نام اور کام
نام سے انسان کی صرف شناخت ہی نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس سے ”ذی نام“ کے رخ، رجحان،، وجدان، ذہن، فکر، مزاج اور طبیعت کی غمازی اور عکاسی بھی ہوتی ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے ”کل اناء یترشح بما فیہ“ (جس برتن میں جو چیز ہوتی ہے اس سے وہی چیز ٹپکتی ہے) نام اور شخصیت کے مابین وہی ہم آہنگی، گہرا تعلق اور دائمی وابستگی ہے جو جسم اور روح کے درمیان پائی جاتی ہے۔ ”اگر ایک طرف نام سے ذات کی غمازی ہوتی ہے تو دوسری جانب شخصیت اور ظاہری شکل وصورت سے بھی نام کا اندازہ لگ جاتا ہے۔ (جیساکہ ہم نیچے تحریر کریں گے) اورحقیقت یہ ہے کہ جس طرح جسم کے اچھے اور برے اعمال و حرکات سے روحِ انسانی میں ”ملکیت یا بہیمیت“ پیدا ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح نام کے حسن و عمدگی سے روح میں لطافت و بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ انسانی افکار واعمال کی تعمیر ہوتی ہے اور جذبہٴ عمل کو تقویت ملتی ہے۔ اورنام کے قبح سے روح میں کثافت، انسانی اعمال میں آلودگی اور پراگندگی پیداہوتی ہے۔
نام کا اثر کام پر
حق سبحانہ وتعالیٰ نے ”عبدالعزّی“ کی کنیت ”ابولہب“ رکھی، عاقبت، انجام اور آخرت کے لحاظ سے یہ نام (کنیت) کتنی مسلّمہ حقیقت کی ترجمانی کررہا ہے!۔ ادھر رسول اللہ … نے ”ابوالحکم بن ہشام“ کی کنیت ”ابوجہل“ رکھی، تو اس کی شخصیت پہ یہ کنیت کتنی فِٹ ہوئی، اور اس کے افکار واعمال پر اس لفظ کے کتنے گہرے اور ان مٹ نقوش چھائے رہے! اور اہل علم کے علم میں یقینا یہ ہوگا کہ حق وباطل کی سب سے پہلی فیصلہ کن لڑائی ”غزوئہ بدر“ میں مشرکینِ عرب کو نہتے مسلمانوں سے جو شرمناک اور بدترین شکست ہوئی، اس کی منجملہ وجوہ کے ایک اہم اور حقیقی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی طرف سے جو سب سے پہلے مقابلہ کے لیے میدانِ کارزار میں اترے، ان میں ”ولید“ شیبہ“ اور ”عتبہ“ نامی تین آدمی تھے۔ ولید کے معنی میں کس قدر ضعف و عجز کا پہلو ہے؟ (پیدائش کے وقت بیحد ناتواں اور کمزور بچہ کو کہتے ہیں) اور ”شیبہ“ تو بڑھاپے کی اس حد کو کہتے ہی ہیں جب انسان کے تمام اعضاء ڈھیلے پڑجائیں اور قویٰ معطل ہوجائیں! اور ”عتبہ“ میں جو عتاب وعذاب اور قہر وغضبِ خداوندی کا ”جہانِ معانی“ نہاں ہے، وہ ”جہاں“ میں کسی سے قابل بیان نہیں! غور کیجیے! جن ”برتنوں“ سے ضعف و کمزوری، عجز وناتوانی اور قہر عتاب ”جھلکتے“ ہوں؟ کیا ان سے قوت وجوانمردی، دلیری وبہادری اور فتح ونصرت ”چھلک“ سکتے ہیں؟؟
ادھر مسلمانوں کی طرف سے جو حضرات ان کے مقابلہ کے لیے آئے تھے ان میں ایک نام ”علی“ کا تھا،جو سراپا ”علو“ سے عبارت تھا، دوسرا نام ”عبیدہ“ کا تھا، جن سے ”عبدیت وبندگی“ ٹپکتی تھی (اللہ کے نزدیک یہ سب سے پیاری صفت ہے، اسی لیے جونام ”عبد“ سے شروع ہو وہ اللہ کے یہاں بہت پسندیدہ شمار ہوتا ہے) اور تیسرا نام ”حمزہ“ کا تھا جو اپنے ”جلو“ میں شیر کی صلابت رکھے ہوئے تھا، تو علی کے ”علو“، عبیدہ کی ”عبودیت“ اور حمزہ کی ”قوت صلابت“ نے ان کی شخصیتوں کو ایسا متأثر کیا اور نام کی عمدگی سے ان کے کام پہ ایسا اثر مرتب ہوا کہ بے سروسامانی کے عالم میں ایک مسلح اور ہتھیار بند فوج کو صرف چند گھنٹوں میں مولی گاجر کی طرح صاف کردیا۔
تاریخِ اسلام کے اس تابناک واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ ”نام“ سے ”کام“ کتنا متأثر ہوتاہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، انسان، حیوان، شہر، آبادی اور مکان غرض کہ ہر چیز میں اچھے ناموں کو پسند فرماتے تھے اور برے ناموں کو سن کر آپ کے دل پر تکدر کی چوٹ لگتی تھی، اور ان تمام چیزوں کے پیچھے یہی غرض مقصود ہوتی تھی کہ اچھے نام پر اچھے نتائج مرتب ہوں گے، اور برے ناموں پر بُرے۔ چنانچہ روایتوں میں آ یا ہے کہ:
(۱) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اپنی دودھاری اونٹنی کے دودھ نکالنے کے لیے چند لوگوں کو بلایا، ایک ”مرّہ“ (کرواہٹ) نامی آدمی اس کے لیے کھڑاہوا، لیکن چوں کہ اس کے نام سے کسی ’شیریں“ نتیجہ کا حصول مشکل تھا، اس لیے آپ نے نام سے نتیجہ کااستنباط فرماتے ہوئے اس کو بٹھادیا، دوسرا شخص کھڑاہوا،اس کا نام بھی حرب (جنگ وجدال) تھا، اس نام سے بھی کسی مثبت نتیجہ کی امید فضول تھی، اس لیے آپ نے اس کو بھی کہا بیٹھ جاؤ۔ تیسرا شخص کھڑاہوا،جس کا نام تھا ’یعیش“ (زندگی) چوں کہ اس نام سے زندگی اورحیات جیسے امید افزاء معانی سمجھ میں آرہے تھے، اس لیے آپ نے اس کو دوہنے کی اجازت دی۔
(۲) ایک غزوہ سے واپسی پر آپ دو پہاڑوں کے درمیان سے گذررہے تھے۔ آپ نے دونوں پہاڑوں کے نام دریافت کیے پتہ چلا کہ ایک کا نام ”فاضح“ اور دوسرے کا نام ”مخز“ (ذلیل و رسوا کرنے والا) ہے۔ چوں کہ ان دونوں ہم معنی ناموں سے نامسعود نتیجہ کی عکاسی ہورہی تھی، اس لیے آپ صلى الله عليه وسلم نے وہ راستہ فوراً بدل دیا۔
(۳) صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں سہیل بن عمرو آئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے محض ان کے نام سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ ”ان شاء اللہ مشرکین مکہ کے ساتھ جاری ہماری مصالحتی کوشش بھی ”سہل“ رہے گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا“(زاد المعاد۲/۴)
نام سے کام اور انجام کس قدر متأثر ہوتا ہے؟ اس کی مزید وضاحت کے لیے موطا امام مالک رحمة الله عليه کی یہ روایت انتہائی ”چشم کشا“ اور ”بصیرت افروز“ ہے ۔ حضرت عمر رضى الله تعالى عنه نے ایک شخص کا نام پوچھا، اس نے کہا: جمرة (چنگاری) باپ کا نام پوچھا، تو کہا: شہاب (بھڑکتی ہوئی آگ) کہا کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو؟ تو کہا ”حُرقة“ (جلن ، سوزش) سے، کہا گھر کہاں ہے؟ تو کہا: حرة النار (آتشیں محلہ) پھر پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے؟ کہا: ذات لطی (آگ سے دہکتی ہوئی جگہ) جب اس شخص کے تمام ہی ناموں میں ”آتشیں مادہ“ ہی کارفرما تھا، تو حضرت عمر رضى الله تعالى عنه نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا: کہ تمہارا گھر ”آتش زنی“ سے نہیں بچ سکتا ہے“۔ چنانچہ نام کا اثر ظاہر ہوا،اور وہ شخص جب گھر لوٹا تو دیکھا کہ واقعتا اس کا گھر جل چکا تھا۔
یہ واضح ہوگیا کہ نام سے ذی نام کی شناخت ہوتی ہے، لیکن دونوں کے درمیان اتنا مستحکم رشتہ ہے کہ ذات وشخصیت سے بھی نام کا پتہ چل جاتا ہے۔ چنانچہ ایاس بن معاویہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ محض شکل وصورت اور عادات واطوار دیکھ کر یہ بتادیتے تھے کہ اس شخص کا نام کیا ہے؟ اور حیرت یہ کہ اس میں کبھی غلطی بھی نہیں ہوتی تھی۔
الغرض شخصیت سازی، اور اخلاق واعمال کی تعمیر میں ”نام“ اہم اور بنیادی رول ادا کرتا ہے اس لیے معلم اعظم صلى الله عليه وسلم اورامت کو اسرار حیات سمجھانے والے نبی صلى الله عليه وسلم نے اچھے اور پسندیدہ نام رکھنے کی تعلیم فرمائی اور ہمیں اس طرح ”راز حیات“ سمجھا گئے ”تم قیامت میں اپنے اور باپوں کے نام سے پکارے جاؤگے اس لیے تم اپنا نام اچھا رکھا کرو“ یعنی نگاہِ نبوت میں یہ طبعی حقیقت جلوہ گر تھی کہ نام کا اثر کام پر ضروری ہے، تو جب نام اچھا ہوگا توامتی کے اعمال بھی اچھے ہوں گے اور جب اعمال اور کام سنور جائیں گے تو روزِ قیامت اچھے اوصاف والقاب سے انہیں پکارا جائے گا۔ تحسین اسماء کے سلسلہ میں آپ صلى الله عليه وسلم کی یہ تعلیم محض سرسری نوعیت کی نہیں تھی، اور نہ ہی صرف وعظ وتلقین کی رسمی حدوں تک محدود تھی! بلکہ آپ نے امت کو اپنے متعدد عملی نمونے بھی دئیے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے بہتیرے صحابہ و صحابیات کے نامناسب نام از خود بدلے ہیں۔ مثلاً حضرت عاصیہ کا نام بدل کر آپ نے جمیلہ رکھا، اور حضرت برّہ کا نام بدل کر جویریہ رکھ، حضر اصرم کا نام بدل کر زرعہ، ابوالحکم کا نام بدلکر ابوشریح رکھا۔ اسی طرح آپ نے حضرت عاص، عزیز، عقلہ، شیطان، غراب، حکم، حباب اور شہاب وغیرہ کے نام بھی تبدیل فرمائے تھے۔ (جاری)
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے
No comments:
Post a Comment