عید الاضحی میں کلیجی کھانے سے ابتداء
یہ تحریر آجکل وائرل ہورہی ہے کہ:
سب سے پہلے کلیجی کھانا سنت ہے؛ نبی کریم کا معمول تھا کہ نماز عید الاضحی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دست مبارک سے قربانی کے جانور کو ذبح فرماتے اور کلیجی پکانے کا حکم دیتے، جب وہ تیار ہوجاتی تو اس سے تناول فرماتے ۔
قربانی کرنیوالے کے لئے سنت ہے کہ قربانی کے گوشت میں سے سب سے پہلے کلیجی کھائے کہ اس میں نبی پاک کے عمل سے مشابہت اور نیک شگون ہے؛ کیونکہ اہل جنت کو جنت میں سب سے پہلے اس مچھلی کی کلیجی کھلائی جائے گی جس پر زمین ٹھیری ہوئی ہے۔ (المدخل1/125) ۔
اس سلسلہ میں جب تحقیق کی گئی تو ایک حدیث میں کلیجی کے کھانے کا تذکرہ ملا ، وہ یہ ہے:
عن بريدة بن الحصيب الأسلمي قال : كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ إذا كانَ يومُ الفطرِ لم يخرُج حتَّى يأكلَ شيئًا ، وإذا كانَ الأضحى لم يأكُل حتَّى يرجِعَ ، وَكانَ إذا رجعَ أَكلَ من كبدِ أضحيَتِهِ ۔
الذهبي (٧٤٨ هـ)، المهذب ٣/١٢١٩ • لم يتابع عليه • أخرجه أحمد (٢٢٩٨٤)، والدارمي (١٦٠٠) بنحوه، والبيهقي (٦٣٨١) باختلاف يسير.
دوسری طرف قربانی کا گوشت سب سے پہلے کھانا مستحب ہے، تو پھر (خاص) کلیجی کھانے کی سنیت اس حدیث سے ثابت کرنا، اور اس طرح مضمون حدیث میں تبدیلی کر کے اسے مخصوص انداز میں پیش کرنا کیسا ہے؟
الجواب :-
اس روایت کی اسانید وطرق کے دار ومدار حضرت عبد اللہ بن بریدہ بن حصیب ہیں ، وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے ۔
حضرت عبد اللہ بن بریدہ سے روایت کرنے والے ان کے دو شاگرد ہیں:
(۱) پہلے شاگرد" ثواب بن عتبہ بصری ہیں ،ان کی روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں مروی ہے:
جامع الترمذي542 ، مسند أحمد 23033 ، مسند الطيالسي 811 ، المستدرك 1088، صحيح ابن خزيمة 1426 ، صحيح ابن حبان 2812 ، سنن الدرقطني 2/ 42 ، السنن الكبرى للبيهقي 5954 ، معرفة السنن والآثار له 1912 ، شعب الإيمان له 447 ، فضائل الأوقات له 215 .
ثواب بن عتبہ قلیل الروایہ ہیں ، دو تین حدیثوں کی روایت کرتے ہیں ، بعض ائمہ حدیث نے ان پر کلام کیا ہے ، لیکن ابن معین ،عجلی ،ابو داود،ابن حبان،ابن شاہین ،ابن عدی ،حاکم وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے۔
زیر بحث روایت ثواب بن عتبہ سے نقل کرنے والے یہ ہیں :
عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ : (الترمذي 542)
أَبُو عَاصِمٍ : (ابن ماجة 1756) ، (ابن خزيمة 1426)
الطَّيالِسي : (مسنده 849) ، (ابن حبان 593)
حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ : (أحمد 23042)
أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ : (أحمد 22983)
مُسْلِمُ بْن إِبْرَاهِيمَ : (الدارقطني 1715) ، (السنن الكبرى 6160) ، (شعب الإيمان 447) ، (فضائل الأوقات للبيهقي 215)
ان تمام ناقلین کی روایت کے الفاظ میں عید الاضحی کے موقعہ پر نماز سے پہلے نہ کھانے کا تذکرہ ہے ، صرف مسلم بن ابراہیم کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں : "فَيَأْكُلُ مِنْ أُضْحِيَتِهِ" [الدارقطني 1715 ، السنن الكبرى 6160] اور ایک کتاب میں ہے "فَيَأْكُلُ مِنْ لَحْمِ نُسُكِهِ" [ شعب الإيمان 447] .
تنبیہ : لیکن امام بیہقی کی کتاب (فضائل الأوقات 215) میں یہاں سہو ہوا ہے ، کہ اس میں ثواب بن عتبہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : "فَيَأْكُلَ مِنْ كَبِدِ أُضْحِيَتِهِ" مگریہ درست نہیں ہے ، ثواب بن عتبہ کی روایت میں (کبد) کا لفظ نہیں ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ امام بیہقی نے اپنی تینوں کتابوں (السنن الكبرى 6160) ، (شعب الإيمان 447) ، ( معرفة السنن 1912)میں مسلم بن ابراہیم کے واسطے سے ثواب بن عتبہ کی روایت میں یہ الفاظ ذکر نہیں کئے ، تو غالبا یہاں کسی کاتب کی غلطی ہوئی ہے ۔
امام حاکم نے (المستدرك 1088) میں ان کی روایت پیش کرنے کے بعد کہا : «وَثَوَابُ بْنُ عُتْبَةَ الْمَهْرِيُّ قَلِيلُ الْحَدِيثِ، وَلَمْ يُجْرَحْ بِنَوْعٍ يَسْقُطُ بِهِ حَدِيثُهُ، وَهَذِهِ سُنَّةٌ عَزِيزَةٌ مِنْ طَرِيقِ الرِّوَايَةِ مُسْتَفِيضَةٌ فِي بِلَادِ الْمُسْلِمِينَ» .
*خلاصہ یہ ہے کہ :* ثواب بن عتبہ کی روایت میں قربانی کے جانور میں سے مطلقا کھانا مذکور ہے ، بعض طرق میں گوشت کھانےکا لفظ بھی وارد ہے ، مگر خصوصی طور پر کلیجی کھانا یا اس سے ابتدا کرنا منقول نہیں ہے ۔
*(۲)* دوسرے شاگرد :عقبہ بن عبد اللہ اصم ہیں ، ان کی روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں مروی ہے :
مسند أحمد 22984 ، سنن الدارمي 1641 ،الكامل لابن عدي 6/490 ، المعجم الأوسط للطبراني 3065، السنن الكبرى للبيهقي (3/ 401) ، معرفة السنن له 6848۔
عقبہ بن عبد اللہ پر متعدد ائمہ حدیث نے سخت جرح کی ہے ، اور ان کی روایات کو غیر معتبر مانا ہے ، جارحین میں ابن معین ، ابو حاتم ، ابو داود ، نسائی ، فلاس ہیں ۔
عقبہ اصم سے مذکورہ حدیث روایت کرنے والے یہ ہیں :
يونس بن محمد : (أحمد 22984)
يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ : (سنن الدارمي 1641)
مُحَمد بْنُ أَبَان : (الكامل 6/490)
ابْنُ مَهْدِيٍّ : (السنن الكبرى 6161)
مُوسَى بْنُ دَاوُدَ الضَّبِّيُّ : (المعجم الأوسط 3065)
ان تمام حضرات کی روایت کے الفاظ ہیں : "فَيَأْكُلَ مِنْ أُضْحِيَتِهِ "صرف بیہقی کی (السنن الكبرى 6161) اور (معرفة السنن 6848) وغیرہ میں کلیجی کھانے کے الفاظ اس طرح وارد ہیں : "وَكَانَ إِذَا رَجَعَ أَكَلَ مِنْ كَبِدِ أُضْحِيَتِهِ " . اور اس کی سند یہ ہے :
6161 - أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ، أنبأ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عُثْمَانَ الْأَهْوَازِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ الْقَطَّانُ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ثنا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ مرفوعا .[ السنن الكبرى للبيهقي 6161]
اس سند میں الولید بن مسلم پر تدلیس کی تہمت ہے ، اور اس کے شیخ ابن مہدی سے معلوم نہیں کون مراد ہیں ، شاید یہ ابو مہدی سعید بن سنان حمصی ہیں ، جو شدید الضعف راوی ہیں ، اور تیسرے عقبہ اصم جو مجروح اور متروک الروایہ ہیں ، تو یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے، اورضعیف راوی کے تفرد کی وجہ سے یہ لفظ (کبد)شاذ یا منکر قرار دیا جائے گا ۔
روایت کےمفہوم کے شواہد ومؤیدات میں بعض لوگ یہ دو نصوص بھی پیش کرتے ہیں:
*(۱)* جاء في مسائل الإمام أحمد بن حنبل (ط. دار الهجرة ) لإسحاق بن إبراهيم الكوسج :
قلتُ : الأكل يوم الفطر قبل الخروج ؟
قال : إن أكل في الفطر فلا بأس - كأنه لم ير بأسا بالأكل في الأضحى - قال : أما يوم الفطر يستحب أن يأكل قبل أن يخرج ، وأما الأضحى فلا أعرف فيه حديثا . قال إسحاق : أما الفطر فكما قال ، وأما الأضحى فإن السنة ألا يأكل حتى يرجع فيبدأ فيأكل من كبد أضحيته .
*(۲)* وفي كتاب النوادر والزيادات لابن حبيب المالكي (4/ 322) :
ويستحب أن يكون أول ما يأكل يوم النحر من أضحيته ، قاله عثمان وابن المسيب وابن شهاب. قال ابن شهاب: يأكل من كبدها قبل أن يتصدق.
نصوص مذکورہ میں کلیجی سے ابتداء کرنے کو اسحاق الکوسج مسنون قرار دے رہے ہیں ، مگر شاید ان کی مراد پرانے زمانہ کا مروجہ طریقہ ہے ، نہ کہ سنت نبوی ۔ابن شہاب نے بھی ابتداء ذکر کی ہے لیکن اس کو سنت نہیں بتایا۔
*خلاصہ یہ ہے کہ :* کلیجی کھانے سے ابتداء کرنا صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے ، اورپورے ذخیرہ احادیث میں بھی صرف ایک روایت میں مذکور ہے وہ بھی ضعیف ہے ، تو حضور کی سنت کہنا مشکل ہے،اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت کے لئےمضبوط سند درکار ہے۔اس کے باوجود اسی روایت سے استدلال کرتے ہوئے بعض فقہاء کالمالکیہ والشافعیہ نے اس کو مسنون لکھا ہے، تو کوئی اس کو مستحب سمجھے تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کی تخصیص کرتے ہوئے اسے سنت نبوی قرار دینا اور اس میں مبالغہ کرنا درست نہیں معلوم ہوتا ، آج کل صحیح ثابت روایات کے بجائےغرائب ومنکرات وتفردات پھیلانے کی بیماری بھی بڑھتی جارہی ہے، جس پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔
نیزکلیجی سےابتدا کرنے کی حکمت بعض علماء یہ ذکر کرتے ہیں کہ: وہ گوشت کے مقابلہ میں جلدی پک جاتی ہے ، اور سریع الہضم بھی ہے ۔اور بعض حضرات یہ حکمت بیان کرتے ہیں کہ اس میں نیک شگونی لی گئے اہل بہشت کے سب سے پہلے کھانے سے ، اس لئے کہ روایت میں ہے اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو سب سے پہلے جس چیز سے ان کی ضیافت کی جائے گی وہ ہے (أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ زِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ) [البخاري] یعنی اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا مچھلی کا جگر ہوگا۔واللہ اعلم
جمعہ ورتبہ : محمد طلحہ بلال أحمد منیار
No comments:
Post a Comment