Monday, 26 August 2019

کافر کے انتقال پر فی نار جھنم پڑھنا کیسا ہے؟

کافر کے انتقال پر فی نار جھنم پڑھنا کیسا ہے؟

سوال: کسی کافر کے مرنے کی خبر سنے یا لاش جاتے دیکھے تو (فی نار جہنم خالدین فیہا ابدا) پڑھنا چاہئے؟؟
الجواب وبہ التوفیق:
میں نے فقہ کی کسی کتاب میں نہیں دیکھا کافر کی موت کی خبر سننے پر الحمدللہ پڑھنا چاہئے۔
(فتاوی محمودیہ جلد 8 ص 485)
قال اللہ تعالی۔ فاذا استویت انت ومن معک علی الفلک فقل الحمدللہ الذی نجانا من القوم الظالمین (المؤمنون پارہ18 آیت 28)
وقال اللہ تعالی۔ فقطع دابرالقوم الذین ظلموا. والحمد للہ رب العالمین (الانعام پارہ 7 آیت 45)
والعلم عنداللہ وعلمہ اتم
مرغوب الرحمٰن القاسمی
----------------------------------------
غیرمسلم میت کی خبر سننے پر کیا پڑھے؟؟
سوال: غیرمسلم میت کی خبرسنے تو کیا پڑھے؟؟
الجواب وبہ التوفیق:
کسی بھی میت کی خبرملے یا کوئی بھی میت سامنے ملے مسلم ہو یا غیر مسلم ہو اسکو دیکھ کر اپنی موت کو یاد کرنا چاہئے جس کے بہتر الفاظ یہ ہے (انا للہ واناالیہ راجعون. یا الحمدللہ پڑھنا چاہئے)
قال اللہ تعالی. فاذا الستویت انت ومن معک علی الفلک فقل الحمد للہ الذی نجٰنا من القوم الظالمین (سورہ مؤمنون. پارہ 18 آیت 28)
فان الحمد علی الانجاء منہم متضمنٌ للحمد علی اھلاکھم وانما قیل:ماذکر.ولم یقل.فقل الحمد للہ الذی اھلک القوم الظالمین.لانہ نعمتہ الانجاء أتم..........وانت تعلم ان الحمد ھنا ردیف الشکر. فاذا خص بالنعمتہ الواصلتہ الی الشاکر.لایصح ان یتعلق بالمصیبتہ من حیث انھا مصیبتہ. وھو ظاہر .وفی امرہ علیہ السلام بالحمد علی نجات اتباعہ اشارتہ الی انہ نعمتہ علیہ ایضاً(روح المعانی.18/27.28)
قال اللہ تعالی. فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العالمین. (سورہ انعام پارہ 7آیت 45)
علی ما جری علیہم من النکال والاھلاک فان اھلاک الکفار والعصاتہ من حیث انہ تخلیص.
من اھل الارض من شؤم عقائدہم الفاسدتہ واعمال الخبیثتہ نعمتہٌ جلیلتہٌ یحق ان یحمد علیھا فھذا منہ تعالی تعلیم العباد ان یحمدوہ علی مثل ذالک. واختار الطبرسی انہ حمدٌمنہ عزاسمہ لنفسہ علی ذالک الفعل. (روح المعانی7/152 .دار احیاء التراث العربی۔ بیروت)
(فتاوی محمودیہ جلد 8 ص 485)
واللہ اعلم بالصواب
-------------------------------------------------------------------
سوال: کیا کسی کافر کی موت کی خبر سن کر "انا للہ وانا إلیہ راجعون" کہنا چاہیے۔ اگر نہیں تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ اگر کسی کافر کے ساتھ تعزیت کرنی ہو تو کیسے کریں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اسلم صورت یہ ہے کہ کچھ نہ پڑھے، خاموشی اختیار کرے اور اپنی آخرت کو یاد کرے، غیرمسلم کی تعزیت ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ "اللہ تمھیں اس سے بہتر عطا فرمائے اور تمھیں خیر کی توفیق دے."
جاء یہودي أو مجوسي مات ابن لہ أو قریب ینبغي أن یعزیہ ویقول: أخلفک اللہ علیک خیرًا منہ وأصلحک وکان معناہ أصلحکم اللہ بالإسلام یعنی رزقک الإسلام ورزقک ولدًا مسلمًا․ کفایة" (شامي)
واللہ تعالیٰ اعلم
----------------------------------
ہمارے پڑوس میں غیر مسلم لوگ بھی رہتے ہیں۔ آپس میں پڑوسی ہونے کی وجہ سے تعلقات بھی ہیں۔ جب ان کا کوئی آدمی فوت ہوجائے تو کیا ہم ان کی میت کو کندھا دے سکتے ہیں؟ اور جہاں وہ اپنی میت کو آگ سے جلاتے ہیں وہاں ان کے ساتھ جانا جائز ہے ؟ کیا ہم ان کے پاس تعزیت کیلئے جاسکتے ہیں؟ تعزیت میں ہم ان کو کیا کہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
غیر مسلم پڑوسی کی عیادت یا تعزیت کے لیے جانا درست ہے او رتعزیت میں یہ الفاظ کہنا چاہئے کہ ”اللہ تعالی اس کا نعم البدل عطا فرمائے؛ “ البتہ میت کو کندھا دینا اورمرگھٹ تک جانا اور ان کے مذہبی امور میں شرکت جائز نہیں، اس سے بچنا چاہئے۔ 
واللہ تعالیٰ اعلم
-------------------------------------
(۱) میرا یہ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان کافر سے دوستی کر سکتا ہے یا نہیں؟
(۲) کیا اسکا جھوٹا کھا اور پی سکتا ہے؟ 
(۳) کیا اسکے کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھا سکتا ہے،
(۴) اس سے دل لگا سکتا ہے؟ براہ کرم، مجھے بتادیجئے، کہ کیوں کہ مجھے بہت سے کافر دوست ہیں۔ اگر اسلام میں یہ منع ہے تو میں ان سے دوستی چھوڈ دوں گا۔
الجواب وباللہ التوفیق:
(۱) ظاہری خوش خلقی، ہمدردی، خیرخواہی، نفع رسانی اور باہمی لین دین کی حد تک کافروں اور غیرمسلموں سے تعلقات رکھنا جائز اور درست ہے، لیکن دلی دوستی اور قلبی محبت وتعلق ایمان والے کے علاوہ کسی سے بھی جائز نہیں، ناجائز وحرام ہے حرام ہے، قال تعالی: ”لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ“ (سورہٴ آل عمران، آیت: ۲۸)، وقال تعالیٰ: ”یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّْیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّةِ“ (سورہٴ ممتحنہ، آیت: ۱)۔ (تفصیل کے لیے معارف القرآن، ۲/۴۹-۳۵ دیکھیں) 
(۲) تا (۴) مسلمان کی طرح کافر کا جھوٹا بھی بلا کسی کراہت حلال وپاک ہے بشرطیکہ اس کا منھ ناپاک نہ ہو قال في الدر (مع الرد کتاب الطہارة، باب المیاہ: ۱/ ۳۸۱-۳۸۲، ط: زکریا دیوبند): ویعتبر سوٴر بمسئر․․․ فسوٴر آدمي مطلقاً ولو جنبا أو کافرًا․․․ طاہر الفم․․․ طاہر طہور بلاکراہة إھ اس لیے مسلمان کے لیے کافر کا جھوٹا کھانا پینا اور نیز اسکے ساتھ اس کے برتن میں کھانا جائز ودرست ہے، لیکن کسی کافر کے ساتھ دل لگانا اور اس سے دلی محبت کرنا جائز نہیں۔ اور کسی کے ساتھ بہت زیادہ گھل مل کر رہنے اور مستقل یا بکثرت اس کے ساتھ کھانے پینے سے بھی آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے اس لیے اگر آپ کے کافر وغیرمسلم ساتھیوں کے اسلام قبول کرنے کی امید وتوقع نہ ہو تو ان کے ساتھ مستقل یا بکثرت کھانے پینے اور بہت زیادہ گھل مل کر رہنے سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔ 
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
------------------------------------------------------


1 comment:

  1. ما شاء اللہ ، بہت اچھی خدمت آپ کرتے ہیں، جزاکم اللہ احسن الجزاء۔

    ReplyDelete