غریب الحدیث پر ایک نظر
لغت میں غریب کا اطلاق ان الفاظ پر کیا جاتا ہے جن میں غموض اور خفا پایا جائے۔ غریب الحدیث متنِ حدیث کے وہ پیچیدہ الفاظ ہیں جن کے معانی میں قلتِ استعمال کی وجہ سے خفا پایا جاتا ہے، اور اس کی وجہ سے یہ الفاظ مشکل الفہم ہوجاتے ہیں۔ امام نوویؒ غریب الحدیث کی تعریف کرتے ہوئے التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشيرص۸۷پر فرماتے ہیں: هو ما وقع في متن الحديث من لفظة غامضة بعيدة من الفهم لقلة استعمالها۔ (غریب الحدیث متنِ حدیث کا وہ غامض لفظ ہے جو قلتِ استعمال کی وجہ سے بعید عن الفہم ہو۔) حافظ ابن الصلاحؒ مقدّمة ابن الصلاح میں ص۲۷۲ پر اس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: هو عبارة عما وقـع في متـون الأحاديث من الألفاظ الغامضة البعيدة من الفهم لقلة استعمالها۔ (غریب الحدیث متونِ احادیث کے ان مغلق الفاظ کا نام ہے جو قلتِ استعمال کی وجہ سے بعید عن الفہم ہوں۔) امام الادباء والناقدین علامہ زمخشریؒ الفائق في غريب الحديث ص۱۲ پر اپنے بلیغ اور اچھوتے اسلوب میں فرماتے ہیں: كشف ما غرب من ألفاظه واستبهم، وبيان ما اعتاص من أغراضه واستعجم (اس فن کا موضوع حدیث کے پیچیدہ اور مبہم الفاظ کی توضیح، اور اس کے مغلق اور دشوار معانی کی تشریح ہے۔) حافظ سخاویؒ فتح المغيث بشرح ألفية الحديث ج۳ص۴۱۲ پر فرماتے ہیں: ما يخفى معناه من المتون لقلة استعماله ودورانه، بحيث يبعد فهمه، ولا يظهر إلا بالتنقير عنه من كتب اللغة (غریب الحدیث متونِ حدیث کے وہ مفردات ہیں جن کے معانی قلتِ استعمال اور قلتِ تداول کی وجہ سے مخفی ہوں، یہاں تک کہ ان کا سمجھنا مشکل ہوجائے، اور ان کے معانی لغت کی کتابوں کی چھان بین کے بعد ہی معلوم کئے جا سکیں۔)
غریب الحدیث کو علمِ حدیث کے متعلقہ علوم میں بڑی اہمیت حاصل ہے؛ کیوں کہ اس کے ذریعہ معانیِ حدیث کو سمجھا جاتا ہے، اور پھر اسی کے مطابق اس پر حکمِ شرعی مرتب ہوتا ہے، اور اسی بنیاد پر احکام کا استنباط کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام عز الدین ابن عبد السلامؒ نے اپنی کتاب قواعد الأحكام في إصلاح الأنام ج۲ص۳۳۷ پر اس فن کے سیکھنے کو واجب قرار دیا ہے۔ آپ بدعت کی پانچ اقسام ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: أَحَدُهَا: الِاشْتِغَالُ بِعِلْمِ النَّحْوِ الَّذِي يُفْهَمُ بِهِ كَلَامُ اللَّهِ وَكَلَامُ رَسُولِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وَذَلِكَ وَاجِبٌ لِأَنَّ حِفْظَ الشَّرِيعَةِ وَاجِبٌ وَلَا يَتَأَتَّى حِفْظُهَا إلَّا بِمَعْرِفَةِ ذَلِكَ، وَمَا لَا يَتِمُّ الْوَاجِبُ إلَّا بِهِ فَهُوَ وَاجِبٌ. الْمِثَالُ الثَّانِي: حِفْظُ غَرِيبِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ مِنْ اللُّغَةِ. (علمِ نحو سیکھنا جس کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کے کلام کو سمجھا جا سکے واجب ہے، کیوں کہ شریعت کی حفاظت واجب ہے اور شریعت کی حفاظت اسی علم ہی سے ممکن ہے، اور جس چیز کے حصول کے بغیر کسی واجب کو ادا نہ کیا جاسکے تو پھر اس چیز کا حصول واجب ہوجاتا ہے۔ اس کی دوسری مثال قرآن وسنت کے غریب الفاظ کو یاد کرنا ہے۔)
غریب الحدیث کے موضوع پر سب سے پہلی کتاب ابو عبیدہ معمر بن المثنیؒ ۱۱۰-۲۰۹ھ کے ذریعہ لکھی گئی۔ ابو عبیدہؒ کی یہ کتاب ایک مختصر کتابچہ کی شکل میں تھی، اور اس میں بہت سے الفاظ شامل نہیں کئے گئے تھے۔ یہ کتاب مختصر اس لیے تھی کیوں کہ اس زمانہ کے علماء اور طلبہ غریب الحدیث کے بارے میں اچھی معلومات رکھتے تھے، اور متاخرین کی طرح اُس دور میں علمِ لغت کے تئیں کم علمی نہیں پائی جاتی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر فن پر لکھی گئی سب سے پہلی کتاب مختصر ہی ہوتی ہے، بعد میں جب متعدد دماغ کسی ایک فن میں لگتے ہیں تو پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس فن کے نوک پلک درست ہوجاتے ہیں، اور وہ ایک مکمل طور پر ترقی یافتہ فن کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس کے بعد امام ابوالحسن نضر بن شمیل مازنیؒ ۲۰۳-۱۳۲ھ نے ابو عبیدہ کی بنسبت ایک بڑی کتاب تصنیف فرمائی، اگرچہ یہ کتاب بھی مختصر ہی تھی۔ اس کے بعد امام اصمعی عبد الملک بن قریبؒ کا ۱۲۲-۲۱۶ھ کا دور آیا۔ اصمعیؒ کو علمِ لغت کے کبارِ ائمہ میں گردانا جاتا ہے۔ موصوف نے اس موضوع پر ایک شاندار کتاب تصنیف کی۔ اسی طرح سے علامہ قطربؒ ۲۰۹ھ نے بھی اس موضوع پر کچھ لکھا۔ اس کے بعد امام ابو عبید قاسم بن سلامؒ ۱۵۷-۲۲۴ھ کا دور آیا۔ ابو عبیدؒ کا شمار کبارِ مجتہدین میں ہوتا ہے۔ حدیث، ادب، فقہ اور لغت میں آپ یدِ طولی رکھتے تھے۔ اس کتاب کی تصنیف بتدریج چالیس سال میں عمل میں آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب نے اکثر غریب الفاظ کا احاطہ کرلیا، اور امام ابوعبیدؒ نے اس میں احادیث وآثار، اور اس سے متعلق لطیف علمی فوائد ونکات کا کثرت سے ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد امام ابو محمد عبد اللہ بن مسلم قتیبہ دینوریؒ ۲۱۳-۲۷۶ھ کا زمانہ آیا، اور موصوف نے اپنی مشہور کتاب تصنیف فرمائی۔ اس کتاب میں ابن قتیبہؒ نے ابو عبیدؒ کے منہج کو سامنے رکھا، اور ابو عبیدؒ سے جو چیزیں چھوٹ گئی تھیں صرف انھیں کو اس میں شامل کیا گیا۔ اس طرح سے متعدد کبارِ ائمہ جیسے مبردؒ، ثعلبؒ، محمد بن القاسم انباریؒ، سلمہ بن عاصم نحویؒ، محمد بن حبیب بغدادیؒ، عبد الملک بن حبیب مالکیؒ وغیرہ بے شمار علماءِ نحو ولغت، اور ائمئہ فقہ وحدیث نے اس موضوع کو اپنی علمی کاوش کا موضوع بنایا۔ اس کے بعد امام خطابیؒ متوفی ۳۷۸ھ کا دور آیا، اور موصوف نے غریب الحدیث کے موضوع پر اپنی مشہور تصنیف رقم کی۔ اس کتاب میں خطابیؒ نے ابو عبیدؒ اور ابن قتیبہؒ کے منہج ہی کو سامنے رکھا، اور خصوصی طور پر ان کلمات کی جانب توجہ دی جو ان دونوں حضرات کی کتابوں میں موجود نہ تھے۔
ابو عبیدؒ، ابن قتیبہؒ اور خطابیؒ کی کتابوں کو اس موضوع پر امہات الکتب سمجھا جاتا ہے، اور عالمِ اسلام میں ان کتابوں پر ہمیشہ علماء کا اعتماد رہا ہے؛ لیکن ان کتابوں کی ترتیب پیچیدہ ہونے کی وجہ ان سے استفادہ آسان نہیں تھا۔ کسی لفظ کو بڑی تلاش اور کافی جستجو کے بعد ہی پانا ممکن تھا۔ اس لیے امام ابو عبید احمد بن محمد بن عبد الرحمن باشانی ہرویؒ متوفی ۴۰۱ھ نے غریب الحدیث کے موضوع پر اپنی مشہور تصنیف لکھی جس میں قرآن اور حدیث دونوں ہی کے غریب کلمات کو جمع کیا گیا، اور اس کتاب کو حروف معجم کے مطابق مرتب کیا گیا جس کی بنا پر کسی بھی لفظ کوبڑی آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد امام الادباء والمفسرین، قدوۃ اللغویین والنحویین امام ابوالقاسم جار اللہ زمخشریؒ متوفی ۵۳۸ھ کا دور آیا اور موصوف نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف الفائق في غريب الحديث رقم کی۔
اس کے بعد ابو بکر محمد بن ابی بکر مدینی اصفہانیؒ متوفی ۵۸۱ھ نے ہرویؒ کے انداز پر ان غریب القرآن اور غریب الحدیث کو جمع کیا جو ان سے چھوٹ گئی تھیں، اور اس کتاب کو ہرویؒ ہی کی ترتیب کے مطابق رکھا۔ اسی طرح سے امام ابوالفرج ابن الجوزیؒ نے ہرویؒ کے نہج پر اپنی کتاب لکھی؛ لیکن اس میں غریب القرآن کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے بعد امام ابن الاثیر مجد الدین مبارک بن محمد بن محمد شیبانیؒ کا دور آیا اور موصوف نے اپنی عظیم الشان کتاب النهاية في غريب الحديث والأثرتصنیف کی۔ اس ڈکشنری کو حروف معجم کے انداز پرمرتب کیا گیا۔ اس کتاب کو آج غریب الحدیث کے موضوع پر سب سے اہم مرجع مانا جاتا ہے۔
اس کے بعد علامہ محمد طاہر پٹنیؒ نے اپنی انتہائی عظیم الشان معجم موسوم بمجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار تصنیف فرمائی۔ یہ اس موضوع پر جامع ترین تصنیف گردانی جاتی ہے۔ مؤرخ الہند، علامہ عبد الحیی حسنیؒ کتاب اور صاحبِ کتاب دونوں کے بارے میں نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر ج۴ص۴۱۰ پر فرماتے ہیں: وله مصنفات جليلة ممتعة أشهرها وأحسنها كتابه مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار في مجلدين كبيرين، جمع فيه كل غريب الحديث وما ألف فيه، فجاء كالشرح للصحاح الستة، وهو كتاب متفق على قبوله بين أهل العلم منذ ظهر في الوجود، وله منة عظيمة بذلك العمل على أهل العلم۔ (موصوف متعدد عظیم الشان اور نافع کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں سب سے زیادہ مشہور اور عمدہ آپ کی کتاب مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار ہے جو دو ضخیم جلدوں میں ہے۔ مصنف نے غریب الحدیث کی تمام کتابوں کو اس میں جمع کردیا ہے۔ گویا کہ یہ کتاب صحاحِ ستہ کی شرح ہے اور جب سے یہ کتاب منصئہ شہود پر آئی ہے، اس وقت سے آج تک اس کی مقبولیت پر تمام اہلِ علم کا اتفاق رہا ہے۔ اس کارنامہ کے ذریعہ موصوف نے اہلِ علم پر احسانِ عظیم کیا ہے۔)
یہ کتاب مطبوع اور متداول ہے اور علمِ حدیث سے اشتغال رکھنے والے حضرات کے لیے ایک ناگزیر اور نہایت مفید تصنیف ہے۔ اس کتاب کے ایک نسخہ پر محدث الہند، علامہ حبیب الرحمن اعظمیؒ کی تحقیقات اور قیمتی حواشی بھی ہیں جو بیروت سے طبع بھی ہوچکا ہے.
محمد انوار خان قاسمی بستوی
No comments:
Post a Comment