ظہارِ خیال، اور اختلاف، دو الگ الگ شئ ہے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی نماز جنازہ پڑھانے کا ارادہ کیا، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سامنےآگئے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ! یہ تو منافق ہے، حضرت فاروق اعظمؓ اپنی راۓ کا اظہار کرتے رہے ، مگر جب اللہ کے رسولﷺ نے نماز شروع کردی، اس وقت اپنی راۓ کو پس پشت ڈال کر حضرت فاروق اعظمؓ بھی نماز میں شامل ہوگئے،
اللہ کے رسولﷺ دنیا سےتشریف لےجاتے ہیں،
مسئلہ چھڑتا ہے مسند و خلافت کا،
حضرت فاروق اعظمؓ آگے بڑھ کر سیدنا صدیق اکبرؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلیتےہیں، اور اسکے بعد تمام صحابہؓ صدیق اکبرؓ کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلیتے ہیں کوئی ایک بھی مخالفت نہیں کرتا،
پہلا واقعہ، ہمیں یہ درس دیتاہے کہ ہمیں اپنے بڑوں سے اظہارِ راۓ کی مکمل اجازت ہے مگر مخالفت کی نہیں،
دوسرا واقعہ،
ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ کسی بھی نازک یا پیچیدہ موقع پر، قوم کے بڑے اور با شعور عالم دین کی اقتدا کرنی چاہئے اور جب علماء کی ایک بڑی جماعت کسی ایک مسئلے پر متفق ہو، اس وقت انکی اقتدا ہم پر لازم اور ضروری ہے،
ایسے موقع پر اپنی راۓ اور اپنے نظریےکو پس پشت ڈال دینا ہی بہتر ہے اور اسی میں ہماری اور ہماری قوم کی بہتری ہے،
تو راز کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہوجا
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال وپر تیرے
تو اۓ مرغِ حرم! اڑنے سے پہلے پر فشاں ہوجا
✍🏻از قلم
عزیراحمد بنارسی
متعلم جامعہ مظہرالعلوم بنارس
◼◼◼◼◼◼◼◼◼◼◼
No comments:
Post a Comment