عسکریت پسند عالمی علمبردارانِ جمہوریت --- کاسہ لیس اور کٹھ پتھلی مسلم حکمراں
سنہ 2010 میں مشرق وسطی میں حکمراں اشرافیہ کی سیاسی بدعنوانیوں ، حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں ، افراطِ زر ، فرقہ واریت اور بیروز گاری کے خلاف عام لوگوں میں ایک بیداری نمودار ہوئی اور عوام الناس کی جانب سے ایک پر امن ، انقلابی اور نتیجہ خیز سیاسی جد وجہد کا آغاز ہوا ۔
تیونس حکمراں کے جبر و ظلم اور چیرہ دستیوں سے تنگ آگر سڑک کنارے رکشہ پہ سبزیاں بیچنے والے “محمد بوعزیزی“ نامی ایک غریب نوجوان نے 18دسمبر 2010 میں خود سوزی کرلی۔
حکمراں اشرافیہ کی چیرہ دستیوں کے خلاف انقلابی تحریک کا نقطہ آغاز یہی واقعہ بنا ، یہیں سے عوامی جد وجہد اور جمہوریت کے مطالبے کا آغاز ہوا، جس میں جمہوریت ، آزادانہ انتخابات، اقتصادی آزادی ،حقوق انسانی کا تحفظ ،روزگار کی فراہمی اور سیاسی بدعنوانیوں کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑا ،پر امن اور خاموش احتجاج کے ساتھ عوام سڑکوں پہ نکل آئی ، اس تحریک کو “عرب بَہار “ ۔۔arab spring ۔۔ (موروثی بادشاہتوں سے نجات و آزادی حاصل کر جمہوریت کی بَہار سے لطف اندوز ہونا) کا نام دیا گیا ۔
اٹھارہ دسمبر 2010 میں شروع ہونے والی اس عوامی جد وجہد میں ایسی قوت تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے مشرق وسطی کے کئی ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ، بلا شرکت غیرے دہائیوں سے تخت نشیں عرب حکمرانوں کی شہنشاہیتیں زمیں بوس ہو گئیں ۔
تیونس کے صدر زین العابدین بن علی ، لیبیا میں معمر القذافی ، مصر میں حسنی مبارک ،یمن میں صدر علی عبد اللہ صالح معزول ہوئے اور ان تمام کی آمریتیں اس خونی انقلاب کی زد میں آکر ختم ہوئیں ، البتہ شام کا بشار الاسد خاک وخون کی ہولیاں کھیلنے اور ایٹمی اسلحہ کے استعمال کے ذریعہ لاکھوں عوام کی جانوں کا نذرانہ وصولنے کے بعد بھی اپنے آقا اسرائیل و امریکہ کی آشر واد سے حکومت پہ براجمان رہا ۔
اس عظیم الشان تحریک کے اثرات کویت بحرین اور سعودی عرب تک بھی پہونچے ، سعودی ولی عہد نے کمال ہوشیاری سے مرد وزن کی مخلوط تفریحی مقامات کی ایجاد ، مغربی اور امریکی سنیما ہالوں کے دروازے کھولنے اور عورتوں کے لئے ڈرائیونگ لائسنس جاری کرکے اس انقلاب کے سامنے بند باندھنے میں کافی حد تک کامیاب ہوگیا اور یوں سعودیہ کی موروثی سلطنت عرب بہار کی تحریکی جھونکوں کی زد میں آنے سے بچ گئی ۔سعودیہ نے اپنی فوجی امداد کے ذریعہ بحرین میں عرب بہار کی لہروں کو اٹھنے سے روک دیا ۔
ایشیا اور افریقہ کے سنگم پر واقع نیل کی رعنائیوں سے بہر پور خوبصورت ملک “مصر “ میں قریب چھ دہائیوں سے معرکہ حق و باطل جاری رہا ہے ، یہاں آمریت کے جبر واستبداد کے خلاف سالوں سے جد وجہد جاری تھی ۔
اسلام کے اجتماعی نظام عدل کے قیام اور ملک کے فلاحی نظام کی اصلاحات کی کو ششوں میں امام حسن البناء شہید اور سید قطب شہید جیسی قیادتوں نے اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کیا ہے۔
عرب ملکوں کی تاریخ کا یہ سیاہ باب ہے کہ مصر ہی وہ پہلا عرب ملک ہے جس نے غاصب اسرائیل کے ناپاک و ناجائز وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ “امن معاہدہ “کیا ، اس بدنام زمانہ معاہدہ پہ دستخط کرنے والا ننگ ملت بدقسمت ، مصر کا تیسرا صدر انور السادات تھا ، جس کا دور حکومت 1960 تا 1981 عیسوی ہے ۔ اس گھنائونے اور شرمناک معاہدے سے بھی مصر کے اسلام پسند عوام بے چین تھے ۔
مصر میں عرب بہار کے جھونکوں کے نتیجے میں 18 سالوں سے اقتدار پر قابض حسنی مبارک کا تختہ حکومت لاکھوں پرجوش لوگوں کے “تحریر اسکوائر “پہ سترہ دنوں کی زبردست احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں سے زیر وزبر ہوگیا ۔
سنہ 2012 میں مصری پارلیمان کے آزانہ جمہوری انتخابات ہوئے ۔
1951ء میں مصر میں پیدا ہونے والے اور 1977ء میں ’’الاخوان المسلمون‘‘ سے باقاعدہ منسلک ہونے والے اعلی تعلیم یافتہ،حافظ وڈاکٹر محمد مرسی 1992ء میں تنظیم کی سیاسی جماعت سے مربوط ہوئے اور 2000ء سے لے کر 2005ء تک مصری پارلیمنٹ میں اخوان المسلمون کی سیاسی پارٹی کے ممبر بھی رہے۔
2012ء میں آپ کی قیادت میں ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ کا قیام ہوا جس کے آپ صدر بنے ، اس کے بعد 2012ء میں جمہوری انتخاب دو مرحلے میں ہوا جس میں آپ شریک ہوئے اور آپ کی پارٹی نے58/ فیصد ووٹ حاصل کرکے مصر کی سب سے بڑی پارٹی بننے کا اعزاز حاصل کی اور آپ مصر کے سب سے اولیں منتخب صدر بنے ۔
مصر میں عرب بہار کی اس تحریک کی حوصلہ افزائی امریکہ ،اسرائیل اور مغربی ملکوں نے بھی کی تھی ؛ لیکن مصر کے نو منتخب صدر ڈاکٹر مرسی کا یہ اعلان کرنا تھا :
اسلام ہمارا مقصد ، قرآن ہمارا دستور اور لیڈر ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں “
کہ تل ابیب ، واشنگٹن ، اور ریاض میں ہل چل مچ گئی ، ان کے اوسان خطا ہوگئے۔
عالمی اسٹبلشمنٹ کی نگرانی ،امریکہ کی ڈیڑھ ارب ڈالر اور سعودیہ کی بارہ ارب ڈالر کی خطیر امداد و پشت پناہی کے نتیجہ میں مصر کی پہلی جمہوری حقیقی منتخب حکومت کے خلاف الزامات ،اوچھے ہتھکنڈوں ، ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے جال بنے جانے لگے ،مصری فوج کا وہ یہودی زادہ نمک حرام سربراہ “عبد الرحمن السیسی “ جسے صدر مرسی نے ہی وزیر دفاع بنایا تھا
وہ امریکہ ،اسرائیل ، آل سعود اور آل نہیان کے اربوں ڈالر کے سامنے ڈھیر ہوگیا ، ستم ظریفی دیکھئے کہ وہی صدر مرسی کے خلاف سازش کا مہرہ وآلہ کار بنا ، مرسی کے خلاف ڈالر کے بل بوتے سب سے پہلے ذرائع ابلاغ میں مصنوعی مہم شروع ہوئی ،انہیں ناکام ثابت کیا جانے لگا ، الزامات واتہامات کی بوچھار کی جانے لگی ، کرائے کے ٹٹوئوں کو لاکر 28 جون 2013 کو میدان اسکوائر پہ مرسی کے خلاف احتجاج کروایا جانے لگا ،یہودی زادہ جنرل السیسی کے حق میں نعرے لگائے جانے لگے ،اس افرا تفری اور صدر کے خلاف بنائو ٹی احتجاج اور اضطرابات کو بہانہ بناکر عالمی عسکریت پسندوں کی کٹھ پتلی جنرل السیسی نے صدر مرسی کو مسائل کے حل کرنے کے لئے اولاً اڑتالیس گھنٹے کی مہلت دی ، پہر ملکی سیاست سے دست برادر ہوکے بیرون ملک چلے جانے کی محفوظ راہ کی پیش کش کی ،صدر مرسی کی جانب سے دونوں پیش کش مسترد کردیئے جانے کے بعد 3جولائی 2013 کو صدر مرسی کے خلاف فوج نے بغاوت کردی اور جنرل السیسی کی سربراہی میں مرسی حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کرلیا گیا ۔
مرسی کے ہزاروں ساتھیوں اور ہمنواؤں پہ گولیوں کی بوچھار کی گئی ، ان پہ ٹینک چڑھا دیا گیا ، ہزاروں مردو عورت کو زندہ کچل دیا گیا ، مرسی سمیت ہزاروں رہنمائوں کو عقوبت خانے میں ڈال کر اذیت ناک سزائیں دی گئیں۔
تشدد کا ہر طریقہ ان پہ روا رکھا گیا ، قید تنہائی میں ڈال کر سخت ٹارچر کیا گیا ،بنیادی انسانی حقوق کی بری طرح پامالی کی گئی ، طبی امداد ، اہل خانہ اور وکلاء کی ملاقات سے انہیں دور رکھا گیا ، ملکی راز حماس کو افشاء کرنے کے جھوٹے الزام کے تحت ان پہ غداری ، چوری ، قتل ،اقدام قتل جیل توڑنے جیسے مقدمات دائر کر عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ۔
شیشے کے بلٹ پروف پنجرے میں ڈال کے انہیں سماعتوں پہ عدالتوں میں پیش کیا جاتا
17 جون 2019 کو شیشے کے پنجرے میں انہیں عدالت پیش کیا گیا ، بلڈ پریشر اور شوگر کا یہ مریض قید تنہائی اور اعصاب شکن ٹارچر کی تاب نہ لاکر کمرہ عدالت میں بیہوش ہوکر گر پڑا ،ہسپتال پہنچنے پہ پتہ چلا کہ یہ اب زندہ نہ رہا ۔
مرنے کے بعد بھی اس منتخب صدر اور حقیقی رہنما کے جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ کا عالم یہ تھا کہ ننگ زمانہ ضمیر فروش بزدل غاصب آمر السیسی نے ان کا جسد خاکی اہل خانہ کے حوالے نہ کیا اور رات کے اندھیرے میں محض چند لوگوں کی موجودگی میں حافظ محمد مرسی شہید کو قبر میں اتار کر ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنا نام ملعونوں کی فہرست میں درج کرالیا ۔
محمد مرسی کی منتخب حکومت پہ قبضہ اور ان کی ظالمانہ شہادت پہ خاموشی بلکہ خفیہ اس کی پشت پناہی اور ان کی شہادت سے جمہوریت کا راگ الاپنے والے اور حقوق انسانی کا چمپئین کہلانے مغربی عسکریت پسندوں کے چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں ، کہ انہیں کسی جمہوریت سے قطعی کوئی سروے کار نہیں ، مغرب اور امریکہ اسلام کے نظام عدل کی بات کرنے والے ، فلسطین دوست ،اسرائیل دشمن ہر اسلام پسند مسلم حکمراں کی اینٹ سے اینٹ بجادی نے کے درپے ہے
وہ تو طیب ایردوان اپنی ذہانت اور بروقت عملی اقدام سے بچ پایا ؛ورنہ استنبول میں گولنیوں کے ذریعہ بغاوت کرواکر ترکی کی منتخب حکومت کا بھی تیا پانچہ اپنے تئیں کروا دیا تھا !
چاہے مرسی کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ہو یا ان کی حالیہ مظلومانہ شہادت !
دونوں ہی موقعوں پہ سب سے شرمناک رویہ اسرائیل دوست اور مغرب نواز مسلم حکمرانوں کا ہے ، فوجی بغاوت کے موقع سے سعودیہ ، فلسطین اور کویت نے سیسی کے اقدام کی تحسین وتائید کی تھی ۔آج مرسی کی شہادت اور سیسی کی فرعونیت پہ کسی کے منہ سے مذمت کے چند بول بھی نہ نکل سکے .
ہاں ! ترکی کے صدر جناب طیب اردگان نے مرسی کی موت کو شہادت قرار دیا جبکہ ملائشیا اور قطر کے حکمراں نے اس واقعہ پہ گہرے رنج وافسوس کا اظہار کیا ہے ، خلیج کے عیاش حکمرانوں نے اس سفاکانہ قتل پہ درپردہ بغلیں بجائی ہیں ۔
امریکہ کے چٹے بٹے عرب حکمراں خوش فہمی میں نہ رہیں
طاغوتی طاقتوں اور وقت کے فرعونوں کے ہمنواؤں کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا
آپ نے ہوائوں سے دوستی کی ہے
آپ کے چراغ بھی بجھیں گے
ہوا (امریکہ ) کسی کی نہیں
مرسی شخص واحد کا نام نہیں تھا
عزم واستقامت کا وہ استعارہ تھا، جبر کے مقابلے میں استقامت اور جد وجہد کی وہ اعلی مثال تھا
خدا ان کی روح کو سدا خوش رکھے ،
ہاں وہ اک لمحہ کہ حق گوئی پہ گردن کٹ جائے
یعنی تاعمر عبادت کے سوا بھی کچھ ہے ؟
آہ شیخ مرسی ! تیری جرات ، جواں مردی ، بہادری ، ہیبت ، رعب ،جاہ و جلال اور عظمت وسطوت کیسی مثالی تھی ؟ کہ فرعونی سپاہیوں کو تیرے تنِ مردہ اور بے جان لاشے سے بھی قریب ہونے
کی جرات نہیں ہوسکی !
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے
No comments:
Post a Comment