Thursday 22 August 2019

شریعت ِمطہرہ میں لفظ ’’مکروہ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ शरीयत-ए-मुत्हरा मे लफ्ज़ मकरूह का क्या मतलब है

شریعت ِمطہرہ میں لفظ ’’مکروہ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟
 سوال 
شریعت ِمطہر ہ کی اصطلاح میں لفظِ مکروہِ تنزیہی کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس سے کسی عمل میں ثواب کی کمی مراد ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ اس عمل کے سو فی صد اجر میں سے بندے کو کچھ کم یعنی اسّی یا نو ّے فی صد ثواب دیا جائے گا؟
 جواب 
حامداً و مصلیا و مسلما
کسی بھی عبادت میں مکروہِ تنزیہی کے ارتکاب سے کتنا ثواب کم ہوگا اس کی کوئی حد متعین نہیں ہے، کسی بھی عمل کے ثواب کی کمی بیشی *منشاءِ خداوندی پر موقوف ہوتی ہے، کسی عمل میں کوئی غلطی بلا ارادہ ہوجائے، تو اس کا حکم الگ ہے اور قصداً غلطی کرنے کا حکم الگ ہے، نیز مکروہِ تنزیہی کو معمولی سمجھتے ہوئے بارہا اس کا ارتکاب کرنے سے وہ مکروہِ تحریمی بن جائے گا۔
فقط، واللہ أعلم بالصواب۔
------------------------------
(۱) أما الإصرار فيخرج الصغيرة عن [أن تكون] صغيرة.جزء من شرح تنقيح الفصول في علم الأصول- عبد الرحمن المالكي القرافي (م:۶۸۴هـ):۲؍۲۳۲،حد الکبیرۃ،ط: رسالة علمية، مکۃ المکرمۃ
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۝۶
(۴۹- الحجرات:۶)

فتاوی فلاحیہ اول
سید اعظم علی بھوپال
----------------------------
احکاماتِ شرعیہ کے بیان میں حلال اور حرام کے ساتھ ایک لفظ ’’مکروہ‘‘ کا بھی کثرت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ ’’مکروہ‘‘ کی اصطلاح عوام الناس کے نزدیک اپنے شرعی مفہوم کے لحاظ سے حلال اور حرام کی طرح معروف اور واضح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بسا اوقات ’’مکروہ‘‘ کی حقیقت و تعریف اور اُس کے ثبوت سے متعلق سوال کرتے ہیں، بلکہ بعضوں کی گفتگو سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وہ اس کو فقہاء کی ایجاد سمجھتے ہیں، اس لیے’’مکروہ‘‘ سے متعلق مختصر وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔
شریعت کے احکام کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: ایک قسم کا نام ’’مامورات‘‘ ہے، جبکہ دوسری قسم کو ’’منہیات‘‘ کہتے ہیں۔ مامورات ان احکامات کو کہا جاتا ہے جن میں کسی کام کے ’’کرنے‘‘ کا حکم دیا گیا ہو اور منہیات اُن احکامات کو کہتے ہیں جن میں کسی کام سے ’’بچنے‘‘ کا حکم دیا گیا ہو۔ پھر احکامات خواہ وہ مامورات کے قبیل سے ہوں یا منہیات کے قبیل سے، درجات اور مراتب کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں، بلکہ مختلف مراتب اور درجات میں تقسیم ہیں۔ تاہم احکام کی مذکورہ درجہ بندی فقہائے کرام نے از خود نہیں کی، بلکہ نصوص سے ثابت ہے اور اس درجہ بندی کا مقصد اُمت کے لیے عمل کے لحاظ سے آسانی اور سہولت پیدا کرنی ہے، کیوں کہ ظاہر ہے اگر شریعت کے تمام احکام ایک ہی درجہ کے ہوتے تو اُمت کے لیے ان کی بجاآوری آسان نہیں ہوتی، اس لیے اُن کو مختلف درجات میں تقسیم کیا گیا، تاکہ اُمت کے لیے ان پر عمل کرنے میں سہولت اور آسانی ہو۔ البتہ چونکہ عمل کے لیے اول اُن کی پہچان ضروری ہے اورمجموعی لحاظ سے اُمت کے لیے احکام کے مذکورہ مراتب اور درجات کو پہچاننا ایک مشکل کام تھا، اس لیے فقہاء کرام نے نصوص میں غور و فکر کرکے احکام کی ان اقسام و درجات میں سے ہر ایک قسم اور درجہ کے لیے ایک نام اور اصطلاح مقرر کردی، تاکہ اُمت کے لیے ان کی پہچان میں اور پھر اُن پر عمل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور ان کو سمجھنے سمجھانے میں سہولت و آسانی ہو۔ چنانچہ فرض، واجب، سنت، مستحب، وغیرہ یہ اصطلاحات فقہاء کرام نے نصوص میں غور کرکے مختلف الاقسام احکام کی پہچان کے لیے مقرر کی ہیں، جس کی وجہ سے آج اُمت کے لیے اُن کو سمجھنا، سمجھانا اور ان پر عمل کرنا آسان ہے۔ احکامات کی انہیں اقسام میں سے ایک قسم وہ ہے جس کو فقہاء کرام نے ’’مکروہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔
’’اتحاف ذوی البصائر‘‘ (شرح روضۃ الناظر) میں ہے:
’’قولہ (وھو أقسام أیضا) أقول: إن الحکم الوضعی ینقسم إلٰی أقسام کما انقسم الحکم التکلیفی إلٰی أقسام وقد سبقت وھی الواجب والمندوب والمباح والمکروہ والحرام ۔۔۔۔ الخ۔‘‘ ( اقسام الحکم الوضعی، جلد: ۱، ص: ۵۴۱، ط: مکتبۃ الرشد، ریاض)
مکروہ کی تعریف
’’مکروہ‘‘ لغوی معنی کے اعتبار سے ناپسندیدہ کو کہتے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ’’مکروہ‘‘ کی حقیقت اور تعریف کو سمجھنے کے لیے اول جاننا چاہیے کہ اشیاء کی حکم کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں:
۱:… بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی ممانعت نصِ قطعی سے واضح طور پر ثابت ہے، ایسی چیزوں کو ’’حرام‘‘ کہا جاتا ہے ۔
۲:… بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی اجازت نصِ قطعی سے واضح طور پر ثابت ہے یا اُن کی ممانعت کسی نص سے ثابت نہیں ہے ، ایسی چیزوں کو ’’حلال‘‘ کہا جاتا ہے ۔
۳:… بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق اجازت اور ممانعت دونوں جانب کے دلائل موجود ہیں، جس کی بنا پر ان کو مکمل طور پر حلال کہا جاسکتا ہے، نہ حرام کہا جاسکتا ہے ۔جو چیز اس قسم کی قبیل سے ہو‘ اس کو فقہاء کی اصطلاح میں ’’مکروہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
مذکورہ تفصیل کے مطابق ’’مکروہ‘‘ ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جن کے متعلق اجازت اور ممانعت دونوں جانب کے دلائل موجود ہوں اور اس وجہ سے وہ مکمل طور پر حلال یا حرام اشیاء کی فہرست میں شامل نہ ہوں ،چوں کہ ایسی چیزیں شریعت کی نظر میں حرام نہ سہی‘ ناپسندیدہ ضرور ہوتی ہیں، اس لیے فقہائے کرام ان کو’’مکروہات ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
مکروہ کا ثبوت
مکروہ کی مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اب ذیل میں دو احادیث ذکر کی جاتی ہیں، جن سے مکروہ کی مزید وضاحت کے ساتھ احادیث سے اس کا ثبوت بھی واضح ہوجائے گا ۔۱:…حدیث شریف میں ہے :
’’عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الحلال بین والحرام بین و بینھما متشابہات لا یعلمھن کثیر من الناس ۔۔۔۔۔۔ الحدیث۔‘‘ (مشکوۃ المصابیح، باب الکسب و طلب الحلال، ص:۲۴۱، ط قدیمی)
’’حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔۔۔الخ۔‘‘ (مظاہرِ حق، ج: ۳، ص: ۳۵، ط: دار الاشاعت) 
مذکورہ حدیث میں اشیاء کے حکم کے اعتبار سے اُن تین اقسام کا بیان ہے، جن کا ذکر ماقبل میں ہو چکا ہے، ان میں سے تیسری قسم کی اشیاء میںچونکہ اجازت اور ممانعت دونوں جانب کے دلائل موجود ہوتے ہیں او راس وجہ سے ان کو حلال یا حرام کہنے میں اشتباہ ہوجا تا ہے، ا س لیے حدیث میں ان کو’’متشابہات‘‘ کہا گیا۔ فقہاء کرام اس قسم کی اشیاء کو فقہی اصطلاح میں ’’مکروہات‘‘کہتے ہیں۔ یوں مذکورہ حدیث سے’’مکروہ‘‘ کا ثبوت واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے ۔’’شرح الطیبی‘‘میں ہے :
’’قولہ الحلال بین والحرام بین معناہ أن الأشیاء ثلاثۃ: حلال بین واضح لایخفی حلہٗ کالخبز والفواکہ و غیر ذٰلک من المطعومات و کذٰلک الکلام والنظر والنکاح والمشی و غیر ذٰلک من التصرفات و حرام بین کالخمر والخنزیر والمیتۃ والدم المسفوح وکذٰلک الزنا والکذب والغیبۃ والنمیمۃ والنظر إلی الأمرد و إلی الأجنبیۃ وأشباہ ذٰلک۔ والمتشابہ ھو الذی یحتمل الأمرین فاشبہ علی الناظر بأیھما ملحق وإلیہ أشار بقولہ :لا یعلمھن کثیر من الناس۔‘‘ (شرح الطیبی، ج: ۶، ص: ۹، ط: ادارۃ القرآن)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیاء تین قسم کی ہیں: 
پہلی قسم واضح حلال کی ہے، جس کی حلت میں کوئی اخفاء نہیں، جیسے: روٹی اور میوہ جات اور ان کے علاوہ دوسری کھانے کی چیزیں، اسی طرح بات چیت، دیکھنا، نکاح کرنا اور چلنا وغیرہ جیسے اعمال۔ 
دوسری قسم واضح حرام کی ہے، جیسے: شراب، خنزیر، مردار، بہنے والا خون اور اسی طرح زنا، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بے ریش اور اجنبی عورت کو دیکھنا اور اسی طرح کے دوسرے اعمال۔ اور تیسری قسم متشابہ ہے جو دونوں (حلت وحرمت) کا احتمال رکھتا ہے، چنانچہ وہ دیکھنے والے پر مشتبہ ہوجاتا ہے، اسی کی طرف اپنے قول ’’لایعلمہن کثیر من الناس‘‘ ۔۔۔۔ ’’اسے اکثر لوگ جانتے نہیں‘‘ سے اشارہ کیا ہے۔‘‘
۲:… دوسری حدیث میں ہے:
’’عن ابن عمر أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سئل عن الضب، فقال: لا آکلہٗ ولا أحرمہٗ۔‘‘ (ترمذی ،ج: ۲، ص: ۱، ط: سعید)
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نہ تو اس کو کھاتا ہوں اور نہ حرام کرتا ہوں ۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’گوہ‘‘ (ایک قسم کا جانور ہے) کی حلت و حرمت کے بارے میں پوچھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ: میں اس کو نہیں کھاتا، لیکن اُمت کے لیے حرام بھی نہیں کرتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب سے ’’مکروہ ‘‘ کی اصطلاح بخوبی واضح اور ثابت ہوجاتی ہے، کیوں کہ جب آپ علیہ السلام گوہ کو حرام قرار نہیں دے رہے، لیکن خود اس کو تناول بھی نہیں فرمارہے ہیں تو ایسی صورت میں گوہ کو اور اس طرح کی دیگر چیزوں کو مکمل طور پر حلال یا حرام کیسے کہا جاسکتا ہے، بلکہ عقل خود اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ حلال اور حرام کے درمیان بھی ایک درجہ ہے، اور گوہ اسی درمیانی درجہ کی چیز ہے۔ اسی درمیانی درجہ کی چیزوں کو فقہاء کرام ’’مکروہات‘‘ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے احناف کے نزدیک گوہ کا کھانا مکروہ ہے، جیسے کہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ ’’العرف الشذی‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’وھٰذہٖ مکروھۃ عندنا وقال فقھائنا بکراھۃ تحریمیۃ و محدثوننا بکراھۃ تنزیہیۃ۔‘‘ (سنن ترمذی، ج: ۲، ص: ۱، ط: سعید )
مکروہ کی قسمیں اور اُن کا حکم
فقہ کی کتابوں میں مکروہ کے ساتھ ’’تنزیہی‘‘ اور ’’تحریمی‘‘ کے الفاظ بھی بکثرت استعمال ہوتے ہیں، اس بنا پر اُن کی مختصر وضاحت بھی مناسب ہے۔
مکروہ کے بارے میں جیسا کہ معلوم ہوا، اس میںاجازت اور ممانعت دونوں جانب کے دلائل موجود ہوتے ہیں اور اس کی دونوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے، اس لیے فقہاء کرام نے مکروہ کی اس اعتبار سے دو قسمیں ذکر کی ہیں:
۱:…مکروہِ تنزیہی، 
۲:…مکروہِ تحریمی۔
مکروہِ تنزیہی:
اس مکروہ کو کہتے ہیں جس میں ممانعت کے مقابلہ میں اجازت کے دلائل غالب اور قوی ہوتے ہیں، اس بنا پر وہ حرام کے مقابلہ میں حلال کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ 
مکروہِ تحریمی:
اس مکروہ کو کہتے ہیں جو اس کے برعکس ہوتاہے، یعنی اس میں ممانعت کے دلائل غالب اور قوی ہوتے ہیں اوراس وجہ سے وہ حرام کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
پہلی قسم کا حکم یہ ہے کہ اس سے اجتناب بہتر اور باعث اجر و ثواب ہے، البتہ ارتکاب کی صورت میں گناہ نہیں ہوتا۔ اور دوسری قسم کا حکم یہ ہے کہ اس سے اجتناب ضروری ہے اور اس کا مرتکب گناہ کا مستحق ہوتا ہے ۔ 
’’مجموعۃ قواعد الفقہ الحنفیۃ‘‘ میں ہے:
’’الکراھۃ شرعًا کون الفعل بحیث یکون ترکہٗ أولٰی مع عدم المنع من ذٰلک الفعل ویسمی مکروھًا وھونوعان: مکروہ کراھۃَ تحریم و مکروہ کراھۃَ تنزیہ فالأول عند الشیخین ما کان إلی الحرام أقرب والثانی ماکان إلی الحل أقرب کذا فی کشاف المصطلحات ، ومعنی کرھت الشیٔ إذا لم تردہ و لم ترضہ ، قالہ فی المغرب ۔‘‘ (مجموعۃ قواعد الفقہ الحنفیہ، ص: ۴۴۱-۴۴۲، ط: مدنی کتب خانہ)
’’شرعی طور پر کراہت کا مطلب کسی فعل کا اس طرح ہونا کہ اس کا چھوڑدینا بہتر ہو، باوجودیکہ اس فعل سے بالکل منع بھی نہ کیا گیا ہو، اس (فعل)کا نام مکروہ رکھا گیا ہے۔ اس کی دو قسمیں : مکروہِ تحریمی، مکروہِ تنزیہی، شیخین کے نزدیک پہلا وہ ہے جو حرام کے قریب ہوتا ہے اور دوسرا وہ ہے جو حلال کے قریب ہوتا ہے، اسی طرح ’’کشاف المصطلحات‘‘ میں لکھا ہے۔ اور ’’کرہت الشیء‘‘ اس وقت کہاجاتا ہے جب کسی چیز کورد بھی نہ کیا جائے اور پسند بھی نہ کیا جائے، یہ بات ’’مغرب‘‘ میں کہی گئی ہے۔ ‘‘
و فیہ أیضا:
’’المکروہ ماہو راجح الترک ، فإن کان إلی الحرام أقرب تکون کراھۃ تحریمیۃ وإن کان إلی الحل أقرب تکون تنزیھیۃ و معنی القرب إلی الحرمۃ أنہٗ یستحق فاعلہ العتاب ومعنی القرب إلی الحل أنہٗ لا یستحق فاعلہ العتاب، بل یستحق تارکہٗ أدنی الثواب۔‘‘ (ایضاً، ص: ۵۰۳، ط: مدنی کتب خانہ ) 
’’مکروہ وہ ہے جس کا چھوڑنا راجح ہو، اگر وہ حرام کے زیادہ قریب ہے تو کراہتِ تحریمی ہوگی اور اگر حلت کے زیادہ قریب ہے تو کراہتِ تنزیہی ہوگی۔ اور حرمت کے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کرنے والا لائقِ ملامت ہوگا اور حلت کے قریب ہونے کا مطلب ہے کہ اس کا کرنے والا ملامت کا مستحق نہیں، بلکہ اس کا چھوڑنے والا کچھ نہ کچھ ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ ‘‘
الغرض حاصل یہ ہے کہ احکاماتِ شرعیہ مرتبہ کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں، بلکہ ان کی مختلف قسمیں ہیں، ’’مکروہ‘‘ بھی احکامات کی ان مختلف اقسام میں سے ایک اہم قسم ہے، پھر یہ کہ حکم کی یہ قسم فقہائے کرام نے نہیں بنائی، بلکہ نصوص سے ثابت ہے۔ اور فقہاء کرام نے نصوص میں غور و فکر کرکے اس کے لیے ’’مکروہ‘‘ کی ایک اصطلاح مقرر کردی ہے، تاکہ اُمت کے لیے اس کی پہچان میں اور اس سے بچنے میں سہولت اور آسانی ہو اور یہ ان کے اس اُمت پر من جملہ احسانات میں سے ایک عظیم احسان ہے۔

---------
 सवाल नंबर 226
शरीयत-ए-मुत्हरा मे लफ्ज़ मकरूह का क्या मतलब है
 सवाल
शरीयत ए मुत्हरा की इसतलाह में लफ्जे़ मकरूह-ए तनज़ीही का मतलब क्या है? क्या इससे किसी अमल में सवाब की कमी मुराद है? क्या यह मुराद है के इस अमल के सौ फीसद अजर में से बंदे को कुछ कम यानी 80 या
90 फीसद सवाब दिया जाएगा?
 जवाब
حامدا و مصلیا و مسلما
किसी भी अमल में मकरूह-ए तनज़ीही के इरतकाब से कितना सवाब कम होगा इसकी कोई हद मुताइयन (निर्धारित) नहीं हैं, किसी भी अमल के सवाब की कमी बेशी मंशा-ए-ख़ुदावंदी पर मोक़ूफ होती है,
किसी अमल में कोई गलती बिला इरादा हो जाए, तो इसका हुकुम अलग है और क़स्दन (जानबूझकर) ग़लती करने का हुकुम अलग है, नीज़ मकरूह-ए तनज़ीही को मामूली समझते हुए बार-बार इसका इरतकाब करने से वह मकरूह-ए-तहरीमी बन जाएगा।
(۱) أما الإصرار فيخرج الصغيرة عن [أن تكون] صغيرة.جزء من شرح تنقيح الفصول في علم الأصول- عبد الرحمن المالكي القرافي (م:۶۸۴هـ):۲؍۲۳۲،حد الکبیرۃ،ط: رسالة علمية، مکۃ المکرمۃ
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۝۶
(۴۹- الحجرات:۶)
واللہ اعلم بالصواب
फतावा फलाहिया जिल्द 1
सैय्यद आजम अली भोपाल

No comments:

Post a Comment