Thursday 15 August 2019

قربانی کے ایام میں قربانی نہیں کرسکا تو کیا کرے؟

قربانی کے ایام میں قربانی نہیں کرسکا تو کیا کرے؟

مسئلہ (۱۳۷) : کسی شخص پر قربانی واجب تھی، لیکن قربانی کے تین دن گذر گئے، اور اس نے قربانی نہیں کی، تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے، اور اگر قربانی کا جانور خرید لیا، اور کسی وجہ سے قربانی نہ کرسکا، تو زندہ جانور صدقہ کردے، اور اس کا گوشت خود نہ کھائے، کیوں کہ اب واجب، قربانی سے تصدق کی طرف منتقل ہوچکا ہے ۔
(المسائل المہمۃ ج 4 ص 167)
--------

ایام قربانی گذر جانے کے بعد بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت کا صدقہ

سوال ]۹۸۸۳[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: قربانی کے ایام گذر جانے کے بعد قربانی کے جانور کی قیمت کا صدقہ کردینا واجب ہے، لیکن اگر اس صورت میں بکرے کی قیمت کا اعتبار کرکے صدقہ کیا جائے تو تقریباً دو ہزار روپئے لگتے ہیں ، اس لئے کہ بکرا مہنگا ہے اور اگر کسی بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت کا اعتبار کرکے صدقہ کیا جائے تو پانچ سو روپئے لگتے ہیں ، اب آپ وضاحت فرمائیں کہ ایام قربانی گذر جانے کے بعد ہر دو صورت میں فراغ ذمہ ہوجائے گا، یا ایک بکرے کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہوگا، یا اعتبار کسی ایک جانور کی قیمت کا ہوگا، یا کسی بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت کا صدقہ کردینا بھی کافی ہے؟
المستفتی: ضیاء الرحمن بابر پور شاہدرہ دہلی
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فقہاء نے صدقہ کرنے میں شاۃ یا قیمت شاۃ کی قیمت لگائی ہے اس لیے بڑے جانور کے ساتویں حصہ یا اس کی قیمت کافی نہ ہوگی؛ کیونکہ قربانی میں مکمل جانور مد تقرب میں ہونا لازم ہے اور ساتویں حصہ یا اس کی قیمت کے تصدق میں بقیہ حصوں کا تقرب نہ ہونے کی وجہ سے اشکال لازم ہے۔
صار قیمۃ شاۃ صالحۃ دینا فی ذمتہ یتصدق بہا متی وجدہا۔ (ہندیہ، کتاب الأضحیۃ، الباب الأول فی تفسیرہا و رکنہا وصفتہا، زکریا قدیم ۵/۲۹۳، جدید ۵/۳۳۹، بدائع الصنائع زکریا دیوبند ۴/۲۰۳، شامی کراچی ۶/۳۲۰، زکریا ۹/۴۶۳) فقط واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
فتاوی قاسمیہ
------------
اگر قربانی کے دن گذر گئے اور مالدار صاحب نصاب آدمی نے قربانی نہ کی تو اب وہ بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت بھی صدقہ کرسکتا ہے یا ایک بکرا کی ہی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے ؟

جواب # 55464
بسم الله الرحمن الرحيم
ایام قربانی گذرگئے اور مالدار صاحب نصاب شخص نے قربانی نہیں کی تو ایک متوسط درجہ کا (قربانی کے لائق) پورا جانور صدقہ کرے یا اس کی قیمت، اس صورت میں بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت کا صدقہ کرنا کافی نہ ہوگا (احسن الفتاوی ۷: ۴۸۰ مطبوعہ دارالاشاعت دیوبند) البتہ بعض اکابر کی رائے یہ ہے کہ بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت کا صدقہ کرنا بھی کافی ہے، البتہ اگر ساتویں حصہ کی قیمت ایک متوسط جانور کی قیمت سے کم ہو تو متوسط جانور کی قیمت کا صدقہ کرنا افضل ہوگا۔ الدر المنتقی (مع المجمع ۴:۱۷۱ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) میں ہے: ”والغني یتصدق بقیمتہا“ أي قیمة ما یصلح للتضحیة کما في الخلاصة أو قیمة شاة وسط کما في الزاہدي وغیرہ اھ، اسی مسئلہ میں کفایت المفتی (جدید ۸: ۲۱۲ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) میں ہے: ”قربانی کے جانور یا گائے کے ساتویں حصہ کی قیمت خیرات کرے۔ (جواب : ۲۷۴) اور فتاوی دارالعلوم دیوبند دیوبند (۱۵: ۵۱۳) میں ہے: ”وہ شخص ہرایک برس کی قربانی کے عوض قیمت قربانی کی صدقہ کرے“ اور ایک دوسرے فتوی میں ہے: اور قربانی کی قیمت میں متوسط جانور کی قیمت اور بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت دونوں داخل ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
---

قربانی ترک ہونے کی صورت میں بکری کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے یا بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت دینا؟
السوال:۔ مندرجہ زیل مسئلہ میں شریعتِ مقدسہ کا جو حکم ہو اس کو تحریر فرمایا جاوے۔ کہ ایک شخص صاحبِ نصاب ہے اور ایک سال میں اس سے کسی وجہ سے قربانی ترک ہوگئی تو اس صورت میں اس کی بکری کی قیمت خیرات کرنی چاہئے یا بڑے کے ساتویں حصہ کی قیمت کرے۔
السائل:۔
سید احمد خان
الجواب
متوسطہ درجہ کی بکری کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے۔ گائے کے ساتویں حصہ کی قیمت صدقہ کرنا کافی نہیں۔
قال فی الدر: و تصدق بقیمتھا غنی شراھا اولا لتعلقھا بذمتہ شراھا اولا فالراد بالقیمۃ قیمۃ شاۃ تجزی فیھا ۔ اھ
قال الشامی: فبیّن ان المراد (بقیمتھا) اذا لم یشترھا قیمۃ شاۃ تجزیٔ فی الاضحیۃ کما فی الخلاصۃ وغیرھا۔
وقال القہستانی: او قیمۃ شاۃ وسط۔ کما فی الزاھدی والنظم وغیرھما۔ اھ (ج؍۵،ص؍۳۱۴)
قلت وقیود الفقہ احترازیۃ فالتقیید بقیمۃ الشاۃ یقید بعدم اجزاء قیمۃ سبع البقرۃ۔ واللہ اعلم
از امداد الاحکام
-------
تیسرے دن قربانی نہ کرسکا تو قیمت کا تصدق لازم

سوال ]۹۸۸۰[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : ایک شخص پر قربانی واجب ہے، اس نے یہ سوچا کہ تیسرے دن قربانی کریں گے، اتفاق سے تیسرے دن اس کا جانور گم ہو گیا اور اس کی تلاش میں تیسرے دن کا سورج غروب ہو گیا لیکن وہ ہاتھ نہ آیا تو اب یہ شخص کیا کرے؟
المستفتی: ممتاز احمد سیتاپور
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب تیسرے دن کے غروب تک اس شخص کا جانور نہ ملا جس کی بناء پر یہ شخص قربانی نہ کرسکا تو ایسی صورت میں اس پر اس جانور کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہوگا۔(مستفاد: فتاویٰ دار العلوم جدید ۱۵/۵۱۴، احسن الفتاویٰ زکریا ۷/۲۸۰)
من وجبت علیہ الأضحیۃ فلم یضح حتی مضت أیام النحر فقد وجب علیہ التصدق بقیمۃ شاۃ۔ (بدائع کتاب التضحیۃ فصل فی کیفیۃ الوجوب زکریا ۴/۲۰۳)
أن الموسر إذا اشتریٰ شاۃ للأضحیۃ فی أول یوم النحر ولم یضح حتی مضت أیام النحر ثم افتقر کان علیہ أن یتصدق بعینہا أو بقیمتہا۔ (البحر الرائق زکریا ۸/۳۱۸، کراچی ۸/۱۷۴، فتح القدیر زکریا ۹/۵۲۱، کوئٹہ ۸/۴۲۷)
وإنما ینتقل إلی الصدقۃ إذا وقع الیأس عن التضحیۃ بمضی أیامہا۔ (شامی زکریا ۹/۴۶۳، کراچی ۶/۳۲۰)
لو اشتریٰ شاۃ للأضحیۃ عن نفسہ أو عن ولدہ فلم یضح حتی مضت أیام النحر کان علیہ أن یتصدق بتلک الشاۃ أو بقیمتہا۔ (خانیۃ، جدید زکریا ۳/۲۴۳، وعلی ہامش الہندیۃ زکریا ۳/ ۳۴۶، وکذا فی الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۴۲۳۱۷، رقم: ۲۷۷۰۷) فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
از فتاوی قاسمیہ
---------
ایام قربانی کے بعد پورے جانور ہی کی قیمت کا صدقہ
اگر کسی شخص پر قربانی واجب تھی؛ لیکن اس نے ایام قربانی میں نہ تو قربانی کی اور نہ جانور خریدا تو بعد میںاس پر ایک بکرے کی قیمت کا غریبوں پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ (یعنی اب بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت کافی نہ ہوگی؛ بلکہ پورے جانور ہی کی قیمت دینی ضروری ہوگی) وقضائہا
بعد مضی وقتہا بالتصدق بعینہا اوبقیمتہا ان کان من المضحی غنیا ولم یوجب علی نفسہ شاۃ بعینہا تصدق بقیمۃ شاۃ اشتری او لم یشتر۔ (ہندیۃ ۵؍۲۹۶) ولو نذر ان یضحی ولم یسم شیئاً یقع علی الشاۃ۔ (مجمع الانہر ۴؍۱۷۰، فتح القدیر ۸؍۴۳۶، بحوالہ کتاب الفتاویٰ ۴؍۱۴۰، مسائل قربانی وعقیقہ ۳۳)
از کتاب المسائل
-------
ما في ’’ردالمحتار علی الدرالمختار‘‘: ولو ترکت التضحیۃ ومضت أیامھا تصدق بھا حیّۃ وإن لم یشتر مثلھا حتی مضت أیامھا تصدق بقیمتھا لأن الإراقۃ إنما عرفت قربۃ في زمان مخصوص۔
(۹/۳۸۸ ، الفتاوی الھندیۃ:۱/۲۹۴،کتاب الأضحیۃ، الباب الأول، بدائع الصنائع:۵/۶۸، أما کیفیۃ الوجوب)
ما في ’’المحیط البرہاني‘‘: وفي الأضاحي للزعفراني: إذا اشتری أضحیۃ فأوجبھا ثم باعھا ولم یضح ببدلھا حتی مضی أیام النحر تصدق بقیمتھا التي باع فإن لم یبعھا حتی مضت أیام النحرتصدق بہا حیۃ فإن ذبحہا وتصدق بلحمہا جاز فإن کان قیمتھا حیۃ أکثر تصدق بالفضل ولو أکل منھا شیئا غرم قیمتہ لأنہ فوت المبدل فیجب علیہ البدل ۔
(۶/۴۷۷، الفصل الرابع فیما یتعلق بالمکان والزمان)
http://saagartimes.blogspot.com/2019/08/blog-post_15.html

No comments:

Post a Comment