Saturday, 24 August 2019

سب سے بڑا موذی

سب سے بڑا موذی

نسل، وطن، رنگ اور قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کی تفریق وتقسیم کی ذہنیت ہی اسلام اور مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا "موذی " ہے ۔۔۔ پیغمبر اسلام نے جاہلیت کے اس عفریت کی شہ رگ پہ کاری ضرب لگائی تھی، اور اس کی بنیاد پر تیشہ چلایا تھا۔ مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کی تشکیل فرمائی تو سب سے پہلے اس کی سیاست کی پہلی بنیاد یہ رکھی کہ مہاجرین وانصار کے درمیان رشتہ مواخات قائم فرمایا۔ یہ اسلامی سیاست کی پہلی اینٹ تھی۔ اس سے صدیوں پرانے اختلافات ونزاعات سر ہوئے۔ الفت ومحبت کی لاثانی فضاء قائم ہوئی۔
اسلامی ریاست کی دوسری بنیاد یہ رکھی گئی کہ  مدینہ کے قرب وجوار کے یہودیوں سے معاہدہ ہوا.
جس کا سب سے اہم منشور یہ تھا کہ باہمی اختلاف کے وقت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سب کے لئے واجب التعمیل ہوگا نیز یہود مدینہ مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کو ظاہرا یا باطنا کوئی امداد فراہم نہیں کریں گے۔
پھر مسلمانوں کے مابین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دستور نافذ فرمادیا کہ عدل وانصاف اور نیکی وتقوی کسی کی مدد کرنے یا کسی سے مدد حاصل کرنے کا معیار ہونا چاہئے۔ جو شخص عدل وانصاف اور نیکی پر ہو  اس کی مدد کرو۔ خواہ رنگ ونسل، خاندان وزبان ووطن کے لحاظ سے تم سے مختلف ہی کیوں نہ ہو! اور ظالم وگنہگار کی مدد نہ کرو اگرچہ وہ تمہارا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو!
اسلامی سیاست کی یہ دو ایسی فولادی وآہنی بنیادیں تھیں جن کے ہوتے ہوئے قیصر وکسری کی عالمی طاقتیں بھی اس چھوٹی سی اسلامی ریاست کا بال بیکا نہ کرسکیں۔
شروع ہی سے اسلام دشمن اس مشترک اسلامی برادری کو منتشر کرنے کے لئے  سرگرداں تھے۔ برادری اور قومیت ووطنیت کے حربہ کے ذریعہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوششیں کرتے  رہےہیں۔ وحدت اسلامی کو ٹکڑوں میں بانٹ دینے کے لئے موجودہ دور کے صہیونیوں نے وطنیت وقومیت کا پھر منظم شیطانی جال بچھایا ہے۔ اس جال میں پھنس کر عام دنیا کے مسلمان باہمی جنگ وجدال کے شکار ہین۔عرب میں مصری شامی حجازی یمنی عراقی کو ایک دوسرے سے برسرپیکار کردیا گیا۔ عجمیوں میں ہندوستانی پاکستانی بلوچ سندھی پنجابی کشمیری باہم آویزش کے شکار ہیں۔ اور دشمنان اسلام ہماری اس آویزش کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسی لئے وہ ہر میدان میں ہم پر غالب ہیں اور ہم غلامانہ ذہنیت کے ساتھ باطل پرست حکمرانوں کی طرف نظریں اٹھاکے نجات دہندہ کے بطور دیکھ رہے ہیں۔
"ان هذه امتكم أمة واحدة"
پر ایمان رکھنے والے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ ظلم وستم اور قتل خونریزی کو علاقائی معاملہ قرار دے کر تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔
نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس عصبیت جاہلہ سے پوری شدت کے ساتھ جنگ کی تھی. آج یہ عفریت انہی مسلمانوں کے گھروں میں پروان چڑھ رہا ہے اور یہی اس کے رکھوالی بنے بیٹھے ہیں۔
زیادہ تفصیل میں جائے بغیر صرف اسلامی سیاست کی مذکورہ دو بنیادوں کو ہر اسلامی ملک میں ترجیحی بنیادوں پر نافذ کردیا جائے تو پھر عالمی منظر قابل دید ہوگا ۔
اس موقع سے مسدس حالی کے دو بند پیش کرنے کو جی چاہتا ہے:
خصومت سے ہیں اپنی گو خواریاں سب
نزاعوں سے باہم کی، ہیں ناتواں سب
خود آپس کی چوٹوں سے ہیں خستہ جاں سب
یہ ہیں متفق اس پر، پیر وجواں سب
کہ نا اتفاقی نے کھویا ہے ہم کو
اسی جزر ومد نے ڈبویا ہے ہم کو
یہ مانا کہ کم ہم میں ہیں ایسے دانا
جنہوں نے حقیقت کو ہے اپنی چھانا
تنزل کو ہے ٹھیک ٹھیک اپنے جانا
کہ ہم ہیں کہاں اور کہاں ہے زمانا
یہ اتنا زبانوں پہ ہے سب کے جاری
کہ حالت  بری آج  کل ہے    ہماری
ضرورت ہے کہ ملی اور مذہبی مفادات کو شخصی اور ملکی مفادات کی لحد میں دفن نہ کریں
پوری قوم مسلم کا نفع نقصان ایک ہے، خارجی بھروسوں اور اعانتوں پہ توکل کرنے کی بجائے مسلمانوں بالخصوص مسلم حکمرانوں کی اندر کی صلاحیت اور بنیادوں کو ابھارا جائے اس سے جو قوت پیدا ہوگی وہ ملت کی اپنی حقیقی قوت ہوگی۔مسلم حکمرانوں کو لازماً سمجھنا چاہئے کہ یہ وقت دبے کچلے مظلوم ومقہور کلمہ گو بھائی بہنوں کو دلاسہ دینے کا ہے، مسلمانوں کے خون سے ہولیاں کھیلنے والے 
نسل کُش عفریت  کو گلے لگانے اور انعامی تمغے عطاء کرنے کا نہیں!
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment