Wednesday 23 May 2018

میاں بیوی کے درمیان کس حد تک لہو ولعب جائز ہے؟

میاں بیوی کے درمیان کس حد تک لہو ولعب جائز ہے؟
سوال # 150188
مفتیان کرام کی خدمت میں ایک استفتاء کے جواب کی تحقیق مطلوب ہے۔
ایک مفتی صاحب سے شرمگاہ کو بوسہ دینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہیں نے ان الفاظ میں جواب دیا (شرمگاہ کو بوسہ دینا ؟)
سوال یہ ہے کہ اپنی بیوی کے فرج کو بوسہ دینا شرعی کیا حکم ہے مع تفصیل مذاہب اربعہ حوالہ سے فرمائیں سائل: مخفی ........
الجواب وباللہ التوفیق شرمگاہ چاٹنے کا عمل بالکل غیر مہذب اور ناشائستہ ہے، لیکن جواز سے انکار کی گنجائش نہیں ہے، مذاہب اربعہ میں اباحت موجود ہے:
قیل لأصبغ إن قوما یذکرون کراھتہ فقال من کرھہ إنما کرھہ بالطب لا بالعلم ولا بأس بہ ولیس بمکروہ وقد روی عن مالک أنہ قال لا بأس أن ینظر إلی الفرج فی حال الجماع۔ وزاد فی روایة ویلحسہ بلسانہ وھو مبالغة فی الإباحة ولیس کذلک علی ظاھرہ۔"
اصبغ سے کہا گیا کہ ایک جماعت (بیوی کی شرمگاہ کو دیکھنے کو) مکروہ کہتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جو بھی اسے مکروہ کہتا ہے وہ طبی اعتبار سے ہے وگرنہ شرعی کوئی دلیل کراہت کی نہیں اور شرعاً اس میں نہ کوئی حرج ہے اور نہ کراہت (بلکہ یہ صرف طبّا ناپسندیدگی ہوگی)۔ امام مالک سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہمبستری کے وقت بیوی کی شرمگاہ کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں اور ایک روایت میں یہ زیادتی بھی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ زبان سے شرمگاہ کو چاٹے ۔ امام مالک کا یہ قول اباحت میں مبالغہ ہے جو کہ اپنے ظاہر پر نہیں۔ (مواہب الجلیل علی مختصر خلیل ۲۳/۵) طرح فقہ شافعی کی کتاب اعانة الطالبین میں ذکر ہے:
"(تتمة: یجوز للزوج کل تمتع منھا بما سوی حلقة دبرھا، ولو بمص بظرھا أو استمناء بیدھا" تتمہ:
شوہر کیلئے بیوی سے ہر قسم کا تمتع جائز ہے سوائے اس کی دبر (موضع اجابت) سے۔ اگرچہ یہ تمتع عورت کی شرمگاہ کے چوسنے یا اس کے ہاتھ سے مشت زنی کروانے کی صورت میں ہو۔ (اعانة الطالبین ۵۲۹/۳) فقہ حنبلی کی کتاب کشاف القناع عن متن الاقناع میں تحریر ہے:
"وقال القاضی یجوز تقبیل فرج المرأة قبل الجماع ویکرہ بعدہ" “قاضی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت کی شرمگاہ کا بوسہ لینا جماع سے قبل جائز ہے اور جماع کے بعد مکروہ ہے۔” (کشاف القناع ۱۶/۵) فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب رد المحتار میں نقل ہے:
"وعن أبی یوسف سألت أبا حنیفة عن الرجل یمس فرج امرأتہ وہی تمس فرجہ لیتحرک علیہا ہل تری بذلک بأسا قال لا وأرجو أن یعظم الأجر ذخیرة."
“امام ابو یوسف نے امام ابو حنیفہ سے دریافت فرمایا کہ ایک شخص اپنی بیوی کی شرمگاہ کو چھوتا ہے اور بیوی اس کی شرمگاہ کو تاکہ مرد میں حرکت بڑھ جائے تو کیا آپ اس میں کوئی حرج سمجھتے ہیں؟ امام صاحب نے جواب دیا: نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ انہیں زیادہ ثواب ملے گا۔ (رد المحتار ۳۶۷/۶) نیز فقہ حنفی کی ایک اور فتاویٰ کی مشہور کتاب ہندیہ میں ہے:
"إذا أدخل الرجل ذکرہ فی فم امرأتہ قد قیل یکرہ وقد قیل بخلافہ کذا فی الذخیرة" نوازل میں ہے جب مرد اپنا آلہ تناسل عورت کے منہ میں داخل کردے تو کہا گیا ہے کہ ایسا کرنا مکروہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسا کرنا مکروہ نہیں۔ ذخیرہ میں یہی ذکر ہے۔ (الھندیة ۳۷۲/۵) اسی طرح محیط برہانی میں یہ جزئیہ ان الفاظ میں ذکر ہے:
"إذا ادخل الرجل ذکرہ فی فم امرأتہ یکرہ لأنہ موضع قرائة القرآن فلا یلیق بہ إدخال الذکر بہ وقد قیل بخلافہ ایضاً"
“اگر مرد عورت کے منہ میں اپنا آلہ تناسل داخل کرے تو یہ مکروہ ہے کیونکہ منہ قرآن پاک پڑھنے کی جگہ ہے تو اس میں آلہ کا داخل کرنا مناسب نہیں اور ایک قول اس میں اس کے برخلاف (عدمِ کراہت) کا بھی ہے ۔ (محیط برھانی ۱۳۴/۸) نیز موسوعہ فقہیہ جس میں مذاہب اربعہ کی تفصیلات جمع کی گئی ہیں اور دورِ حاضر کے علماء کی ایک جماعت نے اسے تیار کیا ہے ، اس میں مسئلہ زیر بحث سے متعلق یہ تفصیل تحریر ہے :
"لمس فرج الزوجة: اتفق الفقہاء علی أنہ یجوز للزوج مس فرج زوجتہ. قال ابن عابدین: سأل أبو یوسف أبا حنیفة عن الرجل یمس فرج امرأتہ وہی تمس فرجہ لیتحرک علیہا ہل تری بذلک بأسا؟ قال: لا، وأرجو أن یعظم الأجروقال الحطاب: قد روی عن مالک أنہ قال: لا بأس أن ینظر إلی الفرج فی حال الجماع ، وزاد فی روایة : ویلحسہ بلسانہ، وہو مبالغة فی الإباحة ، ولیس کذلک علی ظاہرہ و قال الفنانی من الشافعیة : یجوز للزوج کل تمتع منہا بما سوی حلقة دبرہا ، ولو بمص بظرہا وصرح الحنابلة بجواز تقبیل الفرج قبل الجماع ، وکراہتہ بعدہ" (الموسوعة الفقھیة: ۹/۳۲، فرج)
ان عبارات سے معلوم ہو اکہ امام مالک کے نزدیک شرمگاہ کو چوسنے، امام شافعی کے نزدیک مصّ بظر کے الفاظ، امام احمد کے نزدیک شرمگاہ کا قبل از جماع بوسہ لینے کا جواز اور امام صاحب سے امام ابو یوسف کی روایت کے مطابق شرمگاہ کو چھونے پر ثواب کی امید یہ سب کچھ یہ بتاتا ہے کہ یہ عمل حرامِ قطعی یا ممنوع فعل نہیں بلکہ اس میں اباحت اور بوقت ضرورت جوازہے۔ نیز ہندیہ میں کراہت اور عدمِ کراہت دنوں قول نقل ہیں لیکن محیط برہانی میں فلا یلیق بہ یعنی نامناسب ہے کے الفاظ یہ بتا رہے ہیں کہ اگر کراہت والا قول بھی لے لیا جائے تو کراہت تنزیہی ہی مراد ہوگی وگرنہ دوسرے قول میں تو اور تخفیف ہے۔ نیز مرد یا عورت کی شرمگاہ کوئی نجس چیز نہیں، نہ ان کے چھونے یا ہاتھ لگانے سے وضو کرنا ضروری ہوتا ہے۔ آپ سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا: "عن قیس بن طلق رضی اللہ تعالٰی عنہ عن ابیہ سئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم افی مس الذکر وضوء قال: لا"
“حضرت قیس بن طلق سے روایت ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا: کیا آلہ تناسل کو چھونے سے وضو کرنا ہوگا؟
آپ ﷺ نے جواب دیا: نہیں۔ (طحاوی، ۶۰/۱) ایک اور اثر ہے : 
"عن قیس بن حازم رحمہ اللہ قال سئل سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ عن مس الذکر فقال ان کان نجسا فاقطعہ لا بأس بہ۔" “حضرت قیس بن حازم سے مروی ہے حضرت سعد سے آلہ تناسل کو چھونے (سے وضو) سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا اگر یہ نجس ہے تو اسے کاٹ (کر پھینک) دو، اس(کو چھونے) میں کوئی حرج نہیں۔ (طحاوی جب یہ نجس بھی نہیں اور فقہاء نے اس کی گنجائش بھی لکھی ہے کہ زوجین ایک دوسرے کی شرمگاہ سے استمتاع کریں تو پھر اسے مطلقاً حرام کہنا مناسب نہیں البتہ یہ جواز فقط اباحت کے درجے میں ہے، یہ کوئی مرغوب فیہ چیز نہیں اور نہ اسلام میں ایسی کوئی ترغیب موجود ہے۔ اگر ایک شخص کو شہوت یا تسکین اسی طرح آتی ہو تو اس کے لئے یہ فعل کرنے کی گنجائش ہے لیکن اسے عادت بنالینا یا بلا ضرورت ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ فی نفسہ یہ ایک غیر مناسب اور بد تہذیب قسم کا فعل ہے جس میں جانوروں کے فعل کے ساتھ مشابہت ہے لہٰذا اس سے از حد اجتناب کیا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو فتاویٰ میں ہمارے بعض اکابرین نے اس فعل کو مبالغةً اور شدت کی بنا پر مطلقاً حرام قرار دیا ہے تاکہ اس فعل کی قباحت اور شناعت دل میں بیٹھ جائے اور لوگ اسے عادت نہ بنالیں نیز مسلم معاشرہ بھی انگریزوں کی طرح انسانیت کے درجے سے تنزل کرکے حیوانیت میں نہ اتر آئے بہرحال ضرورت کے وقت اگر طرفین کی رضامندی ہو تو یہ فعل کیا جاسکتا ہے ۔(نجم الفتاوی 339/5 )۔
بندے کا سوال یہ ہے کہ یہ جواب کہاں تک صحیح ہے - 1 2-کیا جماع سے قبل زوجین کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو رضامندی کے ساتھ بوسہ لینا یا مص کرنا جائز ہے یا مکروہ تنزیہی جیسا کہ مذکورہ جواب سے مستفاد ہے ۔
برائے مہربانی مذکورہ مسئلہ کا ایک حکم شرعی متعین کریں کہ مذکورہ عمل (شرمگاہ کو بوسہ دینا اور مص کرنا) حرام ہے یا جائز یا مکروہ تحریمی یا تنزیہی؟


جواب # 150188
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 961-922/L=7/1438
شریعت میں جماع کرتے وقت کچھ آداب ہیں، مثلاً: بقدر ضرورت ستر کھولا جائے اس وقت شرمگاہ پر نظر نہ کی جائے، بالکل جانور کی طرح ننگا ہوکر جماع نہ کیا جائے اور تقبیل أحد الزوجین فرج الآخر میں ان آداب کی رعایت ناممکن ہے، پھر زبان جس سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اس سے شرمگاہ کو بوسہ لینا وغیرہ کسی بھی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا، نیز یہ جانوروں کا طریقہ ہے؛ اس لئے بہرصورت ایک مسلمان کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے، باقی اگر کسی نے غلبہ شہوت میں ایسی حرکت کرلی اور شرمگاہ پر نجاست نہیں لگی ہوئی تھی تو ناجائز یا حرام نہیں کہا جائے گا۔

.....................................................................

سوال # 153162
اگر کوئی شخص اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنی بیوی کو بلائے اور اس کی بیوی انکار کردے تو وہ گناہگار ہوتی ہے، اس کے برعکس اگر اس شخص کی بیوی اس سے اپنی خواہش پوری کرنے کا کہتی ہے اور وہ شخص بغیر کسی عذر کے انکار کردے تو کیا وو شخص بھی گناہگار ہوگا؟
۳. اگر وہ شخص کسی عذر مثلاً نیند یا تھکن کی وجہ سے انکار کرتا ہے تو بھی گناہگار ہوگا؟ 
جی نہیں! اگر شوہر بیوی کے تقاضہ پر بلا عذر اس کی خواہش پوری نہ کرے اور بیوی سے صحبت کئے ہوئے کافی دن گذرچکے ہوں تو ایسی صورت میں شوہر گنہگار ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ گاہے گاہے عورت کی جنسی خواہش پوری کرنا دیانتاً شوہر پر واجب ہے، اور اگر آئے دن عورت کا تقاضہ ہوتا ہو تو شوہر بلا عذر انکار کرنے کی صورت میں بھی گنہگار نہ ہوگا۔
لا فی المجامعة کالمحبة بل یستحب، ویسقط حقھا بمرة ویجب دیانة أحیاناً ولا یبلغ مدة الإیلاء إلا برضاھا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب القسم، ۴: ۴: ۳۷۹، ۳۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وانظر الرد أیضاً۔
(۳): اگر شوہر بیوی کے تقاضے پر نیند یا تھکن کی وجہ سے انکار کرتا ہے تو وہ گنہگار نہ ہوگا اگرچہ بیوی سے صحبت کیے ہوئے کئی دن ہوچکے ہوں؛ البتہ اگر صحبت کیے ہوئے کافی دن گذرچکے ہوں تو نیند پوری ہونے یا تھکن دور ہونے کے بعد شوہر کو بیوی کی جنسی ضرورت پوری کرنے میں ٹال مٹول نہیں کرنا چاہیے ۔
قال بعض أھل العلم: إن ترکہ لعدم الداعیة والانتشار عذر (رد المحتار، کتاب النکاح، باب القسم، ۴: ۴: ۳۷۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، نقلاً عن الفتح)۔ 

No comments:

Post a Comment