Sunday, 11 August 2019

ذبیح اللہ کون....؟

ذبیح اللہ کون....؟

الله أكبر،الله أكبر،لا اله الا الله والله أكبر،الله أكبر ولله الحمد.
•••••••••••••••••••••••••••••••
    فبشرنه بغلم حليم○فلمابلغ معه السعي قال يبني إني أرى في المنام أني اذبحك فانظرماذاترى.....؟قال:يابت افعل ماتؤمر ستجدني إن شاءالله من الصابرين○.
•••••••••••••••••••••••••••••••••

    سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اولاد کی دعاء مانگی اور خدانے قبول کی اور وہی لڑکا قربانی کے لیے پیش کیاگیا،موجود تورات سے ثابت ہے کہ:جولڑکاحضرت ابراہیم کی دعاء سے پیداہواوہ حضرت اسمعیل ہیں اور اسی لیے ان کانام اسمعیل رکھاگیا؛کیوں "اسمعیل" دولفظوں سے مرکب ہے۔"سمع" اور "ایل"
"سمع" کے معنی سننے کے اور "ایل" کے معنی خدا کے ہیں۔ یعنی خدانے حضرت ابراہیم کی دعاء سن لی، تورات میں ہے کہ: خدا نے حضرت ابراہیم سے اسمعیل کے بارے میں کہاکہ:میں نے تیری سن لی، اس بناء پر آیت مذکورہ میں،جن کا ذکر ہے وہ حضرت اسمعیل ہیں،حضرت اسحق نہیں  اور ویسے بھی ذبح وغیرہ کا قصہ ختم کرنے کے بعد حضرت اسحق کی بشارت کا جداگانہ ذکر کیا گیا ہے، جیساکہ آگے خود اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: "وبشرناہ باسحق نبیا" الخ معلوم ہوا کہ: "فبشرناہ بغلم حلیم" میں ان کے علاوہ کسی دوسرے لڑکے کی بشارت مذکور ہے۔
نیز حضرت اسحق کی بشارت دیتے  ہوئے ان کے نبی بنائےجانے کی خوش خبری دی گئی اور سورہ "ھود" میں ان کے ساتھ ساتھ حضرت یعقوب کا مزدہ بھی سنایا گیا، جو حضرت اسحق کے بیٹے ہوں گے۔"
ومن وراء اسحق يعقوب"{سوره هود،ركوع:٧}؛
پھر کیسے گمان کیاجاسکتا ہے کہ: حضرت اسحق ذبیح اللہ ہوں۔ گویا نبی بنائے جانے اور اولاد عطا کئے جانے سے پیشتر ہی ذبح کردیئے جائیں، لامحالہ ماننا پڑے گا کہ: ذبیح اللہ حضرت اسمعیل ہیں؛ جن کے متعلق بشارت ولادت کے وقت ..... نہ نبوت عطا فرمانے کا وعدہ ہوا اور نہ اولاد دیئے جانے کا۔
یہی وجہ ہے کہ:آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ: "أناابن ذبيحين".اگر آپ  سیدناحضرت اسمعیل کو ذبیح اللہ نہیں مانیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت اسمعیل کی نسب سے نہ ہونا لازم آئےگا؛جو کہ:حقیقت، تاریخ اور حدیث کے خلاف ہے۔
اس کے علاوہ قربانی کی یادگار اور اس کے متعلقہ رسوم بنی اسمعیل میں برابر بطور وراثت منتقل ہوتی چلی آئیں اور آج بھی بھی اسمعیل کی روحانی اولاد ہے(جنہیں مسلمان کہتے ہیں)ان کی مقدس یادگاروں کی حامل ہے۔
اس کے علاوہ قرائن وآثار یہی بتلاتے ہیں کہ:"ذبیح اللہ" وہی اسمعیل تھے،جو مکہ میں آکر رہے اور وہیں ان کی نسل پھیلی۔
تورات میں یہ بھی صراحت ہےکہ:حضرت ابراہیم علیہ السلام  کو اپنے اکلوتے،چہیتے اور محبوب بیٹے کے ذبح کا حکم دیاگیا تھااور یہ مسلم ہےکہ:حضرت اسمعیل.......
حضرت اسحق سے بڑے ہیں،پھر حضرت اسحق علیہ السلام حضرت اسمعیل کی موجودگی میں اکلوتے کیسے ہوسکتے ہیں؟
عجیب بات  یہ ہےکہ: حضرت ابراہیم کی دعاء کے جواب میں جس لڑکے کی بشارت ملی،اسے "غلام حلیم" کہاگیاہے،لیکن حضرت اسحق علیہ السلام کی بشارت جب فرشتوں نے ابتدءا خداکی طرف سے دی تو "غلام علیم" سے تعبیر کیا۔
حق تعالٰی کی طرف سے "حلیم"کالفظ ان پر یاکسی اور نبی پر قرآن میں کہیں اطلاق نہیں کیا گیا،صرف اور صرف اس لڑکے کو جس کی بشارت مذکورہ آیت میں دی گئی اور اس کے باپ ابراہیم کو یہ لقب عطاہواہے۔"ان إبراهم لحليم اواه منيب"{ سوره هود:ركوع:٧}.
اور"إن ابراهم لاواه حليم"{سورة التوبة:ركوع:۱۴}۔
جس سے ظاہر ہوتا ہےکہ:یہی دونوں باپ بیٹےاس لقب خاص سے ملقب کرنے کے مستحق ہوئے۔"حلیم"اور "صابر" کا مفہوم قریب قریب ہے۔اسی "غلام حلیم"  کی زبان سے یہاں نقل کیا۔ "ستجدني ان شاءلله من الصابرين"۔
دوسری جگہ صاف فرمادیا:"واسمعيل وادريس وذالكفل كل من الصابرين○"{سورة الأنبياء:ركوع:٦}.
شاید اسی لیے "سورہ مریم"میں حضرت اسمعیل کو "صادق الوعد" فرمایاکہ:"ستجدني ان شاءالله من الصابرين"کے وعدہ کو کس طرح سچا کردکھایا،بہرحال "حلیم" "صابر"اور صادق الوعد کے القاب کا مصداق ایک ہی معلوم ہوتاہے؛یعنی حضرت اسمعیل علیہ السلام۔
"وكان عند ربه مرضيا"سورہ بقرہ میں تعمیر کعبہ کے وقت  سیدناحضرت ابراہیم واسمعیل کی زبان سے جو دعاء نقل فرمائی ہے،اس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔واجعلنا مسلمين لك ومن ذريتنا امة مسلمة"بعينہ اسی مسلم کے تثنیہ کو یہاں قربانی کے ذکر میں"فلمااسلما"الخ کے لفظ سے اداکردیا اور ان ہی دونوں کی ذریت کو امت مسلمہ بنادیا،فللہ الحمد علی ذلک۔
*قولہ تعالٰی:قال يابت افعل ماتؤمر ستجدني ان شاء الله من الصابرين.*
    جب حضرت اسمعیل علیہ السلام  بڑے ہوکر اس قابل ہوگئے کہ:اپنے باپ کے ساتھ دوڑ سکےاور اس کے کام آسکے،تواس وقت حضرت ابراہیم نے اپناخواب بیٹے کوسنایا،تاکہ اس کا خیال معلوم کریں کہ:خوشی سے آمادہ ہوتاہےیازبردستی کرنی پڑے گی،کہتے ہیں کہ:تین رات مسلسل یہ خواب دیکھتے رہے،تیسرے روز بیٹے کو اطلاع کی،بیٹے نے بلاتوقف قبول کیا،کہنے لگاکہ:اباجان!دیرکیاہے؟
مالک کاجوحکم ہو اس کو کرڈالیے،(ایسے کام میں مشورہ کی ضرورت نہیں،
امرالہی کے بجالانے میں شفقت پدری مانع نہ ہونی چاہیے)۔رہامیں!سو آپ مجھے(ان شاء اللہ العزیز)صبر وتحمل سے اللہ کے حکم کی تعمیل کرنے والا پائیں گے۔
ہزاراں ہزار رحمتیں ہوں،ایسے باپ بیٹےپر۔
تو اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل کو حکم دیاکہ:کہدو ابراہیم سے بس بس رہنے دے ابراہیم!تونے اپنا خواب سچ کردکھادیا،مقصود بیٹے کا ذبح کرانا نہیں،محض تیراامتحان منظورتھا،سواس میں پوری طرح کامیاب ہوا۔
تورات میں ہےکہ:جب ابراہیم نے بیٹے کو قربان کرناچاہا اور فرشتہ نے ندادی کہ:ہاتھ روک لو،تو فرشتہ نے یہ الفاظ کہے:رب العالمین  کہتاہےکہ:چوں کہ تونے ایسا کام کیا اور اپنے اکلوتے بیٹے کو میرے حکم پر قربان کردیا،میں تجھ کو برکت دوں گا اور تیری نسل کو آسمان کے ستاروں اور ساحل بحر کی ریتی کی طرح پھیلادوں گا۔{تورات:تکوین اصحاح ۲۲آیت:۱۵،بحوالہ ترجمہ شیخ الہند صفحہ ٦٠٠}۔
اس کے بعد حضرت اسمعیل علیہ السلام  کی جگہ پر بہشت سے بڑا،موٹا،فربہ اور قیمتی دنبہ آیا،پھر اسی کو ذبح کیاگیااور رسم قربانی حضرت ابراہیم و حضرت اسمعیل علیھماالسلام کی عظیم الشان یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لیے قائم کردی۔
جب تک دنیا قائم رہے گی تو حضرت ابراہیم واسمعیل کی بھلائی اور بڑائی سے یاد کرے گی۔
على نبينا وعليهما الف الف سلام وتحية.
اخیر میں یہ بات آپ کی خدمت میں پیش کردوں کہ: مصیبت  کے وقت انسان کاقدم ڈگمگا جاتاہے،لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بہت ساری  آزمائشیں اور امتحانات ہوئے اور وہ بھی خالق ومالک کی طرف سے،لیکن سب امتحان میں وہ صبر و تحمل اور استقامت کے ساتھ  مکمل کامیابی حاصل کی۔
ہمیں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دور مشکلات کی زندگی سے سبق حاصل کرناچاہئے،اور ان جیساجذبہ،ہمت،تحمل،استقامت  ،اطاعت خداوندی اور عشق کریمی اپنے اندر پیدا کرناچاہیئے۔
نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ پاک کی طرف سے  دنیا کی سب سےقیمتی اور محبوب چیز کی قربانی کا مطالبہ کیاگیاتھااور انہوں نے اس کو پورا کر دکھلایا۔آج ہم مسلمان جو قربانی کرتےہیں،تو سوچتے ہیں کہ سستی  سےسستی چیز راہ خدا میں خرچ کروں۔ بہت افسوس کی بات ہے!!
  آج کے زمانےمیں قربانی کے گوشت صرف ان لوگوں کو۔ دیاجاتاہے جو آپ کو دیتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے، اپنوں کے ساتھ غریبوں کو دیجئے،یتیموں اور مسکینوں کو نہ بھولیے ورنہ تو لوگ ساراکاسار گوشت فریج میں ڈال کر سالہاسال کھاتے رہتے ہیں۔
  نیزحضرت اسمعیل کی گردن پہ چھری بھی اللہ کے حکم بغیر نہیں چل سکی،لیکن ہم اورآپ  شب وروز پروردگار کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں اور اس کے حکم سے روگردانی کرتے رہتے ہیں۔
قربانی تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت،طریقہ ہے، ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پاک  طریقے کو خوب اپنائیے اور جنتازیادہ سے زیادہ ہوسکے قربانی کریں۔
قربانی کامقصد: "لن ينال الله لحومها ولا دماءها ولكن يناله التقوى منكم"(الحج:آیت:۳۷)
قربانی کا اصل فلسفہ یعنی جانور کو ذبح کر کے گوشت کھانے کھلانے یا اس کا خون گرانے سے تم اللہ کی رضا کبھی حاصل نہیں کرسکتے۔
اللہ پاک کے دربار میں تمہارے جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہونچتاہے؛بلکہ تمہارے دل کا تقوی اور ادب پہونچتاہے کہ:کیسی خوش دلی اور جوش محبت اور عشق کے ساتھ ایک قیمتی اور نفیس چیز اس کی اجازت سے اس کے نام قربان کی،گویا اس قربانی کے ذریعے سے ظاہر کردیاکہ:ہم خود بھی تیری راہ میں اسی طرح قربان ہونے،اپنی جان نچھاور کرنے کو ہر وقت تیار ہیں؛بس یہی تقوی،اخلاص،جذبہ،حوصلہ اور خوشنودی اللہ کے پاس جاتاہے۔
  اور ایک سچے پکے اور امت محمدیہ کے  فرزندوں کی زندگی کی حقیقت بھی یہی ہے کہ:"قل ان صلاتي ونسكي ومحياى ومماتي لله رب العلمين"{انعام: رکوع:۲۰}
  یقینامیری نماز،میری  قربانی، میرا جینااورمیرامرنا، سب اللہ کے لیے ہے۔
"لاشريك له" اس میں کسی کی بھی ذرہ برابر شرکت کی  گنجائش نہیں۔
اللہ پاک ہم سبھوں کو سنت ابراہیمی کو زیادہ سے زیادہ زندہ کرنے والا بنائے،اخلاص وللہیت کے ساتھ عبادت اور قوم کی خدمت کی توفیق مرحمت فرمائے۔
ازقلم: اسعداللہ بن محمد موسیٰ علی قاسمی بیگوسرائیوی
بروز ہفتہ شب اتوار،۸/ذی الحجہ ۱۴ ۴۰مطابق 10/اگست ۲۰۱۹ء.

No comments:

Post a Comment