Thursday 29 August 2019

عورتوں کی مکاری

عورتوں کی مکاری
ایس اے ساگر
عورت اور مرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کی بجائے مردوں کی حاکمیت ہے۔ عورت کو صنفِ نازک کہا جاتا ہے۔ صنفِ نازک کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مرد کر لیتا ہے۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے۔  جب سیدنا یوسف کی قمیص دیکھی گئی تو وہ آگے سے پھٹی ہوئی تھی۔ عزیز مصر کو معلوم ہوگیا کہ اصل مجرم اس کی بیوی ہے اور اس کا بیان محض فریب کاری ہے۔ لیکن اپنی اور اپنے خاندان کی بدنامی کی وجہ سے اس نے اپنی بیوی پر کوئی مواخذہ نہیں کیا، مبادا یہ بات پھیل جائے صرف اتنا ہی کہا کہ یہ بیان تیرا ایک چلتر تھا اور یوسف (علیہ السلام) پر بہت بڑا بہتان تھا اور تم عورتوں کے چلتر بڑے گمراہ کن ہوتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کی تم دہری مجرم ہو۔ ایک اسے بدکاری پر اکسایا۔ دوسرے اس پر الزام لگا دیا۔ لہذا اب اس سے معافی مانگو- بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں (اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ 28؀) 12 ۔ یوسف :28) عزیز مصر کا قول نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ چناچہ کسی بزرگ سے منقول ہے وہ کہا کرتے تھے کہ میں شیطان سے زیادہ عورتوں سے ڈرتا ہوں۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ شیطان کا مکر کمزور ہے۔ (٤: ٧٦) اور جب عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا کہ تمہارا مکر بہت بڑا ہے اور درج ذیل حدیث بھی اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے۔- سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ سخت کوئی فتنہ نہیں چھوڑا (بخاری، کتاب النکاح، باب مایتقی من شؤم المراۃ)- اسی طرح (وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ ښ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ 29؀ ) 12 ۔ یوسف :29) سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یوسف سے اپنے گناہ کی معافی مانگو اور یہ بھی کہ اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو۔ چھٹی صدی کے مشہور فلاسفر طاس ہارڈونگ کا قول ہے: میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ عورت ایک شیطانی جادو ہے جس کے اثر سے محفوظ رہنا نہایت دشوار امر ہے۔ عورت ایک ایسے پھول کی مانند ہے جو بظاہر خوشنما نظر آتا ہے لیکن اس میں بے شمار کانٹے ہیں۔
بدلہ لینے میں طاق:
ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﻄﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎ ﮈﺍﻻ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻝ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺑﯿﺲ ﺑﯿﺲ ﻣﮑﺎﺭﯾﺎﮞ ﭼُﮭﭙﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﮏ ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳُﻨﺎ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﮭﻠﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﺎ ﺳﺮ ﮔﻨﺠﺎ ﮐﺮﮈﺍﻻ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻭﭦ ﭘﭩﺎﻧﮓ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺻﻔﺖ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺗﮭﯽ، ﺧﯿﺮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺩُﮐ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ؟؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺑﻮﻻ: ﺍﺭ ﻧﯿﮏ ﺑﺨﺖ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮨﮯ ﻧﺎ ... ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺩﻭ۔
ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮩﺖ ﺍُﺩﺍﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺍِﺱ ﺑﯿﻮﻗﻮﻑ ﮐﻮ ﺍﺻﻞ ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺩﮐﮭﺎﻧﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﺎﻧﯽ۔ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﮔﻠﮯ ﺭﻭﺯ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﮐﻠﻮ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﭽﮭﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍل لیا ﺍﻭﺭ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭼُﮭﭙﺎﺩﯾﺎ۔
ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺟﺐ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﻣﻠﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﭽﮭﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﮭﯿﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺗﮭﻤﺎﺩﯾﺎ ﮐﮧ: ﯾﮧ ﻟﻮ ﺁﺝ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﭘﮑﺎﺋﯿﻨﮕﮯ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﯽ ﺍﺱ وقت؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺑﻮﻻ: ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗ ﻟﮕﯽ ﮨﯿﮟ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﺎﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﮐﺮ کہیں ﭼُﮭﭙﺎ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﺎج ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮﮔﺌﯽ، 
ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ وقت ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ: ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻻﺅ ﺗﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮑﺎﺅں گی ﻧﺎ ؟؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﮔﺮﺝ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ: ﺍﻭﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﻻﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﮑﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ؟؟؟
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ: ﮐﻮﻧﺴﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ؟؟؟
ﺷﻮﮨﺮ: ﻭﮨﯽ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍﯼ ﺗﮭﯽ،
ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮐﮧ ﺟﻠﺪﯼ ﺁﺟﺎﺅ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ، 
ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ؟؟
ﺗﻮﺑﻮﻟﯽ: ﮐﻞ ﺳﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﺮﮐﺘﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻨﺠﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﮈﺍﻻ. ﺧﯿﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﮧ ﻟﻮﻧﮕﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﭘﮑﺎﺅ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮨﮯ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﻮ ﻟﭙﮑﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﮑﮍﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﺷﻮﮨﺮ ﺑﻮﻻ: ﺟﮭﻮﭦ ﻧﺎ ﺑﻮﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﻻﮐﺮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﮭﻤﯿﮟ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ: ﭼﻠﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮ! ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺗﻮ ﭘﻮﭼﮭﻮﮞ
ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺁﺋﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺑﻮﻻ: ﻣﯿﮟ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮑﮍﮐﺮ ﻻﯾﺎ ﺗﮭﺎ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ: ﻟﻮ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺁﮔﺌﯽ؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﮭﺮ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮﺭﺳﯽ ﮐﯿﺴﺎﺗ ﮐﺮﺳﯽ ﺳﮯ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﻟﯿﺎ، ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥﺳﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ سے واپس ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﻣﯿﮟ چھپالی،
ﺷﻮﮨﺮ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ: ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﭽﮭﻠﯽ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ: ﯾﮧ ﭘﺎﮔﻞ ﭘﻦ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﺍ ﺗﻮ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﮐﭽ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﻮ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﺩﮐﮭﺎﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ
ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺟﯽ ﺟﺎ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﻭﮦ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ، ﺗﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﻣُﺴﮑﺮﺍﮐﺮﮐﮩﺎ: ﯾﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺟﻮ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﺏ ﭘﺎﮔﻞ ﺧﺎﻧﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﻮ ﮔﮯ؟؟؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ: ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﺟﻮ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﭘﻨﮕﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ۔۔۔ لہٰذا اگلی باری ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا.
بات پلٹنے کا ہنر:
مسافر نے کنویں سے پانی بھرتی عورت سے مانگ کر پانی پیا۔ عورت مہذب، خوبصورت اور اپنے اطوار سے نہایت ہی بھلی اور معصوم سی لگتی تھی۔
آدمی نے پوچھا: تم نے کبھی عورتوں کی مکاری کے بارے میں تو نہیں سُنا ہوگا؟...
عورت نے پانی بھرنا چھوڑا اور ایک اونچی دھاڑ مارکر اتنے زور سے چیخ و پُکار کرتے ہوئے رونا شروع کیا کہ گاؤں کے لوگ بھی اس کی آہ و پکار سُن لیں۔
آدمی عورت کی اس حرکت سے خوفزدہ ہوکر بولا: تم ایسا کیوں اور کس لئے کررہی ہو؟
عورت نے کہا: تاکہ گاؤں والے آکر تجھے قتل کر ڈالیں کیونکہ تو نے مجھے تکلیف دی ہے اور میرا دل دُکھایا ہے۔
آدمی گھگھیاتے ہوئے بولا: میری بات سُنو، میں ایک مسکین اور اپنے کام سے کام رکھنے والا مسافر ہوں، میں بھلا کیونکر تمہیں تکلیف پہنچاؤں گا؟ میں تو بس تمہاری معصومیت سے متاثر ہوا تھا تو پوچھ بیٹھا کہ تم نے تو یقیناً عورتوں کی مکاری کے بارے میں کبھی نہیں سُن رکھا ہوگا؟ تم ایک مہذب اور حسین و جمیل عورت ہو، مگر میں خدا خوفی رکھنے والا انسان ہوں، مجھے تم سے کیا لینا دینا کہ موقع پاکر تم سے بات کرنے کی خواہش کرونگا؟
اس بار عورت نے اپنا مشکیزہ اُٹھاکر اپنے اوپر اُنڈیل کر اپنے آپ کو پانی سے تربتر کرلیا۔ آدمی کی حیرت اس بار اور بھی دو چند ہوگئی۔ پوچھا: اب کیا ہوا کہ تُم نے اتنی محنت سے کنویں سے نکالا پانی اپنے اوپر ڈال کر اپنے آپ کو بھگولیا
؟
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ گاؤں والے لوگ کنویں تک پہنچ گئے۔
عورت نے اُن لوگوں کو بتایا کہ میں کنویں میں گرگئی تھی۔ اور آج اگر یہ مُسافر یہاں نا ہوتا اور مجھے باہر نا کھینچتا تو میں مر ہی گئی تھی۔
لوگوں نے اس آدمی کے اس احسان کے بدلے اُسے گلے لگاکر شکریہ ادا کیا اور اُس کی ہمت و جوانمردی کا تذکرہ کرنے لگے۔
گاؤں کے لوگوں کے ساتھ عورت واپس جانے لگی تو اس آدمی نے پوچھا، اپنی ان دونوں حرکتوں کے پیچھے تمہاری کیا حکمت و دانائی تھی یہ تو بتاتی جاؤ!
عورت کہنے لگی کہ بس اسی طرح ہی ہر عورت ہوا کرتی ہے؛
اگر اُسے اذیت دوگے تو تمہیں قتل کر
وادینے سے کم پر راضی نہیں ہوگی۔
اور اگر آُسے راضی اور خوش رکھوگے تو تمہیں بھی خوش و خرم رکھے گی.
بودیا غلط فہمی کا کانٹا:
یوں تو بادشاہ وزیر اور نوکر کے بیٹے آپس میں تینوں گہرے دوست تھے اور انہوں نے یہ عہد بھی کر رکھا تھا کہ ہمیشہ ایک ساتھ رہیں گے مگر بادشاہ کے لڑکے کا دلی لگاؤ نوکر کے بیٹے سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ وزیر زادے کو یہ بات بہت کھٹکتی تھی چنانچہ وہ چپکے چپکے کسی ایسی ترکیب کی تلاش میں رہا جو شہزادے اور نوکر کے بیٹے میں اختلافات پیدا کردے۔ شہر میں ایک مکار عورت رہتی تھی۔ ایک ہزار روپے کے عوض اس نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا۔ اس مکار عورت نے وزیر زادے کو یقین دلایا کہ یہ کام اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ کسی مناسب وقت کی تاک میں رہی۔ ایک روز شہزادہ اور نوکرزادہ اسے جاتے ہوئے دکھائی دئیے۔ اس نے آگے بڑھ کر نوکرزادے کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ وہ قریب آیا تو مکار عورت نے اس کے کان میں کچھ کہنے کا انداز اختیار کرتے ہوئے منہ جھکالیا اور بس یونہی کھڑی رہی۔ پھر پیچھے ہٹ کر اونچی آواز میں بولی: جو بات میں نے کہی ہے وہ کسی سے نہ کہنا۔ بس یہ معاملہ اب تمہارے اور میرے درمیان رہے گا۔ 
شہزادے نے پوچھا: کیا راز کی بات ہورہی تھی؟ 
نوکر زادہ نے جواب دیا: نہیں کوئی بات بھی تو نہیں تھی۔ 
شہزادے نے اسے جھٹلایا: بات تو ابھی میرے سامنے ہوئی ہے اور تم مجھ سے چھپا رہے ہو؟ اگر تم نے یہ راز نہ بتایا تو آج سے تمہاری ہماری یاری ختم ہوجائے گی۔ 
نوکرزادہ صفائی پیش کرتا رہا مگر شہزادے نے اس کی ایک بات نہ مانی۔ 
نوکر زادے نے لاچار ہوکر کہا: ’’اگر شہزادہ محترم کوئی بات کی گئی ہوتی تو میں بتاتا۔‘‘ نہ وہ بات بتاسکا اور نہ شہزادے کے دل سے غلط فہمی کا کانٹا نکلا۔ آخر دونوں میں پھوٹ پڑگئی۔ اس طرح 2 دوستوں میں دوری پیدا کرنے کی وزیر زادے کی دیرینہ خواہش ایک مکار عورت کے حیلے نے پوری کر دکھائی۔ 
(چولستانی کہانیاں سے مقتبس)
بدکاری پر عیاری کا پردہ:
بعض صالحین کی حکایت میں سے ہے کہ ایک نیک شخص نہایت ہی غیرت مند تھا۔ اور اس کی بیوی بہت خوبصورت تھی اس کے پاس باتیں کرنے والا پرندہ تھا. اس شخص نے سفر کا پروگرام بنایا تو پرندے کو حکم دیا کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی کے ساتھ جو بھی معاملہ پیش آئے۔ وہ اسے بتائے۔ بیوی کا ایک دوست تھا جو ہر روز اس کے پاس آتا۔ جب وہ شخص سفر سے واپس لوٹا تو پرندے نے اس کو سب کچھ بتادیا۔ تو اس نے اپنی بیوی کو مارا پیٹا۔
بیوی جان گئی کہ یہ کام پرندے کا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ وہ رات کو مکان کی چھت پر چکی پیسے۔ اس نے پرندے  کے پنجرے پر بوریا رکھ کر اس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا اور چراغ کی روشنی میں شیشہ ظاہر کیا۔ اس کی شعاعیں دیوار پر پڑیں تو پرندے نے سمجھا کہ یہ  بادل کے گرجنے کی آواز ہے۔ پانی بارش کا ہے اور چمک بجلی کی ہے۔
جب دن نکلا تو پرندے نے اس شخص سے کہا کہ: اے میرے مالک رات کو بارش، کڑک اور بجلی میں آپ کیا کا حال تھا؟ 
مالک نے کہا یہ کیا بات ہوئی۔ ہم تو گرمی میں تھے۔ بیوی نے (موقع غنیمت جانا) کہا کہ تم نے اس کا جھوٹ دیکھا؟ اس نے میرے متعلق  بھی جو کچھ کہا ہے وہ سب کچھ جھوٹ ہی تھا۔ چنانچہ اس شخص نے اپنی بیوی سے صلح کرلی اور اس سے راضی ہوگیا۔ پھر پرندے سے کہا کہ تو جھوٹی تہمت لگاتا ہے۔ پرندے نے اپنی چونچ اپنے جسم پر ماری اور  خود کو لہولہان کردیا۔  پھر مالک نے اپنی بیوی کے حکم پر اس پرندے کو فروخت کردیا تاکہ بیوی کو سکون ہوجائے۔ واللہ اعلم
(علامہ شہاب الدین قلیوبی رحمة اللہ علیہ)
مختصر یہ کہ جس طرح نفقاتِ حسیہ (نان نفقہ) کے ذریعہ سے بیوی اور اولاد اور متعلقین کی جسمانی تربیت ضروری ہے اسی طرح علوم اور اصلاح کے طریقوں سے ان کی روحانی تربیت اس سے زیادہ ضروری ہے۔ اس میں بھی قسم قسم کی کوتاہیاں کی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کو ضروری ہی نہیں سمجھتے یعنی اپنے گھر والوں کو نہ کبھی دین کی بات بتلاتے ہیں نہ کسی بُرے کام پر ان کو روک ٹوک کرتے ہیں۔ بس ان کا حق صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ ان کو ضروریات کے مطابق خرچ دے دیا اور سبکدوش ہوگئے۔ حالاں کہ قرآن مجید میں نصِ صریح ہے:
یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا قُوۡۤا  اَنۡفُسَکُمۡ  وَ اَہۡلِیۡکُمۡ  نَارًا
اے ایمان والو! اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اس کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو بھلائی یعنی دین کی باتیں سکھلاؤ۔











No comments:

Post a Comment