Friday 9 August 2019

چرم قربانی کو ضائع کرنا؟

چرم قربانی کو ضائع کرنا؟

حقیقتِ قربانی سے گوشت کا تعلق ہے نہ پوست کا ، صحت قربانی کے لئے گوشت کھانا ضروری ہے نہ کھالیں محفوظ وکار آمد کرکے مدارس یا مستحق اداروں پہ صدقہ کرنا،
گوشت کھائے یا تقسیم کئے بغیر اگر قربانی درست ہے تو چرم صدقہ کئے بغیر بھی یقیناً قربانی درست ہوگی ۔اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں !
بات اصل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں گوشت اور کھال دونوں مال متقوم اور بیش قیمت ہے ، قیمتی اور گراں قدر چیزوں کو  رائیگاں کرنا شرعی نقطہ نظر سے ممنوع ہے ، اسراف وتبذیر کی ممانعت کے پیچھے بھی یہی حکمت کار فرما ہے ،
جیسے قربانی کے گوشت کا ضیاع جائز نہیں ؛اسی طرح جہاں کھالیں متقوم ہوں ، (خواہ قیمت کم ہی کیوں نہ ہو ) ان سے مختلف استعمالی چیزیں بنائی جاتی ہوں ، وہاں کھالوں کو ضائع کرنا بھی شرعا درست نہیں ہوگا ،
قیمت کی کمی بیشی سے قطع نظر کھالوں کو ان کے مصارف تک پہونچا دیا جائے، آگے مستحقین کو فروختگی میں نفع ہو یا نقصان ؟ وہ جانیں !
کم قیمت کی وجہ سے کھالو ں کو مستحقین تک نہ دے کر خود ہی اسے ضائع کردینے کی کوشش کرنا جیساکہ ان دنوں کچھ حلقوں کی طرف سے ایسا کہا جارہا ہے شرعی حکم سے ہم آہنگ نہیں ، دارالعلوم دیوبند نے اس عمل کو ناپسند یدہ قرار دیتے ہوئے دفن کرنے سے منع کیا ہے ،اس بابت دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی وائرل ہوچکا ہے ، مادر علمی کا فتوی شاہ راہ عمل ہے ۔اس پہ عمل در آمد کی مکمل کوشش کی جائے
مدارس والے اگر کسی مجبوری کی وجہ سے چرم نہ لیں تو چرم بعینہ امیر وغریب کسی کو بھی ہبہ کردیں
جیسے گوشت امیر غریب سب کو دے  سکتے ہیں ویسے ہی چرم بھی بعینہ ہر کسی کو دے سکتے ہیں
ذاتی استعمال کی چیزوں : مثلا جائے نماز ودستانے وغیرہ میں ہر کوئی استعمال کرسکتا ہے ۔
تجارتی کساد بازی کی وجہ سے چرم قربانی کو دفناکر یا جلاکر ضائع کرنا جبکہ اس سے دوسرے طریقوں سے استفادہ کرتے ہوئے کار آمد بنایا جانا ممکن ہو ، شرعا جائز نہیں ہے، یہ عمل شرعا ممنوع ہے، صحیحین  کی روایت  میں اس سے منع کیا گیا ہے ، اس سے اضاعت مال  کا گناہ ہوگا:
كَانَ يَنْهَى عَنْ قِيل وقَالَ، وإضَاعَةِ المَالِ، وَكَثْرةِ السُّؤَالِ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقُوقِ الأمهَّاتِ، ووأْدِ الْبَنَاتِ، وَمَنْعٍ وهَاتِ ۔متفقٌ عَلَيْهِ: رواه البخاري (1407) ومسلم (593) .
ہاں ! جن ملکوں میں چمڑوں کی بالکلیہ تجارت ہی نہ ہوتی ہو یا جہاں لوگ اسے مال شمار ہی نہ کرتے ہوں تو ایسی جگہوں کا حکم مختلف ہوگا اور وہاں گنجائش نکل سکتی ہے۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment