Wednesday 30 May 2018

قرض پر زکوٰۃ

قرض پر زکوٰۃ
سوال (۵۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا ادھار رقم (جو وصول ہوسکتی ہے) پر بھی زکوٰۃ دینی واجب ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ ادھار رقم بقدر نصاب ہو یا آپ کے پاس رکھی ہوئی رقم سے مل کر نصاب کو پہنچ جاتی ہو تو ادھار رقم وصول ہونے پر گذشتہ زمانہ کی زکوٰۃ دینا لازم ہوگا۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۹؍۳۲۲ ڈابھیل )
ویعتبر لما مضی أي ولا یعتبر الحول بعد القبض بل یعتد بما مضیٰ من الحول قبل القبض۔ (البحر الرائق ۲؍۲۰۷)
ویعتد بما مضی من الحول قبل القبض فی الصحیح من الروایۃ۔ (تاتارخانیہ ۳؍۲۴۶ زکریا، طحطاوی ۳۹۰)
عن سائب بن یزید أن عثمان بن عفان کان یقول: ہذا شہر زکاتکم، فمن کان علیہ دین فلیؤد دینہ، حتی تحصل أموالکم فتؤدون منہ الزکاۃ۔ (الفتاویٰ والتاتارخانیۃ ۳؍۲۴۵ رقم: ۴۲۵۶)فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۹؍۱؍۱۴۱۲ھ
...................
سوال (۵۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص فرم کھولتا ہے، پچاس ہزار روپیہ سے کام شروع کرتا ہے، محنت کرتا ہے، مال کی تیاری کرتا ہے، مال کی تیاری کے بعد باہر انڈیا میں پارٹی کو بھیجتا ہے، روپیہ گھومنے لگتا ہے، سیل ٹیکس بھی دیتا ہے، لینا دینا چل رہا ہے، جب بزنس کرتا ہے تو ہر کسی پارٹی سے لینا دینا ہے اپنے خرچ کوبھی لیتا ہے، روپیہ گھوم رہا ہے، جب سال پورا ہوجاتا ہے تو وہ حساب بناتا ہے،حساب میں رقم جو شروع میں لگائی تھی، پچاس ہزار سال بھر محنت کرنے کے بعد وہ رقم ساٹھ ہزار ہوجاتی ہے، کھاتہ میں رقم ساٹھ ہزار ہوگئی، رقم ہاتھ میں یا بینک میں نہیں ہے، وہ لینے دینے میں گھوم رہی ہے، علماء دین زکوٰۃ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر ہوتی ہے تو کتنی رقم پر ہوتی ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
جو مالِ تجارت آپ کے پاس موجود ہے اس کی قیمت پر اور آپ کا جو روپیہ دوسروں کے پاس ہے جس کی واپسی کی قوی امید ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہوچکی ہے؛ البتہ فرق یہ ہے کہ قبضہ میں موجود مالِ تجارت پر فوراً زکوۃ نکالنا واجب ہے، اور جو روپیہ دوسروں کے پاس ہے اس کے وصول ہونے پر گذشتہ زکوٰۃ نکالنا لازم ہوگا۔
عن اللیث بن سعد أن عبد اللّٰہ بن عباس وعبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قالا: من أسلف مالا فعلیہ زکاتہ فی کل عام، إذا کان فی ثقۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۴۵ رقم: ۴۲۵۶)
فتجب زکوٰتہا إذا تم نصاباً وحال الحول لکن لا فوراً بل عند قبض أربعین درہما من الدین القوي کقرض وبدل مال التجارۃ۔ (درمختار ۲؍۲۰۵ کراچی)
 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۴؍۱۱؍۱۴۱۷ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
ناقل نورالحسن پرتاپ گڑھی
.....
سوال: کسی نے ایک آدمی کو قرض دے رکھا ہے لیکن وہ اس آدمی کے پاس قرض لوٹانے کی طاقت نہیں ہے اور وہ مستحق زکوۃ ہے تو کیا اس  رقم میں  زکوۃ کی نیت کرسکتے ہیں یا نہیں؟

No comments:

Post a Comment