قرآن پاک کی تعلیم پر معاوضہ لینا
===================
قرآن مجید کی تعلیم، خطبہ جمعہ، امامت وغیرہ پر اُجرت لینے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس کی ممانعت کے بارے میں قرآن و سنت کے اندر کوئی صریح نص موجود نہیں ہے۔ جبکہ اس کے جواز کے دلائل موجود ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا ایک بستی سے گزر ہوا بستی والوں نے مانگنے پر بھی ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اچانک ان کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا۔ ان کے افراد صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور پوچھا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے اُجرت لے کر دَم کی حامی بھری۔ تو انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ کا وعدہ کرلیا۔ سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس پر دَم کیا اور متاثرہ جگہ پر اپنا لعاب لگایا تو وہ آدمی بالکل تندرست ہوگیا۔ وہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ بکریاں لے کر واپس آیا تو دوسرے ساتھیوں نے کہا تو نے تو کتاب اللہ پر اُجرت لی ہے۔ گویا اس چیز کو انہوں نے نا پسند کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بھی یہی کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اخذ علیٰ کتاب اللّٰہ اجرًا) تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سب سے زیادہ جس چیز پر تم اُجرت لینے کا حق رکھتے ہو، وہ اللہ کی کتاب ہے۔'' (صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب الشروط فی الرقبہ).
بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: (واضربو الی بسھمٍ) کہ میرے لئے بھی حصہ نکالو۔ بخاری شریف کی اس صحیح حدیث سے ثابت ہوگیا کہ قرآن پر اُجرت لی جاسکتی ہے۔ اس میں قرآن کی تعلیم، امامت اور خطبہ جمعہ بھی داخل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں اور ان میں وہ شامل ہیں۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ کہتے کہ میرا بھی حصہ نکالو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ حلال اور پاکیزہ چیز ہی استعمال کرتے تھے۔
دوسری دلیل نکاح میں خاوند پر بیوی کے لئے حق مہر دینا ضروری ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا نکاح قرآن مجید کی تعلیم کو حق مہر ٹھہرا کر کردیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اذھب فقد انکحتکھا بما معک من القرا
(بخاری کتاب النکاح باب التزویج علی القرآن)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن مجید کی تعلیم کی اُجرت دلوائی ہے۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی قرآن کی تعلیم کو حق مہر مقرر نہ کرتے۔ امام مالک نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے:
''کہ اس سے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینا جائز ہوگیا۔'' (فتح الباری ج۹، ص۱۲۱)
اس کے علاوہ محمد بن سیرین کبار تابعین سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک تعلیم دینے والا تھا، اس کے پاس بڑے بڑے لوگوں کے بیٹے پڑھتے تھے اور وہ اس معلم کا حق ادا کرتے تھے۔ (محلّی ابنِ حزم)
محمد بن سیرین نے ابی بن کعب اور ابوقتادہ جیسے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ پایا ہے اور ان سے روایات بھی لی ہیں۔ اگر قرآن کی تعلیم پر اُجرت جائز نہ ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم کرام ضرور ایسے شخص کو روک دیتے۔
===================
قرآن مجید کی تعلیم، خطبہ جمعہ، امامت وغیرہ پر اُجرت لینے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس کی ممانعت کے بارے میں قرآن و سنت کے اندر کوئی صریح نص موجود نہیں ہے۔ جبکہ اس کے جواز کے دلائل موجود ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا ایک بستی سے گزر ہوا بستی والوں نے مانگنے پر بھی ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اچانک ان کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا۔ ان کے افراد صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور پوچھا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے اُجرت لے کر دَم کی حامی بھری۔ تو انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ کا وعدہ کرلیا۔ سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس پر دَم کیا اور متاثرہ جگہ پر اپنا لعاب لگایا تو وہ آدمی بالکل تندرست ہوگیا۔ وہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ بکریاں لے کر واپس آیا تو دوسرے ساتھیوں نے کہا تو نے تو کتاب اللہ پر اُجرت لی ہے۔ گویا اس چیز کو انہوں نے نا پسند کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بھی یہی کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اخذ علیٰ کتاب اللّٰہ اجرًا) تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سب سے زیادہ جس چیز پر تم اُجرت لینے کا حق رکھتے ہو، وہ اللہ کی کتاب ہے۔'' (صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب الشروط فی الرقبہ).
بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: (واضربو الی بسھمٍ) کہ میرے لئے بھی حصہ نکالو۔ بخاری شریف کی اس صحیح حدیث سے ثابت ہوگیا کہ قرآن پر اُجرت لی جاسکتی ہے۔ اس میں قرآن کی تعلیم، امامت اور خطبہ جمعہ بھی داخل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں اور ان میں وہ شامل ہیں۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ کہتے کہ میرا بھی حصہ نکالو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ حلال اور پاکیزہ چیز ہی استعمال کرتے تھے۔
دوسری دلیل نکاح میں خاوند پر بیوی کے لئے حق مہر دینا ضروری ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا نکاح قرآن مجید کی تعلیم کو حق مہر ٹھہرا کر کردیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اذھب فقد انکحتکھا بما معک من القرا
(بخاری کتاب النکاح باب التزویج علی القرآن)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن مجید کی تعلیم کی اُجرت دلوائی ہے۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی قرآن کی تعلیم کو حق مہر مقرر نہ کرتے۔ امام مالک نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے:
''کہ اس سے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینا جائز ہوگیا۔'' (فتح الباری ج۹، ص۱۲۱)
اس کے علاوہ محمد بن سیرین کبار تابعین سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک تعلیم دینے والا تھا، اس کے پاس بڑے بڑے لوگوں کے بیٹے پڑھتے تھے اور وہ اس معلم کا حق ادا کرتے تھے۔ (محلّی ابنِ حزم)
محمد بن سیرین نے ابی بن کعب اور ابوقتادہ جیسے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ پایا ہے اور ان سے روایات بھی لی ہیں۔ اگر قرآن کی تعلیم پر اُجرت جائز نہ ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم کرام ضرور ایسے شخص کو روک دیتے۔
علمائے احناف کے نزدیک قرآن کی تعلیم پر اجرت کا حکم
====================
علمائے احناف کے نزدیک اذان، حج، قرآنی تعلیم اور امامت پر اُجرت لینا جائز نہیں جیساکہ ہدایہ میں ہے۔
احناف کا فتوی ہے: ''کہ اذان، حج، قرآنی تعلیم اور امامت پر اُجرت لینا جائز نہیں۔'' (ہدایہ اخریہ ص ۳۰۳)
اور دلیل میں ان کے علماء ابوداؤد کی مندرجہ ذیل روایت پیش کرتے ہیں۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ان کے ایک شاگرد نے ان کو ایک کمان تحفہ دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آگ کا طوق ہے، اگر پہننے کی طاقت ہے تو قبول کرلو؟
یہ روایت ابوداؤد میں موجود ہے مگر یہ روایت صحیح نہیں۔ اس کی سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہے۔ اس لئے اس سے استدلال کرنا درست نہیں۔
لمحہ فکریہ
---------
احناف اپنے ائمہ کی مذکورہ بالا بات پر قائم نہیں رہ سکے۔ اس وقت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کو نظر انداز کرکے دارالعلوم دیوبند سمیت تمام مدارس میں اساتذہ تنخواہ وصول کرتے ہیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ اس دور میں ہمارے بعض مشائخ نے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینے کو اچھا سمجھا ہے کیونکہ دینی امور پر عمل میں سستی ظاہر ہوچکی ہے۔ اُجرت کے جائز نہ رکھنے میں قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے اور اسی پر آج فتویٰ ہے (یعنی اُجرت لینا جائز ہے)۔
فاعتبروا یا اولی الالباب
https://saagartimes.blogspot.com/2019/08/blog-post_29.html
====================
علمائے احناف کے نزدیک اذان، حج، قرآنی تعلیم اور امامت پر اُجرت لینا جائز نہیں جیساکہ ہدایہ میں ہے۔
احناف کا فتوی ہے: ''کہ اذان، حج، قرآنی تعلیم اور امامت پر اُجرت لینا جائز نہیں۔'' (ہدایہ اخریہ ص ۳۰۳)
اور دلیل میں ان کے علماء ابوداؤد کی مندرجہ ذیل روایت پیش کرتے ہیں۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ان کے ایک شاگرد نے ان کو ایک کمان تحفہ دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آگ کا طوق ہے، اگر پہننے کی طاقت ہے تو قبول کرلو؟
یہ روایت ابوداؤد میں موجود ہے مگر یہ روایت صحیح نہیں۔ اس کی سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہے۔ اس لئے اس سے استدلال کرنا درست نہیں۔
لمحہ فکریہ
---------
احناف اپنے ائمہ کی مذکورہ بالا بات پر قائم نہیں رہ سکے۔ اس وقت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کو نظر انداز کرکے دارالعلوم دیوبند سمیت تمام مدارس میں اساتذہ تنخواہ وصول کرتے ہیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ اس دور میں ہمارے بعض مشائخ نے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینے کو اچھا سمجھا ہے کیونکہ دینی امور پر عمل میں سستی ظاہر ہوچکی ہے۔ اُجرت کے جائز نہ رکھنے میں قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے اور اسی پر آج فتویٰ ہے (یعنی اُجرت لینا جائز ہے)۔
فاعتبروا یا اولی الالباب
https://saagartimes.blogspot.com/2019/08/blog-post_29.html
No comments:
Post a Comment