Sunday 13 May 2018

ستر ہزار پردوں کا فاصلہ

ستر ہزار پردوں کا فاصلہ
واٹس ایپ اور فیس بک پر ایک بات بہت مشہور ھے اسکی کیا حقیقت ھے؟
   ⬅ کہ ایک بار حضرت موسی نے ﷲ سے پوچھا کہ: جتنا میں آپ سے قریب ہوں " آپ سے بات کرسکتا ہوں اتنا کوئی اور بہی آپ کے قریب ھے؟
  ﷲ نے فرمایا کہ: اے موسی! آخری زمانے میں ایک امت آئیگی- وہ امت محمدیہ ہوگی- اور اس امت کو ایک ماہ ایسا ملیگا جس میں وہ سوکھے ہونٹوں، پیاسی زبان، سوکھی ہوئی آنکھیں، اور بھوکے پیٹ کے ساتھ جب افطار کرنے بیٹھے گی، تب میں ان کے بہت قریب رہونگا،
موسی! تمہارے اور میرے بیچ میں ستر ہزار پردوں کا فاصلہ ھے؛ لیکن افطار کے وقت اُس امت اور میرے درمیان ایک بھی پردے کا فاصلہ نہیں ھوگا۔
اور وہ جو دعایئں مانگیں گے، اسے قبول کرنا میری ذمہ داری رہیگی۔
اگر میرے بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ھے تو وہ سب تمنا کرتے کہ کاش پورا سال رمضان ہی ہو!!
باسمہ تعالی
الجواب وبہ التوفیق:
یہ روایت دو باتوں پر مشتمل ھے:
1⃣ حضرت موسی علیہ السلام اور ﷲ تعالی کے درمیان ستر ہزار حجابات کا حائل ہونا اور امت محمدیہ و خدا تعالی کے درمیان بوقت افطار ایک بہی پردے کا نہ ہونا.
2⃣ افطار کے وقت مانگی جانیوالی دعا کا قبول ہونا۔
➗➗➗➗➗➗➗
⚫ پہلی بات کی تحقیق:
  یہ بات ہمارے عقیدے کے لحاظ سے قطعا درست نہیں ھوسکتی؛ کیونکہ اس میں ایک عظیم القدر، جلیل الشان رسول و پیغمبر کی تقصیر لازم آرھی ھے؛ کیونکہ امتی خواہ کسی بھی امت کا ہو؛ لیکن وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے مراتب اور درجات میں نہیں بڑھ سکتا ھے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو حضرت ابوبکر صدیق رض سے زیادہ اس رتبے کا مستحق کوئی نھیں تھا؛ لیکن وہ پھر افضل البشر بعد الانبیاء (انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد افضل ترین بشر) ہیں۔ 
تو ایک عام امتی روزہ رکھ کر حضرت موسی علیہ السلام سے کس طرح بڑھ سکتا ھے؟
لہذا اب یہی کہا جائیگا کہ اس بات کا بیان کرنا یا نشر کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں۔
  ◾مذکورہ روایت کا ماخذ:
  یہ روایت بلا سند مشہور مؤرخ و ادیب "عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری الشافعی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب•• « نزهة المجالس و منتخب النفائس »•• میں  رمضان کی فضیلت اور اس ماہ میں اعمال صالحہ کی ترغیب کے تحت ذکر کی ھے.
 نزهة المجالس كي اصل عبارت:
◀"أن موسى عليه الصلاة والسلام قال: يا رب! لقد شرفتني بالتكلم معك بلا ترجمان , فهل أعطيت هذا الشرف لغيري؟ فيقول الله سبحانه وتعالى : يا موسى ! سوف أرسل أمة من الأمم - والتي هي أمة محمد صلى الله عليه وسلم - وهم ذو شفاه وألسن جافة , وأجسام نحيلة هزيلة، وسوف يدعونني فيكونوا أقرب إلي منك . يا موسى ! بينما أنت تتكلم معي ، هناك 70000 حجاب بيني وبينك' لكن عند وقت الإفطار سوف لن يكون هناك أي حجاب بيني وبين أمة محمد صلى الله عليه وسلم "
يا موسي طوبي لمن اعطش كبده واجاع بطنه في رمضان.
وقال كعب الاحبار: اوحي الله الي موسي اني كتبت علي نفسي ان ارد دعوة صائم رمضان.
(نزهة المجالس/1.ص:165)
2⃣ مذکورہ بات کا دوسرا جزء:
  روزے دار کی دعا کا افطار کے وقت قبول ہونا
  یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ھے کہ: روزے دار کی دعا بوقت افطار قبول کی جاتی ھے، رد نہیں کیجاتی ھے۔
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الإِمَامُ العَادِلُ، وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِر، وَدَعْوَةُ المَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے (ایک طویل حدیث) میں مروی ھے کہ: تین لوگوں کی دعا رد نہیں کیجاتی،
1) انصاف پرور بادشاہ کی،
2) روزے دار کی جب وہ افطار کرے،
3) مظلوم کی دعا جب وہ اللہ سے گہار لگائے تو اسکی دعا بادلوں سے اوپر جاتی ھے, جسکی وجہ سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں, اور ﷲ تبارک و تعالی قسم کہاکر اسکی مدد اور فریاد رسی کا وعدہ کرتے ہیں.
المصدر: جامع الترمذی
المحدث: ابوعیسی الترمذی
الراوی: ابوہریرة
المجلد: 4
الصفحة: 672
رقم الحدیث: 2526
خلاصةحکم المحدث: صحیح
مکان الطبع: شرکة و مطبعة مصطفی البابی الحلبی، مصر.
والله تعالي اعلم
كتبه: محمد عدنان وقار صديقی
...........
کیا یہ صحیح ہے کہ افطاری کے وقت اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان سے حجاب ہٹ جاتا ہے؟
سوال: روزے کی فضیلت سے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ: (موسی علیہ السلام نے کہا: پروردگار! آپ نے مجھے بلا ترجمان شرفِ گفتگو بخشا ہے، تو کیا یہ مقام میرے علاوہ کسی اور کو بھی عطا کیا ہے؟ اللہ تعالی فرماتے ہیں: موسی! میں ایک امت بھیجوں گا -یعنی امت محمدیہ جب ان کے ہونٹ اور زبانیں خشک ہوں گی، ان کے جسم کمزور اور نحیف ہو چکے ہوں گے، وہ جب مجھے پکاریں گے تو وہ تم سے بھی زیادہ میرے قریب ہوں گے۔ موسی! جس وقت تم میرے ساتھ محوِ کلام تھے اس وقت میرے اور تمہارے درمیان 70000 پردے تھے، لیکن افطاری کے وقت میرے اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی بھی پردہ نہیں ہوگا) تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ یہ انٹرنیٹ پر بہت زیادہ مشہور ہو چکی ہے۔
Published Date: 2017-06-07
الحمد للہ: یہ حدیث سنت نبویہ میں موجود نہیں ہے، نہ ہی اس حدیث کو حفاظِ حدیث  اور محدثین کرام اپنی مسانید  اور کتب حدیث میں ذکر کرتے ہیں، اسے نقل کرنے والوں میں صرف وہی لوگ شامل ہیں جنہوں نے اپنی کتابیں  من گھڑت، جھوٹے واقعات اور خرافات سے بھری ہوئی ہیں، مثلاً: ایک کتاب جس کا نام ہے: "نزهة المجالس ومنتخب النفائس" از مؤرخ اور ادیب عبد الرحمن بن عبد السلام صفوری (متوفی سن 894 ہجری) نے اس کتاب کے صفحہ: (182-183)  میں عنوان قائم کیا ہے: "باب فضل رمضان والترغيب في العمل الصالح فيه" اور اسی روایت کو نقل کیا ہے۔
اسی طرح تفسیر "روح البیان" صفحہ: (8/112) از اسماعیل حقی، حنفی، خلوتی (متوفی سن 1127 ہجری) میں بھی سائل کے سوال سے مماثلت رکھتی ہوئی بات موجود ہے، اس میں ہے کہ: (موسی علیہ السلام نے کہا: پروردگار! آپ نے مجھے براہِ راست گفتگو کا شرف بخشا تو کیا ایسا مقام آپ نے کسی اور کو بھی دیا ہے؟ تو اللہ تعالی نے وحی کرتے ہوئے فرمایا: موسی! میرے کچھ بندے ہیں جن کو میں آخری زمانے میں پیدا کروں گا اور انہیں ماہ رمضان عطا فرماؤں گا تو میں تم سے زیادہ ان کے قریب ہوں گا؛ کیونکہ جب تم نے مجھ سے بات کی تھی تو میرے اور تمہارے درمیان 70000  پردے تھے، لیکن جب امت محمدیہ روزے رکھے گی اور ان کے ہونٹ سفید ہو چکے ہوں گے، ان کے رنگ پیلے پڑ چکے ہوں گے تو میں افطاری کے وقت اپنے حجابوں کو  اٹھا دوں گا، موسی! اس شخص کیلیے خوشخبری ہے جس کا رمضان میں جگر پیاسا ہو اور پیٹ بھوکا ہو)
نیز اس کے متن میں بھی غیر مناسب عبارت ہے وہ یہ ہے کہ: "تو میں تم [موسی علیہ السلام] سے زیادہ ان کے قریب ہوں گا." اور یہ مسلمانوں کے عقائد میں مسلمہ بات ہے کہ تمام انبیائے کرام اور رسول (علیہم الصلوۃ والسلام) دیگر تمام لوگوں سے افضل ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اولو العزم پیغمبر موسی علیہ السلام سے زیادہ کوئی امت اللہ کے قریب ہو جائے؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی موسی علیہ السلام کی بجائے بندوں کے زیادہ قریب ہو! حالانکہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے بارے میں ہی فرمایا ہے کہ: 
(وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا)
ترجمہ: اور ہم نے انہیں طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور سر گوشی کرتے ہوئے انہیں قریب کرلیا۔ [مريم:52]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: 
"اللہ تعالی نے انہیں اتنا قریب کرلیا کہ [تورات کی کتابت کیلئے] قلم کے چلنے کی آواز بھی  سن لی" دیکھیں تفسیر ابن کثیر: (5/237)
تو خلاصہ یہ ہوا کہ سوال میں مذکور حدیث کسی بھی معتمد حدیث کی کتاب میں موجود نہیں ہے، بلکہ اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کرنا بھی  جائز نہیں ہے؛ نیز اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر ایمان رکھنا اور اسے صحیح سمجھنا بھی جائز نہیں۔
واللہ اعلم.
................
ليس هذا الحديث من السنة النبوية، وليس هو مما يعرفه الحفاظ والمحدثون في كتبهم ومسانيدهم، ولا تتناقله إلا بعض الكتب التي ملأها أصحابها بالموضوعات والمكذوبات والقصص والخرافات، كتاب "نزهة المجالس ومنتخب النفائس" للمؤرخ الأديب عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوري، المتوفى سنة (894هـ)، ص/182-183 باب فضل رمضان والترغيب في العمل الصالح فيه "، وكذلك في تفسير "روح البيان" (8/112) لإسماعيل حقي الحنفي الخلوتي المتوفى سنة (1127هـ)، فقد ذكرا نحو هذا الحديث الذي يقصده السائل، حيث جاء فيه: (قال موسى عليه السلام: يا رب! أكرمتني بالتكليم، فهل أعطيت أحداً مثل ذلك؟ فأوحى الله تعالى: يا موسى! إن لي عباداً أخرجهم في آخر الزمان وأكرمهم بشهر رمضان فأكون أقرب لأحدهم منك ؛ لأنك كلمتني وبيني وبينك سبعون ألف حجاب، فإذا صامت أمة محمد صلى الله عليه وسلم حتى ابيضت شفاههم ، واصفرت ألوانهم، أرفع الحجب بيني وبينهم وقت إفطارهم . يا موسى! طوبى لمن عطش كبده، وأجاع بطنه في رمضان) 
ثم إن في متن هذا الحديث ما يدل على نكارته ، وذلك في قوله في الحديث (فأكون أقرب لأحدهم منك – يعني موسى عليه السلام)، والمعلوم في عقائد المسلمين أن الرسل والأنبياء أفضل من جميع البشر سواهم، فكيف وموسى عليه السلام من أولي العزم من الرسل، فكيف يتقرب الله إلى عباده أكثر من نبيه موسى عليه السلام، وقد قال في حقه جل وعلا: (وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا) مريم/52، قال ابن عباس رضي الله عنهما: "أُدنيَ حتى سمع صريف القلم" – يعني بكتابة التوراة -. انظر: "تفسير القرآن العظيم" للحافظ ابن كثير (5/237).
والخلاصة: أن هذا الحديث المذكور ليس في شيء من الكتب المعتمدة، ولا يجوز نسبته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا اعتقاد ما فيه. 
والله أعلم .

1 comment:

  1. " روح البيان " (8/112)
    8 سے کیا مراد جلد یا پارہ

    ReplyDelete