Wednesday, 14 August 2019

مدارس و مساجد میں مدرسین اور ائمہ کی قلت تنخواہ کا موجودہ فرسودہ نظام

مدارس و مساجد میں مدرسین اور ائمہ کی قلت تنخواہ کا موجودہ فرسودہ نظام

مدارس و مساجد میں مدرسین اور ائمہ کی قلت تنخواہ کا موجودہ فرسودہ نظام ہرگز ھمارے اکابر کا نہیں؛ بلکہ موجودہ مہتممین اور متولیین کا تھوپا ہوا نظام ہے. اور ھمارے مولوی بھی کم تنخواہوں پر گزارہ کرکے سمجھتے ہیں کہ ھم بڑا نیک کام کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف کم تنخواہوں کی وجہ سے وہ اپنے بال بچوں ماں باپ اور رشتہ داروں کے حقوق ضائع کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں چند ایک مخلصین کے اخلاص کے علاوہ باقی اکثریت مولوی مجبورا فقر کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور مہتمین اور متولین انھیں اخلاص کا لالی پاپ دیکر انکا مسلسل استحصال کرتے جارہے ہیں.
بالعموم لوگ قلت تنخواہ کے لئے اکابر کی تنخواہوں کا حوالہ دیتے ہیں؛ پتہ نہیں کون سے اکابر تھے جو ہم مولویوں کی طرح اضطراری فقر کے شکار تھے، ہمارے اکابر تو بڑے خوش حال تھے؛ ہاں جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ مال غنیمت اور غلاموں کی کثرت کے باوجود فقر اختیار فرماتے.
اختیاری فقر محمود ہے؛ جب کہ اضطراری فقر مذموم. کیا آپ نے نہیں پڑھا "كاد الفقر أن يكون كفرا".
سوانح قاسمی کے مطابق حضرت نانوتوی آٹھ/دس روپے کی اجرت پر مطبع میرٹھ میں کام کرتے تھے. اس وقت اتنے میں ایک بھینس مل جاتی تھی.
اب ایک متوسط بھینس کی قیمت چالیس پینتالیس ہزار روپے ہیں.
"دجالی فتنہ کے نمایاں خد وخال" (مصنف: حضرت گیلانی) کے مطابق شیخ الہند کی تنخواہ پچھتر روپے تھی.
پچاس میں ان کا گھر چل جاتا تھا، پچیس روپے ہر ماہ دارالعلوم کو واپس کر دیتے تھے (یہ انتہائی درجے کا خلوص تھا)
اشرف السوانح کے مطابق حضرت تھانوی کی تنخواہ کانپور سے علیحدگی کے وقت پچاس روپے تھی.
اسی کتاب کے مطابق جب حضرت کی ملکیت پانچ سو روپے کی ہوگئی تھی تو والد ماجد کو لکھ گئے تھے کہ اب مجھ پر حج فرض ہوچکا.
یعنی دس ماہ کی تنخواہ سے حج فرض ہوجایا کرتے تھے.
حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب کی تنخواہ ڈھائی سو روپے تھے.
اور حج کرنے گئے تو اس کا کل خرچ پندرہ سو روپیہ آیا تھا.
کیا یہ تنخواہیں کم ہیں؟ بالکل نہیں.
اگر بغور دیکھا جائے تو تنخواہوں کے بڑھنے کی جو رفتار ہے اصل کمی وہاں ہے، کہ مہنگائی تیس فیصد بڑھتی ہے تو تنخواہ آٹھ دس فیصد.
ایک ریسرچ کے مطابق ۱۹۷۰ سے ۲۰۱۵ کے دوران اسکول ٹیچروں کی تنخواہ 180 سے 320 فیصد اضافہ ہوا ہے.
اب بتائیں ۱۹۷۰ میں پڑھانے والے کسی عالم کی تنخواہ اور اس میں ۳۰۰ فیصد کا اضافہ کریں پھر دیکھیں کیا ۲۰ ہزار سے کم تنخواہ رہتی ہے اس وقت؟ وہ بھی ۲۰۱۵ تک کا ریسرچ. یعنی ۲۰ ہزار سے زائد تنخواہ ۲۰۱۵ میں ہونی چاہئے.
اس لئے اکابر کی طرف قلت تنخواہ کا انتساب بالکل درست نہیں ہے.
مھتمین اور متولین اس ظلم سے توبہ کریں اور مولویوں کو بھی چاہیے کہ وہ مظلوم نا بنیں رہیں خوشحالی کی طرف قدم اٹھائیں اپنے نسلوں کو فقر سے نکالیں.
جو مدرسہ یا مسجد انہیں پوری تنخواہ نہیں دیتا اس سے فورا دوسری ھجرت کرجائیں جہاں آپکو اچھی تنخواہ ملے خوامخواہ اخلاص کی تاویلیں نا گھڑیں حتی کہ اگر آپکو مسجد مدرسہ چھوڑ کر کوئی اور اچھا کام ملے تو اپنی نسلوں کی خوشحالی کیلیے ضرور کیجیے یقین کیجئے اس سے آپکو کوئی گناہ نہیں ملے گا لیکن ہاں دنیا کے چکروں میں جانے سے پہلے ایک عزم ضرور کریں کہ آپ اپنے نماز روزہ  ایمانداری اور حسن معاملات کو درست رکھیں گے          آپ کا مخلص:                     
جوزر صفی

No comments:

Post a Comment