خواتین کی نارمل ڈلیوری نہ ہونے کی وجوہات اور علاج
ایلوپیتھک ڈاکٹرس حاملہ خواتین کو بہت زیادہ کشتے کھلا رہے ہيں ۔کیلشیم اور آئرن کے suppliments کو کشتہ کہتے ہیں
ایک دوست کا سوال تھا کہ آج کل ڈیلیوریز نارمل کیوں نہیں ہوتی ہیں ۔
حالانکہ آج کل جدید ترین ہسپتال طبی سہولیات میسر ہیں،
جب کسی خاتون کو امید ہوتی ہے تو وہ فوراً لیڈی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے، نو ماہ اس کے زیر نگرانی باقاعدگی سے چیک اپ کرواتی ہیں، اس کی تجویز کردہ ادویات بھی کھاتی ہیں، ان کی مہنگی فیسیں بھی ادا کرتی ہیں، مگر جب ڈیلیوری کا وقت آتا ہے تو پھر کیس نارمل کیوں نہیں ہوتا ؟؟
نو ماہ مسلسل فولک ایسڈ اور کیلشیم کی گولیاں کھانے اور venofer کی ڈرپس لگوانے کے باوجود ڈیلیوری کے وقت خون کی کمی کیوں ہو جاتی ہے۔۔۔؟؟
میرے عزیزو !
اس سوال کا جواب کچھ اس طرح ہے کہ ڈیلیوری نارمل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ، مسکولر ٹشوز کا سخت ہونا ہے، اور رطوبت تلیہ۔Lyphatic liquids کا کم ہونا ہے،
*یاد رکھیں*
عورت کے جسم میں جتنی لچک اور Flexibility ہوگی بچہ کے اتنے ہی چانسز نارمل کے ہونگے
اور جتنے سخت ہوں گے اتنا ہی آپریشن کا امکان زیادہ ہوگا مندرجہ ذیل عوامل عورت کے جسم کے مسکولر ٹشوز کو سخت اور راستوں کو تنگ کر دیتے ہیں اور ان کے اندر کی رطوبت تلیہlympatic liquids بھی کم ہو جاتی ہیں جو لبریکیشن کا کام کرتی ہیں فطرت اور نیچر کے خلاف جب ہم چلے گئے تو فطرت ہمیں سزا ضرور دے گی یعنی فطرت سے روگردانی کی سزا کی وجہ سے ہمیں آپریشن سے گزرنا پڑتا ہے قطع نظر اس کے کہ بہت بڑی بڑی بلڈنگز ہیں، ہسپتال ہیں، مہنگے ڈاکٹرز ہیں، مہنگی ادویات، مہنگےانجکشنز، اٸیر کنڈیشنڈ کمرے ہے،
*یاد رکھیں*
یہ سب کچھ کبھی بھی فطرت کا متبادل نہیں ہو سکتے، پیسے کا لالچ اور ہوس اور انسانیت سے دوری، مریض کی زندگی اور صحت سے زیادہ مریض کی جیب پر نظر کا ہونا،
دوسری بڑی وجہ ہے، عورتوں کا سہل پسند ہونا اور یہ تصور کہ حمل ہو جانے کے بعد کام نہیں کرنا، سارا دن فارغ بیٹھے رہنا، مسکولر ٹشوز اور خصوصا اووری کے مسلز کو نرم اور flexible بنانے کے بجاٸے ۔۔stiff اور سخت بنا دیتا ہے، فارغ سارا دن لیٹے رہنے کی بجاٸے اگر مخصوص ورزش خصوصا آخری مہینوں میں کی جاٸے یا گھر کے کام کاج کئے جاٸیں، جیسے جھاڑو دینا، ڈسٹنگ کرنا، اس سے اووری کے مسلز کو حرکت ملے گی جس سے حرارت پیدا ہوگی جو مسلز کو نرم کرے گی، خوراک میں جب ہم فولک ایسڈ یا venofer کے انجکشن لگاٸیں گے، تو یہ لوہا ہونے کی وجہ سے جسم کے مسلز کو انتہاٸی زیادہ سخت کرے گا، کیونکہ یہ مسلز کی خوراک ہے جس سے راستہ کھلنے کے بجاٸے اور زیادہ تنگ ہوگا، اس کی جگہ اگر فطری چیزیں جیسے کہ
کالے چنے، مربہ ہریڑ، مربہ املہ،
مربہ بہی ،سیب، پالک، ساگ، کلیجی، دودھ، انڈا، شہد، گھی، منقی،آڑو، لونگ، دارچینی،دوغن بادام، زعفران، کا استعال کیا جاٸے تو اس سے جسم کو قدرتی فولک ایسڈ اور خون بھی وافر مقدار میں ملےگا، اور جسم کے مسکولر ٹشوز سخت ہونے کے بجاٸے طاقتور اور نرم ہونگے خوبصورت بچے پیدا ہونگے،
اور میں گارنٹی سے کہتا ہوں لکھ کر دینے کو تیار ہوں بچہ بھی خوبصوت پیدا ہوگا،
دوسری طرف کیلشیم کی گولیاں یاد رکھیں ہڈیوں کو سخت کر دیتی ہیں، نو ماہ بے دریغ کیلشیم کی گولیاں کھانے سے ماں اور بچے دونوں کی ہڈیاں سخت، تو آپ اندازہ کر لیں مسکولر ٹشوز بھی سخت، ہڈیاں بھی سخت، اسی لئے بعض اوقات کہہ دیا جاتا ہے کہ، بچے کا سر بڑھا ہوا ہے، ماں کی ہڈی بڑھی ہوٸی ہے، اپریشن ہی ہوگا،
نو ماہ اندھا دھند گولیاں کھلا کھلا کر آپ نے نارمل ڈیلیوری کا چانس چھوڑا ہی کب ہے
کیونکہ اس سے کمائی زیادہ ہے،
آپریشن سے تو پیسے بننے ہیں،
نارمل سے کیا ملنا ہے،
اگر قدرتی کیلشیم
دودھ، دھی، انڈے، گھی، کھلایا جاتا تو گارنٹی سے کہتا ہوں کبھی کیلشیم کی کمی نہ آتی اور ہڈیاں مضبوط تو ہوتی مگر بڑھتی ضرور مگر سخت نہ ہوتی.
ہاں ایک بات ضرور !!!
دکان کی سیل کم ضرور ہو جاتی ہے، کمیشن ضرور کم ہو جاتا ہے،
سٹور کی سیل کم ہو جاتی ہے ،
آپس میں لڑاٸی پڑ جاتی ہے،
بنک بیلنس کم ہو جاتا ہے ، نارمل ڈلیوری سے آمدنی کم ہو جاتی ہے، کیونکہ عملی طور پر پروفیشنل لوگوں کا یقین اللہ تعالی اور انسانیت پر زیرو ہے،
ڈیلوری نارمل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ، جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہڈیوں کا سخت ہونا، مسکولر ٹشوز کا سخت ہو کر ان میں لچک کا کم ہونا اور اس میں رطوبات صالح کی کمی کا ہونا ہے، جو لبریکیشن کا کام کرتی ہیں،
ان سب کے لئے آخری ماہ تک صدیوں سے آزمودہ فارمولہ جو ہماری ماٸیں استعمال کرتی آرہی تھی، اور آج بھی دور دراز کے علاقوں میں کرتی ہیں ایک تو جسمانی مشقت اور ورزش تھی،
تو دوسری اہم فطری چیزیں
دیسی گھی، چھوہاروں، زعفران، کو دودھ میں ڈال کر استعمال ہوتا تھا، جس میں فولاد، کیلشیم، گندھک، یعنی حرارت وافر مقدار میں موجود ہوتی ہیں، اس کا چھوڑ دینا اور سارا دن عورتوں کا بستر پر لیٹے رہنا اور کیلشیم فولک ایسڈ کی گولیاں کھانا اور venifer کے انجکشن لگوانا ہے، پھر ڈیلیوری کے روز اور دوران جو ظلم وستم ہوتا ہے،
اللہ کی پناہ
ایک تو شرم و حیا کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں، جسم دکھایا جاتا ہے، چوڑے چمار تک جملے کستے ہیں، سلفی بناٸی جارہی ہوتی ہیں،
*استغفراللہ*
پھر پیسے کے لالچ اور حرص میں ہم اس حد تک گر چکے ہیں کہ
نارمل کیسز کو کٹ لگوا کر جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے،
ایک اور ظلم جس کی طرف بطور خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں، کہ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، تو اسکا درجہ حرارت ٧٠ سے ٩٠ تک ہوتا ہے،
لیبر روم میں اٸیر کنڈیشن ہونے کی وجہ سے ایک تو ماں کے عضلات سردی سے سکڑتے ہیں،
یہ ساٸنس کا اصول ہے کہ سردی سے چیزیں سکڑتی اور حرارت سے پھیلتی ہیں، کمرے میں ١٦ درجہ کا ٹمپریچر ہونے سے رحم سکڑے گا یا پھیلے گا ؟؟
یقیناً سکڑے گا تو یہ چیز نارمل ڈیلوری میں معاون ہوگی یا رکاوٹ؟؟یقینی جواب ہے رکاوٹ
مگر نازک مزاج ڈاکٹر صاحبان کو گرمی لگے گی، لہذا مریض جاٸے بھاڑ میں یا موت کے منہ،
آں جناب کی طبع نازک یہ برداشت نہیں کر سکتی، ڈاکٹر ہوکر اس کی ناک پر پسینہ آجائے، اتنا بڑا ظلم، حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر تو ڈاکو ہیں ہی،
لیبر روم کا صفاٸی والا عملہ
اس کا نخرہ، اور اس کا رعب،
اللہ کی پناہ، وہ آسمان پہ ہوتا ہے،
مگر سلام ہے ہماری ان ماؤں اور بہنوں کو جو پہلے لیبر روم میں انگھیٹیاں جلاکر پسینوں پیسنی ہوکر فطری عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی تھی، گھر میں ہی۔
اسی سلسلے میں ایک اور مسٸلہ بچے کا سانس اکھڑنا اور incobeter میں ڈالنا
دوستوں !
جب بچہ ایک دم تقریبا ٨٠ ۔۔٩٠ کے ٹمپریچر سے یک دم سولہ کے ٹمپریچر پے آئے گا تو اس کا سانس نہیں اکھڑے گا تو اور کیا ہوگا۔۔؟ پھر درد کے انجکشن لگوانے کی سزا بلکہ بھینسوں والے انجکشن پابندی کے باوجود لگاٸے جاتے ہیں، جو عورت کو ساری زندگی کمر درد کی صورت بھگتنا پڑتی ہے وہ ایک الگ کہانی ہے،
پھر ایک ایک دن کا گننا اور ایک دن بھی اوپر نہ جانے دینا کہ گاہک کسی اور دکان کا رخ نہ کر جاٸے، ظلم پہ ظلم، ڈاکے پہ ڈاکہ،
*اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کروں کہ پھل جب پکتا ہے تو خود بخود نیچے گرتا ہے، دردیں قدرتی اور فطری ہونی چاہیے،*
یاد رکھیں فطرت انسان کی دوست ہے دشمن نہیں
مصنوعی دردیں کہ گاہک دوسری دکان پر نہ چلا جاٸے کے خوف سے بھینسوں والے ٹیکے لگائیں گے تو فطرت کے ساتھ بھیانک مذاق ہے، پھر نتاٸج تو بھگتنا ہی پڑیں گے، سزا تو ضرور ملےگی، فطرت کسی کو معاف نہیں کرتی، پھر یاد رکھ لیں، بچوں کے اندر جتنے کیسز خون کی کمی کے آرہے ہیں، وہ سب کے سب مصنوعی فولک ایسڈ اور مصنوعی کیلشیم کی وجہ سے ہیں، کیونکہ اس سے تلی spleen کا فعل متاثر ہوتا ہے، جس سے وہ انیمیا کا شکار ہو جاتے ہیں،
*المختصر*
فطرت سے جتنا دور ہٹیں گے اتنی ہمیں سزا زیادہ ملے گی
اس موضوع پر بہت کچھ ہے کہنے کو شاید اتنا بھی ہضم نہ ہو دکانداروں کو،
لیکن میرے پیارے بھاٸیوں!
یہ ہماری ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں کی زندگیوں کا مسٸلہ ہے.
اس کے لئے ایک کامیاب اور لوگوں کا آزمودہ نسخہ ہے
*ھوالشافی*
روغن بادام شیری 100 گرام ،
اس کی وجاہت کر دوں کہ
بازاری روغن تیار شدہ کبھی بھی نہ لیں اس میں بیس پرسنٹ ملاوٹ ہوتی ہے کسی تیل نکلوانے والے سے بادام لے کر نکلوائے
*استعمال*
حمل کے پانچویں سے آخری ماہ تک روزانہ رات کو ایک کپ دودھ میں دس قطرے روغن بادام ڈال کر دے
فوائد
نومولود بچہ کی نشوونما خوبصورت ہوگی،
تندورست ہوگا،
پیدائشی پیلیا اور پیلاہٹ والا نہیں ہوگا،
نارمل ڈلیوری ہوگی،
انشاءاللہ
*نوٹ*
اس تحریر کو پڑھ کر اپنے دوست احباب اوراقارب کو بتاے
تاکہ ہم فطرتی طور پر اس غزہ کا استعمال کرے اور آپریشن سے بچ جائیں.
دعاء کرے اللہ تعالیٰ آسانیاں تقسیم کرنے والا مجھ کو بنائیں
طالب دعاء
احقر جابر پالن پوری
No comments:
Post a Comment