جوائنٹ فیملی میں میرے شوہر پر کیا ذمہ داری ہے؟
سوال: میں اور میرے شوہر پہلے جہاں رہتے تھے وہاں سے اپنے سسرال کے قریب شفٹ ہوگئے ہیں۔ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والدین اور بھائی کو بھی ساتھ رکھیں گے جبکہ میں ایسا نہیں چاہتی۔ میں پہلے بھی جوائنٹ فیملی میں رہ کر دیکھ چکی ہوں۔ آئے دن کے فساد کی وجہ سے میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ اس کے علاوہ ان کے بہت سے ایسے رشتہ داروں کا بھی آنا جانا ہوگا جن سے میری عزت کو خطرہ ہے اور عام حالات میں جن کے ساتھ میں میل جول نہ رکھنا ہی میرے لیئے مناسب ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات کی بنا پر میں الگ رہنا چاہتی ہوں۔ جب میرے شوہر کے گھر والے گاوَں میں تھے تب بھی میرے شوہر ہی سارا خرچہ اٹھاتے تھے کیونکہ وہ واحد کفیل ہیں اور ہم ہر ویکینڈ (ہر اتوار) گا وَں جاکر ان کے ساتھ گزارتے تھے۔ یہ سب میرے لئے بہت موزوں تھا اور زندگی فساد اور جھگڑوں سے پاک گزر رہی تھی۔ لیکن اب میرے شوہر میرے انکار کے باوجود مجھے ان کے ساتھ رکھنے پر بضد ہیں۔ اور مجھے میرے رشتہ داروں کے سامنے بے عزت کرکے منانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس طرح بلیک میل ہوکر میں اپنا مطالبہ چھوڑ دوں کیونکہ ہمارے ہاں سسرال سے الگ رہنے کا مطالبہ کرنے والی لڑکی کو بہت غلط سمجھا جاتا ہے۔ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ اگر میں تمہیں الگ رکھوں گا تو تمہارے خاندان کو بلاکر تمہارا مطالبہ سناوَں گا۔ میں اس صورت حال سے سخت پریشان ہوں۔ نہ سسرال کے ساتھ رہ سکتی ہوں نہ شوہر کی بلیک میلنگ کا مقابلہ کرسکتی ہوں۔
میں جاننا چاہتی ہوں کہ اس صورت میں میرے شوہر پر کیا ذمہ داری ہے اور اسکو نہ پورا کرنے پر کیا صورت ہے؟ اس بات کو نوٹ کرلیں کہ میرے شوہر لاکھوں میں کماتے ہیں اور مجھے الگ رکھنے کی بخوبی استطاعت رکھتے ہیں۔ یہ بھی واضح کردیں کہ کیا اس معاشرے میں جہاں میرا مطالبہ غلط سمجھا جاتا ہے میرے شوہر کا اس بارے میں سب کو بتانا ضروری ہے؟ وہ بخوبی واقف ہیں کہ اس بات کے ڈرسے میں اپنا مطالبہ مجبورا چھوڑدوں گی اور میری اسی کمزوری کو وہ استعمال کررہے ہیں۔
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
ہمارے عرف میں جوائنٹ فیملی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کھانا پینا وغیرہ مشترک ہو اور عام طور پر ساس بہووں میں اسی طرح کی رہائش میں بدمزگیاں اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں؛ جب کہ جوائنٹ فیملی کا نظام عورت کی صواب دید اور اس کی مرضی پر ہے، شوہر بیوی کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا (بہشتی زیور مدلل، ۴: ۳۳، مسئلہ: ۱، مطبوعہ: کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور)؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر آپ کو اپنے ماں، باپ اور بھائی کو ایک گھر میں کھانے پینے میں اشتراک کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور آپ اس کے لیے تیار نہیں ہیں تو وہ شرعاً آپ کو اس پر مجبور نہیں کرسکتے۔ اور اگر وہ کسی بڑے مکان میں آپ کو کوئی ایک کمرہ اور علیحدہ کچن وغیرہ دے کر دوسرے حصہ میں اپنے ماں باپ وغیرہ کو رکھتے ہیں اورآپ اپنا کھانا الگ بناتی ہیں اور آپ کے سسر ساس وغیرہ کا کھانا الگ بنتا ہے تو اس پر آپ کوئی اعتراض نہیں کرسکتیں؛ کیوں کہ رہائشی اعتبار سے شوہر پر آپ کا جو حق تھا، وہ دیدیا گیا؛ البتہ اگر کسی بڑے مکان میں اس طرح رہنے میں دیور سے پردہ نہ ہوپاتا ہو یا شوہر کے دیگر وہ رشتہ دار بے دھڑک گھر میں آتے ہوں، جن سے شرعاً آپ کا پردہ ہے اور ان سے آپ اپنی عزت پر خطرہ محسوس کرتی ہیں توآپ شوہر سے پردہ کے نظام اور عام رشتہ داروں کے بے دھڑک آنے پر پابندی کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔ اور اگر آپ کے شوہر ایسا نہ کرسکیں تو انھیں آپ کے لیے الگ کسی پردہ والے مکان کا نظم کرنا ضروری ہوگا۔
والحاصل أن المشھور وھو المتبادر من إطلاق المتون أنہ یکفیھا بیت لہ غلق من دار سواء کان فی الدار ضرتھا أو أحماوٴھا، وعلی ما فھمہ فی البحر من عبارة الخانیة وارتضاہ المصنف في شرحہ لا یکفي ذلک إذا کان فی الدار أحد من أحمائھا یوٴذیھا وکذا الضرة بالأولی، وعلی ما نقلہ المصنف عن ملتقط صدر الإسلام یکفي مع الأحماء لا مع الضرة، وعلی ما نقلنا عن ملتقط أبی القاسم وتجنیسہ للأستروشني أن ذلک یختلف باختلاف الناس؛ ففي الشریفة ذات الیسار لا بد من إفرادھا، ومتوسط الحال یکفیھا بیت واحد من دار۔ ومفھومہ أن من کانت من ذوات الإعسار یکفیھا بیت ولو مع أحمائھا وضرتھا کأکثر الأعراب وأھل القری وفقراء المدن الذین یسکنون فی الأحواش والربوع۔ وھذا ھو التفصیل الموافق لما مر من أن المسکن یعتبر بقدر حالھما، ولقولہ تعالی: ”أسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم“۔ وینبغي اعتمادہ في زماننا ھذا فقد مر أن الطعام الکسوة یختلفان باختلاف الزمان والمکان وأھل بلادنا الشامیة لا یسکنون في بیت من دار مشتملة علی أجانب، وھذا في أوساطھم فضلاً عن أشرافھم إلا أن تکون دارا موروثة بین إخوة مثلاً فیسکن کل منھم من جھة منھا مع الاشتراک في مرافقھا، فإذا تضررت زوجة أحدھم من أحمائھا أو ضرتھا وأراد زوجھا إسکانھا في بیت منفرد من دار لجماعة أجانب وفی البیت مطبخ وخلاء یعدون ذلک من أعظم العار علیھم فینبغی الإفتاء بلزوم دار من بابھا الخ (رد المحتار، باب النفقة، ۵: ۳۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
No comments:
Post a Comment