Tuesday 27 August 2019

انگوٹھی کا محل استعمال

انگوٹھی کا محل استعمال 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نهاني رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أن أتختَّم في إصبعي هذه أو هذه . قال: فأومأ إلى الوُسطى والتي تليها . .
عن علي بن أبي طالب صحيح مسلم: 2095

(حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم 
صلی اللہ علیہ وسلم
نے مجھے اس سے منع فرمایا کہ میں اپنی اس انگلی میں یا اس انگلی میں انگوٹھی پہنوں ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے (یہ کہہ کر) درمیانی انگلی اور اس قریب والی انگلی یعنی شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کیا ۔")  (مسلم)
درمیانی اور شہادت کی انگلی کے بارے میں تو اس حدیث سے واضح ہوا اور انگوٹھے نیز چھوٹی انگلی کے قریب والی انگلی میں انگوٹھی پہننا نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے ثابت ہے اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین رحمہم اللہ ہی سے منقول ہے اس سے معلوم ہوا کہ انگوٹھی کو چھوٹی انگلی ہی میں پہننا مستحب ہے۔ چنانچہ شوافع اور حنیفہ کا رجحان اسی طرف ہے تاہم یہ بات مردوں کے حق میں ہے، جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو ان کے قریب کے لئے سب انگلیوں میں پہننا جائز ہے۔ امام نووی نے کہا ہے کہ مردوں کو درمیانی اور شہادت کی انگلی میں انگوٹھی پہننا مکروہ تنزیہی ہے۔
امام بخاری اور ترمذی کے یہاں اصح مافی الباب دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا ہے
شوافع کا مختار بھی یہی ہے
حنفیہ میں ملا علی قاری کا قول بھی یہی ہے ۔۔۔۔۔
مالکیہ اور احناف کے یہاں بائیں ہاتھ میں افضل ہے۔۔۔۔
حنفیہ میں فقیہ ابو اللیث اور علامہ شامی دائیں اور بائیں دنوں کو مساوی قرار دیتے ہیں
حافظ کی تطبیق یہ ہے کہ مہر لگانے کی ضرورت کے وقت بائیں ہاتھ میں پہنے۔
لیکن زینت کے خاطر دائیں ہاتھ میں پہنے۔ کیونکہ استنجاء وغیرہ کے تلوث سے اس میں حفاظت ہے۔علامہ مناوی شارح جامع الصغیر کی ترجیح بھی یہی ہے۔ تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں عمدة القاری 37/22۔ فتح الباری 237/10
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
---------------------
سوال: انگوٹھی پہننا کون سی سنت ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی میں کون سا پتھر تھا؟
کیا ہیرے کی انگوٹھی پہننا صحیح ہے؟
دو یا تین یا زیادہ انگوٹھیاں پہن سکتے ہیں؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
(1)  انگوٹھی پہننا جائز ہے، سنت یا مستحب نہیں، بلکہ نہ پہننا افضل ہے۔ قال في الدر المختار: وترکُ التختم لغیر سلطان والقاضي أفضل قال الشامي ... قول المصنف أفضل کالہدایة وغیرہا یفید الجواز (الشامي ط زکریا: 9/520)
(2)  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی میں ایک قیمتی پتھر تھا جو حبش سے لایا گیا تھا۔ عن أنس بن مالک قال کان خاتم النّبي صلی اللّہ علیہ وسلم من ورق وکان فصّہ حبشیًا (أي حجرًا منسوبًا إلی الحبش لأنہ معدنہ) والحدیث رواہ الشیخان ایضًا عنہ. بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کی انگوٹھی میں عقیق کا نگینہ تھا، بعض لوگوں نے کہا کہ مہرہ تھا، جس میں سفیدی اور سیاہی تھی، لیکن یہ دونوں اقوال ضعیف ہیں۔ (ملخصاً جمع الوسائل لملا علی القاری : 169)
(3)  انگوٹھی کا حلقہ تو صرف چاندی ہی کا ہونا چاہیے، چاندی کے علاوہ سے درست نہیں، البتہ نگینے میں چاندی کے علاوہ کوئی بھی قیمتی پتھر عقیق یاقوت اور ہیرے وغیرہ کا لگانا درست ہے قال في الدر المختار: والعبرة بالحلقة من الفضة لا بالفص فیجوز من حجر و عقیق و یاقوت وغیرہا . (الدر المختار مع الشامي، ط زکریا: ج9 ص519)
(4)  سونے اور چاندی کا استعمال اصلاً مردوں کے لیے ناجائز ہے، صرف انگوٹھی کی حد تک اجازت ہے، وہ بھی ضروری ہے کہ چاندی کی ہو اور ایک مثقال (چار گرام 374 ملی گرام) سے کم وزن کی ہو ولا یتختم إلا بالفضة . ولا تتمہ مثقالاً (الحدیث) (الشامي: ج9 ص520) لہٰذا اصل ممانعتِ شرعیہ کو دیکھتے ہوئے ایک سے زائد انگوٹھی کے استعمال کی شرعاً اجازت معلوم نہیں ہوتی۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
------------------------------------------------------
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی

بَابُ مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کے بیان میں
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : كَانَ خَاتَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ ، وَكَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشی تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ ثُمَامَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مُحَمَّدٌ سَطْرٌ ، وَرَسُولٌ سَطْرٌ، وَاَللَّهُ سَطْرٌ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک کا نقش مبارک اس طرح تھا کہ ایک سطر میں ”محمد“، دوسری سطر میں ”رسول“ ،اورتیسری سطر میں لفظِ ”اللہ“ تھا۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ أَبُو عَمْرٍو قَالَ : حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى كِسْرَى وَقَيْصَرَ وَالنَّجَاشِيِّ ، فَقِيلَ لَهُ : إِنَّهُمْ لاَ يَقْبَلُونَ كِتَابًا إِلَّا بِخَاتَمٍ فَصَاغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا حَلْقَتُهُ فِضَّةٌ ، وَنُقِشَ فِيهِ : مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ.
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہ کسریٰ، قیصر اور نجاشی کے پاس تبلیغی خطوط لکھنے کا ارادہ فرمایاتو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: وہ لوگ مہر کے بغیر خطوط قبول نہیں کرتے۔ چنانچہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی بنوائی جس کاحلقہ چاندی کا تھا اور اس میں ”محمدرسول اللہ“ کے الفاظ منقش تھے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ ، عَنْ هَمَّامٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ نَزَعَ خَاتَمَهُ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاءمیں داخل ہوتےتواپنی انگوٹھی مبارک اتار دیتے۔
زبدۃ:
1: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زندگی میں سونے کی انگوٹھی بھی استعمال فرمائی ہے مگر جب مردوں کے لیے سونے کے زیورکی حرمت نازل ہوئی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھینک دیا۔ اس کے بعد حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی مگر بعدمیں اس کو بھی اتار دیا۔ البتہ روایات سے اتارنے کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔
پھر سنہ چھ ہجری میں معاہدہ حدیبیہ کے بعد آپ نے مختلف سر براہانِ مملکت کے نام تبلیغی دعوت نامے بھیجنےکا ارادہ فرمایاتو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیاکہ حضرت یہ لوگ بغیر مہر کے خطوط قبول نہیں کرتے تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایسی انگوٹھی بنانے کاحکم دیاجو مہر لگانے کے کام بھی آسکے۔ چنانچہ یہ کام یعلیٰ بن امیہ کے ذمہ لگایا گیاتو انہوں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی بھی بنائی، اس میں نگینہ بھی لگایااور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس میں ”محمد رسول اللہ“کے الفاظ بھی کندہ کیے۔
2: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نگینہ ایک روایت کے مطابق حبشی اور دوسری کے مطابق چاندی کا تھا۔ اس میں کوئی اختلاف والی بات نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ ہو تو چاندی کامگر اس کو بنانے والا حبشی ہو یا اس کو حبشی طریقہ پر بنایا گیا ہو۔ زیادہ بہتر صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ مختلف اوقات میں مختلف انگوٹھیاں پہننا ثابت ہے۔ اس لیے ہر کسی نےاپنے مشاہدے کے مطابق نقل کردیا۔
3: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک وصال کے بعد خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہی۔ ان کے وصال کے بعدخلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہی۔ ان کے وصال کے بعد خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس چھ سال تک رہی۔ پھر ایک دن بئراریس(یہ ایک کنویں کا نام ہے) پہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت معیقیب رضی اللہ عنہ تشریف فرماتھے۔ آپ دونوں میں سے کوئی ایک انگوٹھی مبارک دوسرے کو پکڑا رہا تھا کہ انگوٹھی کنویں میں گرگئی۔ پھر باوجود بہت زیادہ تلاش کے نہ مل سکی۔ کہتے ہیں کہ اس انگوٹھی مبارک کے گم ہونے کے ساتھ خیر وبرکات میں بہت فرق آگیا اور اس امت میں نہ ختم ہونے والے فتنوں کا آغاز ہوگیا حتیٰ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود بھی شہید ہوگئے۔
4: مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی تو مطلقاً حرام ہے، البتہ چاندی کی انگوٹھی اس شرط کے ساتھ جائز ہےکہ وہ چارماشہ سے زائدنہ ہو، البتہ نگینہ کی اجازت ہے کہ وہ کسی بھی دھات یا پتھر کا ہو اگرچہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو۔ اس میں بھی قاضی ،مفتی وغیرہ کے لیے جن کو مہر وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہےان کے لیے سنت ہے، البتہ زینت کی نیت سے پہننا مناسب نہیں اور غیر اولیٰ ہے۔ عورت کے لیے سونے اور چاندی کی انگوٹھی تو جائز ہے، اس کے علاوہ پیتل، لوہا وغیرہ کسی دوسری دھات کی جائز نہیں جبکہ انگوٹھی کے علاوہ کے زیور کسی بھی دھات کے عورت کے لیے جائز ہیں۔
5: انگوٹھی دونوں ہاتھوں میں پہننا جائز ہے، کسی ایک ہاتھ کی تخصیص نہیں کیونکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ کی چھنگلی اور کبھی بائیں ہاتھ کی چھنگلی (چھوٹی انگلی) میں پہنتےتھے۔
6: ہر ایسی انگوٹھی جس پر اللہ جلّ جلالُہ یا کوئی اور متبرک نام یا لفظ درج ہو تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ بیت الخلاء جاتے وقت اس کو اتاردینا چاہیےجیسا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک تھا۔
7: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک کے نقش مبارک کے بارے میں علماء نے لکھا ہےکہ اس کی صورت یہ تھی :
اللہ
رسول
محمد
یعنی اللہ پاک کا نام اوپر تھا اور مہر گول تھی اور نیچے سے پڑھی جاتی تھی۔ مگر محققین کی رائے یہ ہے کہ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ ظاہر الفاظ سے
محمد
رسول
اللہ
معلوم ہوتا ہے یعنی اللہ پاک کا نام نیچے تھا اور اوپر سے نیچے پڑھی جاتی تھی۔
7: اب آخر میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مبارک والے نامے ذکر کیے جاتے ہیں جو کہ آپ نے مختلف اوقات میں مختلف سر براہانِ مملکت کے نام بھیجے تھے ۔
(۱): کسری شاہِ فارس کے نام حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ والا نامہ بھیجا۔ کسریٰ بدبخت نے والا نامہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیاتو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعافرمائی کہ حق تعالیٰ شانہ اس کے ملک کے ٹکڑے ٹکڑےکردے! چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس کے بیٹے شیرویہ نے اسے بری طرح قتل کیا۔اس کسری کا نام پرویز تھا اوریہ نوشیروان کا پوتا تھا۔ ”کسریٰ“ فارس کے ہر بادشاہ کا لقب ہوتا تھا۔ والا نامہ یہ ہے:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلٰى كِسْرٰى عَظِيْمِ فَارِسَ سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَآمَنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَشَهِدَ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَدْعُوكَ بِدُعَاءِ اللّهِ فَإِنِّي أَنَا رَسُولُ اللّهِ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً لِأُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِيْنَ فَإِنْ تُسْلِمْ تَسْلَمْ وَإِنْ أَبَيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْمَجُوسِ.
ترجمہ : بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کی طرف سے کسریٰ کے نام جو فارس کاسردار ہے۔ سلامتی اس شخص کے لیے ہے جو ہدایت اختیار کرےاور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تجھ کو اللہ کے کلمہ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ اس لیے کہ میں اللہ کا وہ رسول ہوں جو تمام جہان کی طرف اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ ان لوگوں کو ڈراؤں جن کے دل زندہ ہیں (یعنی ان میں کچھ عقل ہے) تاکہ اللہ کی حجت کافروں پر پوری ہوجائے (اور قیامت کے دن ان کو یہ عذر نہ ہو کہ ہم کو علم نہ تھا) تو اسلام قبول کر لے تاکہ تو خود بھی سلامت رہے ورنہ تیرے متبعین مجوسیوں (آگ پرستوں) کا وبال بھی تجھ پر ہوگا (کیونکہ وہ تیرے اقتدارمیں گمراہ ہورہے ہیں)
(۲): قیصر بادشاہِ روم کے نام حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بھیجا۔ قیصر کا نام ہرقل تھا۔یہ شخص اسلام تو نہیں لایا مگر اس نے نامہ مبارک کی بڑی عزت و توقیر کی۔ جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کسریٰ نے تو ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرلیے مگر قیصر نے اپنے ملک کی حفاظت کرلی۔ والا نامہ یہ ہے:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهٖ إِلٰى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلٰى مَنْ اتَّبَعَ الْهُدٰى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ {وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ}
ترجمہ: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، ہرقل کی طرف جو کہ روم کا سردار ہے۔ سلامتی اس شخص کے لیے جوہدایت اختیار کرے۔ حمدوصلوٰۃ کے بعدمیں تجھ کو اسلام کےکلمہ (توحید) کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ تو اسلام لے آ تاکہ توسلامتی سے رہے اور حق تعالیٰ شانہ تجھ کودہرااجر عطا فرمائیں اور اگر تو اعراض کرے گا تو تیرے ماتحت زراعت پیشہ لوگوں کا وبال بھی تیری گردن پر ہوگا۔
”اے اہل کتاب! آؤ ایسے کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو رب کادرجہ نہ دے۔ اگر اس کے بعد اہلِ کتاب روگردانی کریں تو مسلمانو! تم ان سے کہہ دو کہ تم اس بات کے گواہ رہو کہ ہم تو مسلمان ہیں۔“
(۳): نجاشی بادشاہِ حبشہ کے نام حضرت عمرو بن امیہ ضمری کے ہاتھ بھیجا۔ شاہِ حبشہ کا نام ”اصحمہ“ تھا۔ یہ مسلمان ہوگیاتھااور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں فوت ہوا تھا۔ اس کا جنازہ بھی آپ نے ہی پڑھایا تھا۔ اس کے نام جو والا نامہ بھیجا تھا وہ یہ ہے:
بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول اللہ إلى النجاشى ملك الحبشة: سلام عليك إنى أحمد إليك الله، الله الذي لا إله إلا هو الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن، وأشهد أن عيسى بن مريم روح الله وكلمته ألقاها إلى مريم البتول الطيبة الحصينة، فحملت بعيسى فخلقه الله من روحه كما خلق آدم بيده، وإنى أدعوك وجنودك إلى الله عز وجل، وقد بلغت ونصحت فاقبلوا نصحى، والسلام على من اتبع الهدى․
ترجمہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کےنام۔ تم پر سلامتی ہو، میں اللہ کی تعریف تمہارے پاس پہنچاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ (ایسا) بادشاہ (ہے جو) عیوب سے پاک ہے، ہر قسم کے نقص سے محفوظ ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے اور میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کے کلمہ تھے جسے اللہ تعالیٰ نے پاک صاف کنواری حضرت مریم کے پاس بھیجا، پس وہ حاملہ ہوگئیں، حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص روح سے پیدا کیا اور اس میں جان ڈال دی۔ میں تمہیں اسی وحدہ لاشریک کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اس کی اطاعت پر تعاون کی طرف بلاتا ہوں او راس بات کی طرف بلاتا ہوں کہ تم میرا اتباع کرو اور جو شریعت میں لایا ہوں اس پر ایمان لاؤ، بلا شبہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اللہ کی طرف تم کو اور تمہارے لشکر کو بلاتا ہوں، میں نے حق بات تم تک پہنچا دی ہے اور تمہیں نصیحت بھی کردی ہے، تم میری نصیحت قبول کرو اور سلامتی اسی شخص پر ہے جو ہدایت کا اتباع کرے۔
8: بعض مشہور مسلمان شخصیات کی انگوٹھیوں پر بعض الفاظ کندہ ہونا بھی تاریخی کتب میں مذکور ہے مگر روایات اس قدر پختہ اور صحیح نہیں کہ ان پر احادیث صحیحہ کی طرح یقین کیا جاسکے مگر انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام کی انگوٹھی پر ”لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ“ حضرت موسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی انگوٹھی پر ”لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ“ حضرت سلیمان علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی انگوٹھی پر ”اَنَا اللہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدِیْ وَ رَسُوْلِیْ“ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر ”کَفیٰ بِالْمَوْتِ وَاعِظًا“ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر ”لِلہِ الْمُلْکُ“ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر ”اَلْحَمْدُ لِلہِ“ حضرت مسروق تابعی علیہ الرحمۃ کی انگوٹھی پر ”بِسْمِ اللہِ“ حضرت امام نخعی علیہ الرحمۃ کی انگوٹھی پر ”اَلثِّقَۃُ لِلہِ“ اور حضرت امام باقر علیہ الرحمۃ کی انگوٹھی پر ”اَلْعِزَّۃُ لِلہِ“ کے الفاظ کندہ تھے۔
(امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال: فصل فی خاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جزء7 ص41)

http://saagartimes.blogspot.com/2019/08/blog-post_40.html

No comments:

Post a Comment