Sunday 25 August 2019

ہمیں کیسے معلوم ہو کہ اللہ ہم سے راضی ہے؟

ہمیں کیسے معلوم ہو کہ اللہ ہم سے راضی ہے؟

ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اور اپنے کو پکا و سچا مؤمن کہنے والے ایسے بھی ہیں کہ جو زندگی کے دو راہے پر لوگوں کی خوشی کو اپنے معبود کی خوشی و رضا پر ترجیح دیدیتے ہیں انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ان کا یہ کام ایمان کے ضعیف ہونے اور غضب الہی کے نزدیک ہونے اور رحمت الہی سے دور ہونے کا سبب بنتا ہے۔
اللہ کے راضی ہونے کی علامات
ہر چیز کی اپنی کچھ نشانیاں اور علامتیں ہوتی ہیں جس سے وہ پہچانی جاتی ہے اور چونکہ اللہ تعالٰی نے اپنی رضا اور اپنی خوشی کو بندے پر اپنی سب سے عظیم نعمت کے طور پر یاد کیا ہے ایسی نعمت جس کا کسی دوسری چیز سے مقائسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور اکثر لوگوں کے دل میں کبھی نہ کبھی یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، پورا رمضان روزہ رکھتے ہوئے ہوگئے تو کیا خدا ہم سے راضی ہوا یا نہیں چنانچہ روایات میں اللہ کے اپنے کسی  بندے سے راضی رہنے کی کچھ علامات بیان کی گئی ہیں جن سے انسان مطمئن ہوسکتا ہے کہ اس کا پروردگار اس سے خوش ہے یا نہیں:
1۔ اللہ کی اطاعت میں لطف
ایک مرتبہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا:
’’یَا رَبِّ أَخْبِرْنِی عَنْ آیَةِ رِضَاکَ مِنْ عَبْدِکَ‘‘۔
پروردگار! مجھے ان نشانی سے آگاہ کر جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ تو اپنے بندے سے خوش ہے؟
’’فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ إِذَا رَأَیْتَنِى أُهَیِّئُ عَبدِىْ بِطَاعَتِى وَ أُصرِفُهُ عَنْ مَعْصِیَتِى فَذالک آیةُ رِضَائِىْ‘‘۔ (1)
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: جب تم یہ پاؤ کہ میں اپنے بندے کو اپنی اطاعت و بندگی کے لئے آمادہ کررہا ہوں اور اسے گناہ سے دور رکھ رہا ہوں تو یہی میرے اس سے خوش اور راضی رہنے کی نشانی ہے۔
2۔ بندے کا قضا و قدر الہی پر راضی رہنا
حدیث کی روشنی میں کسی بندے کا اپنے پروردگار کی قضا و قدر اور فیصلوں پر راضی رہنا اور اس کے کسی فیصلے کے خلاف حرف شکایت زبان پر نہ لانا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ اس بندے سے خوش ہے۔ چنانچہ  حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے:
’’عَلامَة رِضَا اللَّه سُبْحانَهُ عَنِ العَبْدِ رِضاهُ بِمَا قَضَی بِه سُبحانَه لَهُ و عَلَیه‘‘۔ (2)
اپنے بندے سے اللہ کی رضا کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ کے ہر فیصلہ پر راضی اور تسلیم رہے چاہے وہ فیصلہ اس کے فائدے میں ہو یا نقصان میں۔
3۔ مساکین کی محبت
ایک دیگر روایت میں ملتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی بارگا میں عرض کیا:
’’یَا رَبِّ أَخْبِرْنِی عَنْ آیَةِ رِضَاکَ مِنْ عَبْدِکَ‘‘ 
پروردگار! اپنے بندے سے تیرے خوش رہنے کی نشانی کیا ہے؟
’’فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ إِذَا رَأَیْتَ نَفْسَکَ تُحِبُّ الْمَسَاکِینَ وَ تُبْغِضُ الْجَبَّارِینَ فَذَلِکَ آیَةُ رِضَایَ‘‘ (3) 
اللہ تعالٰی نے ان پر وحی نازل فرمائی: اے موسٰی جب تم اپنے دل میں مساکین کی محبت اور ظالمین سے نفرت کو محسوس کرو تو سمجھ لینا کہ ہم راضی ہیں۔
اللہ کی خوشی عزیز یا بندوں کی؟
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اور اپنے کو پکا وسچا مؤمن کہنے والے ایسے بھی ہیں کہ جو زندگی کے دو راہے پر لوگوں کی خوشی کو اپنے معبود کی خوشی و رضا پر ترجیح دیدیتے ہیں انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ان کا یہ کام ایمان کے ضعیف ہونے اور غضب الہی کے نزدیک ہونے اور رحمت الہی سے دور ہونے کا سبب بنتا ہے چنانچہ بہت سی روایات میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور حدیث میں وارد ہوا ہے:
’’لَا تُسْخطُوا اللَّهَ بِرِضَا أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ وَ لَا تَقَرَّبُوا إِلَی أَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ بِتَبَاعُدٍ مِنَ اللَّهِ‘‘۔ (4)
تم کسی کو خوش کرنے کی خاطر اپنے پروردگار کے غضب کو مشتعل نہ کردینا اور اس سے دوری اختیار کرکے تم کسی کی قربت تلاش کرنے کی کوشش مت کرنا۔
اسی مضمون کی دیگر روایت خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نقل ہوئی ہے:’’مَن طَلَبَ رِضَا مَخلُوق بِسَخَطِ الخالِق سَلَّط اللَّه عَزَّوَجلَّ عَلَیه ذلِک المَخلُوق‘‘۔ (5)
جو اللہ کو ناراض و غضب ناک کرکے کسی مخلوق کی خوشی کا طبگار ہوتا ہے اللہ تعالٰی اسی مخلوق کو اس پر مسلط کردیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://saagartimes.blogspot.com/2019/08/blog-post_91.html




No comments:

Post a Comment