Sunday 18 August 2019

مسلمين اور مؤمنين میں کیا فرق ہے؟

مسلمين اور مؤمنين میں کیا فرق ہے؟

شيخ شعراوي کہتے ہیں :-
جب میں سان فرانسيسكو میں تھا تو ایک مستشرق نے مجھ سے پوچھا۔
- کیا ہر وہ بات جو تمہارے قرآن میں ہے وہ سب صحیح ہے؟!
تو میں نے زور دے کر جواب دی۔ جی ہاں بالکل
-تو اس نے مجھ سے پوچھا :
تو کافروں کے لئے تم  مسلمانوں پر غلبہ کی راہ کیسے کھلی ہوئی ہے جبکہ اللہ نے فرمایا ہے:
"ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا "
(ترجمہ)
"اللہ نے کافروں کے لئے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔"
تو میں نے اسے جواب دیا:
یہ اس لئے ہے کہ ہم مسلمين ہیں مؤمنين نہیں ہیں!
• فرق کیا ہے المؤمنين اور المسلمين میں ؟
شيخ الشعراوی نے جواب دیا: المسلمون اس زمانہ میں وہ ہیں جو تمام شعائر اسلام کی ادائیگی کرتے ہیں یعنی وہ نماز پڑھتے ہیں، زكاة دیتے ہیں، اور حج کرتے ہیں اور رمضان کے روزے رکھتے ہیں وغیرہ عبادتیں کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مکمل بدنصیبی اور محرومی کا شکار ہیں!
- علمی بدنصیبی ، اقتصادی بدبختی اور سماجی اور عسكری بد بختی  .. وغیرہ ۔ تو آخر یہ شقاوت اور بدبختی کیوں ہے؟
• قرآن كريم میں آیا ہے:
' قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا ولما يدخل الإيمان في قلوبكم ' الحجرات ١٤
یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لاۓ 30 ۔ ان سے کہو تم ایمان نہیں لاۓ ، بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے 31 ۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔
(اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا، یقیناً اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے)
اس نے مجھ سے پوچھا: تو  یہ شقاوت اور بد بختی کیوں ہے؟
قرآن كريم نے اس کی وضاحت کردی ہے ،
اس لئے کہ مسلمانوں نے ايمان  کے مرحلہ تک ترقی نہیں کی ہے کہ وہ مؤمن ہوجاتے . ہمیں مندرجہ ذیل بات پر غور کرنا چاہئے:
• اگر وہ حقیقتا مؤمن ہوتے تو الله تعالی ضرور ان کی مدد کرتا،
اس کی دليل اللہ تعالى کا یہ فرمان ہے:
'وكان حقاً علينا نصر المؤمنين 'الروم ٤٧
(ترجمہ)
اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں ۔
•  اگر وہ مؤمن ہوتے تو دنیا کی قوموں میں ان کا رتبہ سب سے اونچا ہوتا اور سب سے اعلی شان ہوتی ۔
دليل اللہ تعالى کا یہ ارشاد ہے :
'ولا تهنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين ' آل عمران ١٣٩
دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو ۔
•  اگر وہ مؤمن ہوتے ، تو اللہ تعالی ان پر کسی کا غلبہ و اقتدار نہ ہونے دیتا۔ 
دليل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:
'ولن يجعل الله للكافرين
على المؤمنين سبيلا ' النساء ١٤١
(ترجمہ)
"اللہ نے کافروں کے لئے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔"
• اور اگر وہ مومن ہوتے تو اللہ تعالی انہیں  اس  حقیر حالت میں نہ چھوڑ رکھتا ۔
اللہ تعالى کے  اس فرمان کی دلیل سے :
'وما كان الله ليذر المؤمنين على ما أنتم عليه ' آل عمران ١٧٩
(ترجمہ)
اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو.
• اور اگر وہ مومن ہوتے تو اللہ تعالی ہر جگہ ان کے ساتھ ہوتا، دليل الله تعالى کا یہ قول ہے:
'وأن الله مع المؤمنين ' الأنفال ١٩
(ترجمہ)
اللہ مومنوں کے ساتھ ہے ۔
• لیکن وہ مسلمون کے مرحلہ سے آگے نہ بڑھ سکے ، مومنین کے مرحلہ کی ترقی نہ کرسکے.
  اللہ تعالى نے فرمایا:
'وما كان أكثرهم مؤمنين'
مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں
• تو وہ مومن ہیں کون؟
قرآن كريم کا جواب ہے کہ وہ وہ ہیں جو: (آیت)
'التائبون العابدون الحامدون السائحون الراكعون الساجدون الآمرون بالمعروف والناهون عن المنكر والحافظون لحدود الله
وبشّّر المؤمنين ' التوبه ١١٢
(ترجمہ)
اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے 108 ، اس کی بندگی بجا لانے والے ، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے 109 ، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے ، نیکی کا حکم دینے والے ، بدی سے روکنے والے ، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے 110 ﴿ اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں﴾ اور اے نبی ان مومنوں کو خوشخبری دے دو ۔
• الله تعالى نے مومنین کی نصرت وغلبہ اور اقتدار و بالا دستی اور ترقی کو مومن ہونے سے مربوط کیا ہے مسلمان ہونے سے نہیں!
------


اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ. فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ) تو ہم نے اس میں جو بھی مومنین میں سے تھے انہیں نکال لیا تو ہمیں اس میں ایک گھرانے کے علاوہ مسلمان کوئی نہ ملا۔ [الذاريات:35-36] یہاں پر مومن اور مسلم میں کیا فرق ہے اور کس کا درجہ بلند ہے.

اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام نے عقائد کی کتب میں بہت تفصیلات ذکر کی ہیں، ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ لفظ الگ الگ ذکر ہوں تو پھر ہر ایک کا مطلب پورا دین اسلام  ہوتا ہے، تو اس وقت لفظ اسلام ہو یا ایمان ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
اور اگر یہ دونوں الفاظ ایک ہی سیاق  اور جملے میں مذکور ہوں تو پھر ایمان سے  باطنی یا روحانی اعمال مراد لیے جاتے ہیں، جیسے کہ قلبی عبادات، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، اللہ تعالی سے محبت، خوف، امید، اور اللہ تعالی کے لیے اخلاص وغیرہ۔
اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں   کہ  بسا اوقات جن کے ساتھ قلبی ایمان کبھی ہوتا ہے، اور کبھی نہیں ہوتا،تو  دوسری صورت میں  ان ظاہری اعمال کو کرنے والا یا تو منافق ہوتا ہے یا پھر منافق تو نہیں ہوتا لیکن اس کا ایمان کمزور  ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لفظ "ایمان" کو بسا اوقات اسلام یا عمل صالح کے ساتھ ملا کر ذکر نہیں کیا جاتا  بلکہ وہ بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے، اور بسا اوقات لفظ "ایمان" کو اسلام کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جاتا ہے جیسے کہ حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ: (اسلام کیا ہے؟۔۔۔ اور ایمان کیا ہے؟۔۔۔) اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ)
ترجمہ: بیشک مسلمان مرد   اور مسلمان خواتین، اور مومن مرد اور مومن خواتین [الأحزاب:35]
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام  لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]
نیز فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]

تو ان آیات میں جب ایمان کو اسلام کے ساتھ ذکر فرمایا  تو
اسلام سے مراد ظاہری اعمال لیے، مثلاً: شہادتین کا اقرار، نماز، زکاۃ، روزہ، حج وغیرہ
اور ایمان سے مراد قلبی امور لیے ، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان۔
تاہم جب ایمان کا لفظ اکیلا ذکر کیا جائے تو اس میں اسلام اور اعمال صالحہ سب شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایمان کے درجات بیان کرنے والی حدیث میں فرمان ہے: (ایمان کے ستر سے زائد درجات ہیں، ان میں سب سے اعلی درجہ لا الہ الا اللہ کہنا، اور سب سے چھوٹا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے)
تو یہی طریقہ کار دیگر تمام احادیث کے ساتھ اپنایا جائے گا جن میں نیکی کے کاموں کو ایمان کا حصہ بتلایا گیا ہے" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
"مجموع الفتاوى" (7/13-15)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب [لفظ ایمان اور اسلام] دونوں اکٹھے  ذکر ہوں تو پھر اسلام سے مراد  ظاہری اعمال مراد لیے جاتے ہیں جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات، اور اعضا سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والا مومن یا کمزور ایمان والا مومن  بھی کر سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام  لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]

اور اسی طرح منافق  شخص ہے کہ اسے ظاہری طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے۔
اور ایمان سے مراد باطنی  یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اور یہ کام صرف وہی شخص کرتا ہے جو حقیقی مومن ہو، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ
ترجمہ: حقیقی مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انہیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ [2] وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا، خرچ کرتے ہیں  [3] یہی لوگ سچے مومن ہیں، انہی کے لیے ان کے رب کے پاس بہت سے درجے اور بڑی بخشش اور با عزت رزق ہے۔ [الأنفال: 2 - 4]
تو اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہو گا، لہذا ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے" ختم شد
"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین" (4/92)
اب سوال میں مذکور آیت کا مفہوم اس توجیہ کے موافق ہے کہ لوط علیہ السلام کے گھر والوں کو ایک بار ایمان سے موصوف کیا گیا تو دوسری بار اسلام سے ۔
تو یہاں پر اسلام سے مراد ظاہری امور مراد ہیں اور ایمان سے مراد قلبی اور حقیقی ایمان مراد ہے، لہذا جب اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے تمام گھرانے والوں کا ذکر کیا تو انہیں ظاہری اعتبار سے اسلام کے ساتھ موصوف فرمایا ؛ کیونکہ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی آپ کے گھرانے میں شامل تھی اور وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی، لیکن حقیقت میں کافر تھی، اسی وجہ سے جب اللہ تعالی نے عذاب سے بچنے والے اور نجات پا جانے والے لوگوں کا ذکر فرمایا تو انہیں ایمان سے موصوف فرمایا اور کہا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لوط علیہ السلام کی بیوی باطنی طور پر منافق اور کافر تھی، تاہم اپنے خاوند کے ساتھ ظاہری طور پر مسلمان تھی، یہی وجہ ہے کہ اسے بھی قوم لوط کے ساتھ عذاب سے دوچار کیا گیا، تو یہی حال  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ موجود منافقین کا ہے کہ وہ ظاہری طور پر آپ تو صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسلمان تھے  لیکن باطن میں مومن نہیں تھے" ختم شد
"جامع المسائل" (6/221)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ مزید کہتے ہیں کہ:
"کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں ایک ہی چیزیں ہیں، اور ان آیتوں کو باہمی طور پر متعارض قرار دیا۔

حالانکہ معاملہ ایسے نہیں ہے، بلکہ یہ آیت پہلی آیت کے ساتھ موافقت رکھتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے یہ بتلایا کہ اللہ تعالی نے وہاں پر جو بھی مومن تھا اسے نکال لیا اور مسلمانوں کا وہاں ایک ہی گھر پایا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی لوط علیہ السلام کے گھرانے میں موجود تھی لیکن وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جنہیں نکال لیا گیا اور نجات پا گئے تھے، بلکہ وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے اور پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھی۔ لوط علیہ السلام کی بیوی ظاہری طور پر تو اپنے خاوند کے ساتھ تھی لیکن باطنی طور پر وہ اپنی قوم کے دین پر تھی، اور اپنے خاوند کو دھوکا دے رہی  تھی کہ اس نے اپنی قوم کو آنیوالے مہمانوں کے بارے میں مطلع کر دیا، جیسے کہ اس چیز کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا کہ:
( ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا )
ترجمہ:  [ التحريم:10]
اور جس خیانت کا ذکر اللہ تعالی نے فرمایا ہے یہ ان دونوں عورتوں کی جانب سے دینی خیانت تھی پاکدامنی سے متعلق نہیں تھی۔ بہ ہر حال مقصود یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی مومن نہیں تھی، نہ ہی وہ ان لوگوں میں شامل تھی جنہیں عذاب سے نکال کر نجات دے دی گئی، لہذا وہ اللہ تعالی کے اس فرمان : (فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ)  تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا [الذاريات:36]میں شامل نہیں ہے، اور چونکہ وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی اس لیے وہ  اللہ تعالی کے فرمان : (فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ) تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]  میں شامل ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ  قرآن کریم کسی بھی چیز کو بیان کرنے میں انتہائی باریکی اختیار کرتا ہے کہ جب لوگوں کو عذاب سے بچانے کا ذکر  کیا تو وہاں پر مومنین کا لفظ بولا،  لیکن جب وجود اور عدم وجود کی بات آئی تو وہاں مسلمین کا لفظ بولا" ختم شد
"مجموع الفتاوى " (7/472-474)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے واقعے میں فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں کوئی ایک گھر کے سوا  مسلمانوں کا کوئی گھر نہ ملا۔ [الذاريات:36]
اللہ تعالی نے یہاں پر مومنین اور مسلمین میں فرق کیا ہے؛ کیونکہ اس بستی میں ظاہری طور پر یہی ایک گھرانہ تھا جو اسلامی تھا[مکمل ایمانی نہیں تھا]؛ کیونکہ اس گھرانے میں لوط علیہ السلام کی بیوی بھی تھی جس نے لوط علیہ السلام کو ظاہری اسلام دکھا کر دھوکا دیا ہوا تھا، حالانکہ وہ اندر سے کافر تھی، چنانچہ جن لوگوں کو نکالا گیا اور نجات دی گئی تو وہ لوگ ہی حقیقی مومن تھے کہ جن کے دلوں میں حقیقی طور پر ایمان داخل ہو چکا تھا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (1/47-4


لغت میں ”ایمان“ کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور ”اسلام“ اطاعت وفرماں برداری کا؛ لیکن شرعاً ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں، یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعاً اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار نہ کرے، اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو، خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے مسلم اور مومن کے درمیان فرق ضرور ہے؛ لیکن شرعاً دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ 

No comments:

Post a Comment