Thursday 31 May 2018

عشاء کی نماز کا وقت

عشاء کی نماز کا وقت
سوال: محترم المقام مفتی صاحب
السلام علیکم 
بعد سلام مسئلہ یہ ہے کہ پشاور میں عشاء کا وقت اوقات صلات کے نقشوں کے مطابق نو بجکر تیرہ منٹ (9:13) پر داخل ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بعض مساجد میں پونے نو (8:45) بجے اذان ہوتا ہے اور نو (9:00) بجے جماعت ہوتی ہے۔ کیا یہ اذان اور نماز ہوجاتی ہے یا اس کی قبل ازوقت ہونے کی وجہ سے اعادہ ضروری ہے؟
جواب: وعليكم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ 
اذان و نماز دونوں نماز کا وقت ہونے کے بعد ہونی چاہئے،
وقت سے پہلے دی ہوئی اذان معتبر نہیں پھر سے دینی ہوگی۔
اور وقت سے پہلے سرے سے نماز ہوگی ہی نہیں اور عشاء نہ ہوئی تو تراویح بھی نہ ہوگی، پس اسطرح ہرگز نہیں کرنا چاہئے
سوال: ویسے مستفتی کو چاہئے سوال مکمل پوچھے.. پوچھنا یہ چاہئے کہ پشاور میں شفق ابیض 15 :9 پر غروب ہوتی ہے جبکہ شفق احمر آدھا گھنٹہ پہلے. تو کیا شفق احمر کے بعد کوئی عشاء کی نماز پڑھے تو ہوجاتی ہے؟
ابو زید السروجی
جواب: صورت مسئولہ میں شفق احمر کے غروب ہوجانے کے بعد عشاء کی نماز ادا کرلینے کی گنجائش ہے عملا بقول الصاحبین فی مواقع العذر وفی اعلاء السنن ۲/۱۱ (طبع ادارۃ القرآن کراچی)، و فی البحر الشفق ھو البیاض عند الامام الی ان قال فثبت ان قول الامام ھو الاصح ولا یعدل عنہ الی قولھما او قول احدھما او غیرھما الا لضرورۃ من ضعف دلیل او تعامل بخلافہ کالمزارعۃ و ان صرح المشایخ بان الفتویٰ علی قولھما کما فی ھذہ المسئلۃ، و فی السراج الوھاج فقولھما اوسع للناس و قول ابی حنیفۃ احوط۔
از فتاوی عثمانی
العبد محمد اسلامپوری
...............
سوال # 19712
مجھے معلوم کرنا تھا کہ مغرب کی نماز کا وقت کب تک رہتا ہے اور عصر کی نماز کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے، کب تک رہتاہے؟
Published on: Mar 6, 2010 
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 420=343-3/1431
آفتاب غروب ہوجانے کے بعد آسمان میں سرخی پچھم کی سمت میں ہوتی ہے، اُس کو شفق احمر کہتے ہیں، وہ ختم ہوتی ہے تو اس کی جگہ سفیدی آتی ہے، اس کو شفق ابیض کہتے ہیں، پھر کچھ دیر بعد وہ بھی غائب ہوجاتی ہے، نماز مغرب کا وقت آفتاب کے غروب ہونے سے لے کر شفق ابیض کے غائب ہونے تک رہتا ہے۔
(۲) ٹھیک زوال کے وقت ہرچیز کا جو سایہ ہوتا ہے، وہ سایہ اصلی کہلاتا ہے جب سورج سمت مغرب میں ڈھلے گا تو یہ سایہ بڑھتا رہے گا، بڑھتے بڑھتے اُس چیز کے دو مثل (علاوہ سایہ اصلی کی مقدارکے) جب سایہ ہوجائے تو عصر کا وقت شروع ہوتا ہے اور اصفرار شمس ہونے پر مکروہ ہوجاتا ہے، پس عصر کی نماز اصفرار (دھوپ کا پیلی اور کمزور ہوجانا) سے اتنی دیر پہلے اداء کرلی جائے کہ اگر نماز فاسد ہوجائے تو اصفرارِ شمس سے پہلے دوبارہ پڑھ لی جائے، اگر اس کے بعد پڑھی تو غروبِ آفتاب تک اگرچہ اداء ہی ہوگی مگر مکروہ ہے، یعنی غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے تکبیر تحریمہ کہہ لی تو اداء ہی کا حکم عصر پر لاگو ہوگا۔ 
....................
سوال # 24528
میں پانچوں نماز کے وقت ختم ہونے کے بارے میں پوچھنا چاہتاہوں، فجر کا وقت تو معلوم ہے، سورج نکلنے سے پہلے، ظہر کا وقت کب تک رہتاہے؟ یعنی عصر کی اذان سے کتنے پہلے تک؟ اور عصر کا وقت مغرب سے کتنے پہلے ختم ہوجاتاہے؟ مغرب کا عشاء سے کتنے پہلے؟ اور عشاء کا وقت کب تک رہتا ہے؟
Published on: Aug 5, 2010
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 1659=1217-8/1431
سایہٴ اصلی کے علاوہ ہرشے کا سایہ دو مثل ہوجانے پر ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے البتہ جب آفتاب بہت نیچا ہوجائے اور دھوپ کمزور اور پیلی پڑجائے تو وقتِ مکروہ داخل ہوجاتا ہے باقی غروب تک وقت اداء ہی ہوتا ہے اور غروبِ آفتاب ہوتے ہی وقتِ مغرب شروع ہوجاتا ہے اور سمتِ پچھم میں شفق احمر (سرخی) رہتی ہے، پھر وہ غائب ہوکر شفق ابیض (سفیدی) آجاتی ہے اس کے غائب ہوجانے پر مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے،اوراس کے بعد عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور ایک تہائی رات تک وقت عشاء مستحب رہتا ہے اور اس کے بعد مباح اور آدھی رات کے بعد مکروہ وقت ہوتا ہے، یہ تفصیل بحساب گردش لیل ونہار اور رفتارِ سورج کو ملحوظ رکھ کر ہے، کتب فقہ وفتاوی میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ لکھ دیا گیا۔ البتہ گھڑی گھنٹوں کے اعتبار سے معتبر نقشوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
..................
سوال # 1866
عشا کی نماز کے لیے بہترین وقت کیا ہے؟ تاخیر ہونے کی صورت میں کب تک عشا کی نماز کی پڑھی جا سکتی ہے؟ فجر سے پہلے اگر دوگھنٹے ہوں تو عشا کی نماز کی پڑھ سکتے ہیں ؟ اگر ہاں ! تو مکمل یا فرض اور وتر؟
Published on: Nov 7, 2007 
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 599/ م= 594/ م
گرمی میں عشاء کی نماز میں تعجیل اولیٰ ہے یعنی عشاء کا وقت شروع ہونے کے بعد اول وقت میں عشاء کی نماز ادا کرلی جائے اور سردی میں تاخیر افضل ہے یعنی وقت شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ادا کی جائے، اور عشاء کی جماعت اتنی تاخیر سے کرنا مکروہ ہے کہ جس کی وجہ سے جماعت فوت ہونے یا تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو، درمختار میں ہے: وتاخیر عشاء إلی ثلث اللیل قیدہ في الخانیة وغیرھا بالشتاء، أما الصیف فیندب تعجیلھا اور تاخیر ہونے کی صورت میں عشاء کی نماز فجر سے پہلے تک پڑھی جاسکتی ہے، یعنی عشاء کی ادا نماز کا وقت مغرب کا وقت ختم ہونے سے لے کر فجر کا وقت شروع ہونے تک ممتد رہتا ہے، کما في الدر المختار: و وقت العشاء والوتر منہ إلی الصبح، وفي رد المحتار: قولہ منہ أي من غروب الشفق علی الخلاف فیہ لہٰذا اگر فجر سے پہلے دو گھنٹے ہوں تو بلاشبہ عشاء کی نماز پڑھ سکتے ہیں اور مکمل نماز پڑھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
............
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں اگر عشاء کی اذان سے پیشتر سو جاؤ پھر عشاء کا وقت باقی ہو، تب آنکھ کھلے، تو بھی عشاء بہرحال قضا ہوگئی، کیونکہ سو کر اٹھنے کے بعد تہجد کا وقت شمار ہوگا؟ اور اب جو عشاء پڑھی تو وہ قضا ہی شمار ہوگی، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: صورت مسئولہ میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عشاء کی اذان سے پیشتر کوئی سو جائے پھرجب آنکھ کھلے تو عشاء کا وقت اگرچہ باقی ہو لیکن اس کی عشاء کی نمازقضاء ہوگئی کیونکہ سوکر اٹھنے سے تہجدکا وقت شمارہوتا ہے تو ان لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ طلوعِ فجر تک عشاء کا آخری وقت باقی رہتا ہے اگر کسی شخص نے عشاء کی نماز نہیں پڑھی اور سوگیا پھر طلوعِ فجر سے پہلے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لے تو وہ نمازادا شمارہوگی ،قضاء شمار نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ عشاء کا آخری وقت ہے۔ البتہ آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے اس لیے آدھی رات سے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لیا کرے تاکہ کراہت نہ ہو۔ 
فقط واللہ اعلم

No comments:

Post a Comment