ ط اَسْتَــکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ (صٓ 38:75)
(اﷲ تعالیٰ نے فرمایا) اے ابلیس تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔ یہ تو نے غرور کیا یا تو بڑا تھا درجہ میں؟
یعنی میں نے آدم کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ تخلیق آدم کے وقت دراصل انسان کا جو مکمل Genetic Codeتھا خداوند قدوس نے تخلیق فرما کر اسے کوئی بھی شکل دی کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے اور جو چیز جیسے بھی چاہے ترتیب دے سکتا ہے۔ تخلیق آدم کے ساتھ حوا کی تخلیق پسلی سے کرنا انتہائی ذو معنی عمل ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس سے مراد متوازی یعنی Parallelتخلیق ہو کہ جب آدم کے Genomeترتیب دئیے جا رہے تھے ساتھ ہی ساتھ حوا کے Genomeکی تخلیق بھی جاری تھی بہرحال یہ تمام بحث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ تخلیق آدم ایک پہلے سے طے شدہ مٹی سے بتدریج تخلیق کے مراحل طے کرنے والی Pre-determind, Pre-ordainedحقیقت تھی اور باقی تمام مخلوق اس Genetic Arrayکی مختلف صورتوں میں ظہور پذیر ہونے والی خالق کائنات کا انعام تھا اور ’’پھر آدم اور حوا کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد سے (روز اول سے روز آخر تک) میں نے وعدہ لیا کہ تمہارا رب کون ہے تو تمام مخلو ق نے اس بات کا اقرار کیا کہ آپ ہمارے رب ہیں۔ ‘‘
جانداروں کی تخلیق کے بارے میں قرآن پاک میں واضح طور پر اعلان ہوتا ہے کہ میں نے تمام جانداروں کو پانی سے پیدا کیا:
وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَّآءٍ ۔ فَمِنْھُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰٓی اَرْبَعٍ ط یَخْلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ o
’’اور اﷲ نے پیدا کیا ہے ہر جاندار کو پانی سے سو ان میں سے وہ بھی ہیں جو چلتے ہیں پیٹ کے بل اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو چلتے ہیں دو ٹانگوں پر اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو چلتے ہیں چار ٹانگوں پر پیدا فرماتا ہے اﷲ جو چاہتا ہے۔بے شک اﷲ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے‘‘ (النور 45:24)
ہم آج تک یہ پڑھتے آئے تھے کہ تخلیق کے ابتدائی مراحل میں رینگنے والے جاندار ظہور میں آئے پھر وہ 4 ٹانگوں پر چلنا شروع ہوئے بعد میں انہوں نے 2 ٹانگوں پر چلنا شروع کردیا (یعنی انسان) لیکن قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ کچھ ترتیب الٹ بتا رہی ہے یعنی پہلے جاندار رینگ رہے تھے پھر انہوں نے 2 ٹانگوں پر اور بعد میں 4 ٹانگوں پر چلنا شروع کردیا۔
جدید تحقیق اس بات پر متفق ہے کہ سب سے پہلی مچھلی mudskippersنے اپنے اگلے فِن جو پائوں جیسی حرکت کرتے تھے سے چلنا شروع کیا اسی قسم کی دوسری مچھلی Lungfishتھی جس نے دو پائوں پر چلنا شروع کیا۔یہ ذکر چالیس کروڑ سال کا ہے پھر ان 2ٹانگوں والے Lethyostegaپہلے جانور تھے جنہوں نے چار ٹانگوں پر چلنا شروع کیا یہ ذکر پینتیس کروڑ سال کا ہے۔
(Invasion of the land; life on earth. Page149 by David Attenborough )
( سورۃ النور 45:24) اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب جینوم کے ارتقارئی عمل کی ترتیب جاری تھی تو اس کی ابتداء ہی سے دو بڑی شاخیں ترتیب میں آئیں؛ ایک تو وہ جس نے انسان بننا تھا اور دوسری وہ جس نے آخر کار مختلف اقسام کے جاندار بننا تھا۔ یہ آیت کریمہ Evolutionist سائنسدانوں کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔
اسی طرح انسان کو اول تراب سے پھر نطفہ سے پیدا کیا۔ (سورۃ مومن ، آیت 67۔ سورۃ فاطر،آیت 11۔ سورۃ نوح، آیت 17) یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکثر حضرات بتدریج مٹی کے پیدا کرنے کو ہماری خوراک سے مناسبت دیتے ہیں جب کہ ایسا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو قرآن کریم میں ہر آیت کریمہ میں نطفہ کا لفظ پہلے اور تراب کا لفظ بعد میں استعمال ہوتا۔ اس تمام بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہماری تخلیق جو رب العزت نے اپنے ہاتھ سے کی دراصل وہ ہماری روح اور بدنی تعمیر کا نقطۂ آغاز (Genome ) تھا اور اس آدم اور حوا کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد کا مطلب بھی Genomeسے ارتقائی عمل کا وجودمیں آنا تھا۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 59میں خداوندِ قدوس نے آدم کی پیدائش کو عیسیٰ کی پیدائش سے مشابہت دی ہے تو ذرا غور کریںکیا یہ سب عمل جینیاتی بنیاد (Genetic Level ) پر نہیں کیا گیا۔ یہاں پر وہ تمام عوامل جو ڈارون کے مسئلہ کو ثابت کرتے ہیں یا اُس کے خلاف جاتے ہیں ان کا تھوڑا سا ذکر کریں گے۔ آج سے تقریباً 160برس پہلے جب ڈارون نے کہا کہ ہماری تخلیق بتدریج عمل میں آئی ہے اس کو ہر ایک نے آج تک سراہا۔ لیکن جس بات پر آج تک کوئی متفق نہیں ہو سکا وہ یہ کہ: پروٹین Protein, Amino Acids or Nucliec Acidکسی بھی طرح سے صرف ارتقائی عمل سے وجود میں نہیں آ سکتی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کی تخلیق صرف اور صرف ارتقائی عمل سے وجود میں آئی ہو جس میں ایک Supreme Natureکا کوئی عمل دخل نہ ہو وہ پروٹین جو ہماری تخلیق کے بنیادی اجزاء ہیں وہ کس طرح معرضِ وجود میں آئے اور سب سے بڑی بات یہ کہ Evolutionاس بات کو قطعی طور پر ثابت نہیں کر سکی کہ روح کیا ہے؟ کچھ سائنسدان اس بات پر مُصر ہیں کہ زندگی شہاب ِثاقب کے ذریعے فضا سے زمین پر آئی پھر سوال اٹھتا ہے کہ فضائے بسیط میں روح یا زندگی کا وجود کہاں سے ممکن ہوا۔ ان بہت سے عوامل کے ساتھ سائنسدانوںکے لئے دعوت فکر ہے کہ جب تدریجی ارتقائی عمل دُنیا کے ہر کونے میں ہو رہا تھا تو پھر کیوں نہ بندروں کی ہر نسل نے جو کُرہ ِ ارض کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر تھی نسلِ انسانی کو جنم دیا اور یہ کیونکر صرف اور صرف افریقہ ہی میں پیدا ہو کر دنیا کے تمام خطوں میں پھیل گیا۔ یہی نظریہ آج تمام مکاتب ِ فکر کو قبول ہے۔ سائنس اس بات پر اتفاق رکھتی ہے کہ ہماری ماں (Mitochondrial Eve ) کی تخلیق تقریباً دو لاکھ سال پہلے افریقہ ہی میں ہوئی جس سے بنی نوع انسان معرض وجود میں آئی۔ یہ بات قرآن پاک کی اس آیت کریمہ (سورۃالنسائ:2) سے مطابقت رکھتی ہے کہ تمھارے جدِامجد ایک ہیں (آدم اور حوا) اور پھر ہم اگر ایک دفعہ انسان کی تخلیق آسمانوں میں تصور کریں کہ خداوند قدوس نے دراصل سب سے بہترین تخلیق آدم کے Genome (جینوم ) کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور وہ کوڈ اس کے Genetic Procenium میں تفویض کر دیا گیا۔ (سورۃ ص 75:38) اور پھر وہ ایک مخصوص طریقہ سے بتدریج پروان چڑھتے ہوئے بالآخر خالقِ دو جہان کی اشرف المخلوقات کہلانے کا شرف حاصل کر سکا۔
یہ تمام بحث اس بات کو حتمی طور پر ثابت کرتی ہے:
٭ کہ تخلیق آدم (انسان) ایک پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق عمل میں آیا جس پر سائنس اور قرآن دونوں کا اتفاق ہے۔
٭ تمام انسان ایک حواکی اولاد ہیں۔
٭ انسان کی تخلیق کا عمل بتدریج ارتقائی پروگرام کے تحت خاص حالات میں مخصوص کئے گئے طریقہ سے عمل میں آیا اور یہ تمام عمل ایک انتہائی پیچیدہ کوڈ کا رہینِ منت رہا جس کو ایک عظیم قدرت نے اپنے وسیع علم کے مطابق ترتیب دیا۔
آپ ضرور جاننا چاہیں گے کہ ہم مرنے کے بعد پھر کس طرح اُٹھائے جائیں گے اور ہمارے ہاتھ پائوں ہمارے کئے دھرے یا اعمال کا حساب کیسے دیں گے۔
آئیں ہم پہلے سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں۔
تخلیق آدم کے سلسلہ میں جینوم کا ذکر کیا گیا جن پر تقریباً ساڑھے تین ارب کوڈ لکھے گئے ہیں۔ یہ پیغام (کوڈ) ہر جاندار کے لئے ہر انسان کے لئے رب العزت نے خاص کر دیا ہے۔ ہم روز مرہ کے معمولات میں اپنے جسم کے ان گنت خلیے زمین کی ہارڈ ڈسک میں بکھیرتے جا رہے ہیں اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم مختلف مضامین، تصاویر، وڈیو فلمیں وغیرہ کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں کوڈ کی صورت میں محفوظ کرتے ہیں اور ایسے ہی اس ڈیٹا کو سکرین پر واپس لانے کے لئے ہمیں ایک معمولی سے اشارہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے جینوم کے کوڈ ہر انسان کے لئے خاص کر دئیے گئے ہیں۔ تصور تو کریں رب العزت فرماتے ہیں کہ میرے ایک ہی حکم سے تمام انسان اپنی اصلی شکل میں واپس میرے حضورپیش ہو جائیںگے۔ کیا یہ ایسا نہیں جو کچھ ہم کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھتے ہیں۔
اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَاہُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ
صرف ایک زور کی آواز کا ہونا ہوگا کہ سب کے سب ہمارے روبرو آ حاضر ہوں گے۔(یٰسٓ 36:53)
اب ہم دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں :
یہ سلیکون کیا ہے ؟
یہ مٹیریل زمین سے حاصل کیا جاتا ہے جو کمپیوٹر میں ڈیٹا سٹور کرتا ہے۔
کیا سلیکون کے علاوہ بھی کوئی چیز ایسی ہو سکتی ہے جو ڈیٹا سٹور کرے؟
کیوں نہیں اب Nano Computer اس کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔
ہماری بدنی ساخت کیا ہے ؟
ہم مٹی سے بنے ہیں اور مرکب ہیں مختلف نمکیات، دھاتوں اور پانی کا۔ تو ہماری اس چھوٹی سی بات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے جسم کے اندر کوئی ایسی چیز بھی ہو سکتی ہے جو ہمارے روز مرہ کے معاملات کو کمپیوٹر کی طرح محفوظ کئے جارہی ہے جو بالآخر روز ِ حساب رب العزت کے سامنے ہمارے نامہ اعمال کو کھول کر پیش کردے۔
اور قرآن کریم میں سورہ یٰسین 36 کی آیت نمبر 65 اس ضمن میں واضح طورپر بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب ہم روزِ قیامت رب العزت کے سامنے پیش ہوں گے تو ہمارے ہاتھ اور پائوں گواہی دیں گے ہمارے اُن اعمال کا جو ہم دنیا میں کرتے رہیں۔
اس مضمون میں ہم تخلیق آدم کے سلسلہ میں زمین سے بتدریج ارتقائی عمل کو واضح طور پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور پھر یہ کہ ہمیں مرنے کے بعد کس طرح اٹھایا جائے گا اوریہ کہ ہمارے ہاتھ اور پائوں ہمارے اعمال کا کس طرح حساب دیں گے۔
http://arseyal.com/article-UR-TakhiqEadam.html
کیا انسان آدم علیہ السلام کی غلطی کی پیداوار ہے؟
س:… آدم علیہ السلام کو غلطی کی سزا کے طور پر جنت سے نکالا گیا اور انسانیت کی ابتداء ہوئی، تو کیا اس دنیا کو غلطی کی پیداوار سمجھا جائے گا؟ یا پھر آدم علیہ السلام کی اس غلطی کو مصلحتِ خداوندی سمجھا جائے؟ اگر آدم علیہ السلام کی اس غلطی میں مصلحتِ خداوندی تھی تو کیا انسان کے اعمال میں بھی مصلحتِ خداوندی شامل ہوتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اعمال و افعال کی سزا کا ذمہ دار کیوں؟
ج… حضرت آدم علیہ السلام سے جو خطا ہوئی تھی وہ معاف کردی گئی، دنیا میں بھیجا جانا بطور سزا کے نہیں تھا، بلکہ خلیفة اللہ کی حیثیت سے تھا۔
حضرت آدم علیہ السلام سے نسل کس طرح چلی؟ کیا ان کی اولاد میں لڑکیاں بھی تھیں؟
س… حضرت آدم علیہ السلام سے نسل کس طرح چلی؟ یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت حوا کو پیدا فرمایا، حضرت آدم علیہ السلام کی اولادوں میں تین نام قابلِ ذکر ہیں، اور یہ تینوں نام لڑکوں کے ہیں۔ ۱:ہابیل۔ ۲:قابیل۔ ۳:شیث۔ آخرکار ان تینوں کی شادیاں بھی ہوئی ہوں گی، آخر کس کے ساتھ جبکہ کسی بھی تاریخ میں آدم علیہ السلام کی لڑکیوں کا ذکر نہیں آیا۔ آپ مجھے یہ بتادیجئے کہ ہابیل، قابیل اور شیث سے نسل کیسے چلی؟ میں نے متعدد علماء سے معلوم کیا، مگر مجھے ان کے جواب سے تسلی نہیں ہوئی، اور بہت سے علماء نے غیرشرعی جواب دیا۔
ج… حضرت آدم علیہ السلام کے یہاں ایک بطن سے دو بچے جڑواں پیدا ہوتے تھے، اور وہ دونوں آپس میں بھائی بہن شمار ہوتے تھے، اور دوسرے بطن سے پیدا ہونے والے بچوں کے لئے ان کا حکم چچا کی اولاد کا حکم رکھتا تھا، اس لئے ایک پیٹ سے پیدا ہونے والے لڑکے لڑکیوں کے نکاح دوسرے بطن کے بچوں سے کردیا جاتا تھا۔ ہابیل، قابیل کا قصہ اسی سلسلہ پر پیش آیا تھا، قابیل اپنی جڑواں بہن سے نکاح کرنا چاہتا تھا جو دراصل ہابیل کی بیوی بننے والی تھی۔
لڑکیوں کا ذکر عام طور سے نہیں آیا کرتا، قابیل و ہابیل کا ذکر بھی اس واقعہ کی وجہ سے آگیا۔
س:… آدم علیہ السلام کو غلطی کی سزا کے طور پر جنت سے نکالا گیا اور انسانیت کی ابتداء ہوئی، تو کیا اس دنیا کو غلطی کی پیداوار سمجھا جائے گا؟ یا پھر آدم علیہ السلام کی اس غلطی کو مصلحتِ خداوندی سمجھا جائے؟ اگر آدم علیہ السلام کی اس غلطی میں مصلحتِ خداوندی تھی تو کیا انسان کے اعمال میں بھی مصلحتِ خداوندی شامل ہوتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اعمال و افعال کی سزا کا ذمہ دار کیوں؟
ج… حضرت آدم علیہ السلام سے جو خطا ہوئی تھی وہ معاف کردی گئی، دنیا میں بھیجا جانا بطور سزا کے نہیں تھا، بلکہ خلیفة اللہ کی حیثیت سے تھا۔
حضرت آدم علیہ السلام سے نسل کس طرح چلی؟ کیا ان کی اولاد میں لڑکیاں بھی تھیں؟
س… حضرت آدم علیہ السلام سے نسل کس طرح چلی؟ یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت حوا کو پیدا فرمایا، حضرت آدم علیہ السلام کی اولادوں میں تین نام قابلِ ذکر ہیں، اور یہ تینوں نام لڑکوں کے ہیں۔ ۱:ہابیل۔ ۲:قابیل۔ ۳:شیث۔ آخرکار ان تینوں کی شادیاں بھی ہوئی ہوں گی، آخر کس کے ساتھ جبکہ کسی بھی تاریخ میں آدم علیہ السلام کی لڑکیوں کا ذکر نہیں آیا۔ آپ مجھے یہ بتادیجئے کہ ہابیل، قابیل اور شیث سے نسل کیسے چلی؟ میں نے متعدد علماء سے معلوم کیا، مگر مجھے ان کے جواب سے تسلی نہیں ہوئی، اور بہت سے علماء نے غیرشرعی جواب دیا۔
ج… حضرت آدم علیہ السلام کے یہاں ایک بطن سے دو بچے جڑواں پیدا ہوتے تھے، اور وہ دونوں آپس میں بھائی بہن شمار ہوتے تھے، اور دوسرے بطن سے پیدا ہونے والے بچوں کے لئے ان کا حکم چچا کی اولاد کا حکم رکھتا تھا، اس لئے ایک پیٹ سے پیدا ہونے والے لڑکے لڑکیوں کے نکاح دوسرے بطن کے بچوں سے کردیا جاتا تھا۔ ہابیل، قابیل کا قصہ اسی سلسلہ پر پیش آیا تھا، قابیل اپنی جڑواں بہن سے نکاح کرنا چاہتا تھا جو دراصل ہابیل کی بیوی بننے والی تھی۔
لڑکیوں کا ذکر عام طور سے نہیں آیا کرتا، قابیل و ہابیل کا ذکر بھی اس واقعہ کی وجہ سے آگیا۔
کیا فرماتے ہیں مفتی طارق مسعود صاحب دامت برکاتہم؟
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1690620521257866&id=1567222573597662
No comments:
Post a Comment