Friday 18 May 2018

گھر میں تراویح پڑھنے کے احکام

گھر میں تراویح پڑھنے کے احکام
السلام عليكم
سلام کے بعد عرض یہ ھے کہ رمضان المبارک میں تراویح کا کیا حکم ھے. اگر کوئی اپنے گھر والوں کو تراویح میں قرآن پڑھاتا ھے تو اسکا کیا حکم ھے فرض نماز مسجد میں پڑھنا چاہئے یا اپنے گھر میں؟
جواب کا منتظر
الجواب وبالله التوفيق: 
وعليكم السلام ورحمة اللہ علیہ
عشاء کی فرض نماز کی جماعت گہر میں کرنے کی صورت میں مسجد کی فضیلت اور برکات سے محرومی ہوگی. لہذا فرض نماز مسجد میں پڑھنی چاہئے رمضان میں حفاظ کی کثرت کی وجہ سے اس بات کی گنجائش ہے کہ اپنے گھر میں یا کسی حال وغیرہ میں تراویح پڑھاسکتا ہے البتہ عشاء کی فرض نماز مسجد میں ہی ادا کرے. 
واللہ اعلم بالصواب
........
مرد امام کا عورتوں کو تراویح پڑھانا  
سوال: کیا مستورات کی تراویح جماعت کے ساتھ ہوسکتی ہے؟ اس طرح پر کہ امام بالغ مرد ہو. اور اسکے ساتھ کچھ بالغ مقتدی مرد ہوں. پھر چادر کا پردہ ہو. اس کے پیچھے عورتوں کی صف ہو .... کیا اس طرح عورتوں کی تراویح جماعت کے ساتھ جائز ہے؟
جواب: جی گھر میں اس طرح کررہے ہیں تو درست ہے اور امام عورتوں کی مامت کی نیت بھی کرلیوے
واللہ اعلم بالصواب
.....
حافظ کی محرمات بھی عورتوں کی صف میں شامل ہوں. تو دیگر مستورات پردہ کی رعایت کے ساتھ شریک ہوسکتی ہیں تاہم ان کا اپنے گھروں میں انفرادا تراویح پڑھنا زیادہ بہتر ہے.
.....
سوال # 17517
پوچھنا یہ ہے کہ آج کل کراچی کے بہت سے علاقوں میں رمضان میں خواتین کی تراویح ہورہی ہے،
مختلف مختلف انداز میں جیسے کہ 
(۱) کسی حافظ کو امام بنادیا اورخواتین نے اپنی جماعت کرکے تراویح ادا کی۔ 
(۲) کسی نابالغ کم عمر بچے کو امام بنادیا اس کے پیچھے خواتین تراویح ادا کررہی ہیں۔ 
(۳) کچھ مسجد میں بھی خواتین کے لیے تراویح کا انتظام ہورہا ہے۔ نیچے اصل ہال میں امام صاحب تراویح ادا کررہے ہیں اور پیچھے مرد حضرات کھڑے ہیں جب کہ خواتین کے لیے مسجد کے اوپر والے حصہ میں انتظام ہے۔ 
(۴) کچھ جگہیں گھر کے اندر اس طرح تراویح ادا کی جارہی ہے کہ اما م صاحب جو کہ بالغ ہیں تراویح پڑھا رہے ہیں، پیچھے مرد پڑھ رہے ہیں او رگھر کے دوسرے کمرے میں یا پردہ لگا کر مردوں کے پیچھے خواتین تراویح ادا کررہی ہیں۔ ایا یہ سب باتیں صحیح ہیں یا اس میں کچھ گنجائش ہے یا ان میں سے کوئی بھی طریقہ صحیح ہے؟ خواتین کو نماز تراویح کس طرح ادا کرنا صحیح ہے اور کس طرح صحیح نہیں اور اس میں کیا کچھ گنجائش ہے؟
Published on: Nov 16, 2009 
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی (د):2098=1672-11/1430
(الف) خواتین کو نماز تراویح انفراداً گھر پر ادا کرنا چاہیے، جب فرائض کی جماعت کے لیے انھیں مسجد جانے کی اجازت نہیں ہے تو تراویح کے لیے کس طرح ہوسکتی ہے۔ 
(ب) مرد امام کے پیچھے اس کی محرم عورتیں تراویح پڑھ سکتی ہیں۔
(۱) جہاں صرف نامحرم عورتیں
ہوں اس جگہ تنہا امام غیرمحرم کا نماز پڑھانا سخت مکروہ ہے، 
قال في الدر: تکرہ إمامة الرجل لمن في بیت لیس معہن رجل غیرہ ولامحرم منہ کأختہ․ (شامي: ۱/۴۱۹)
(۲) نابالغ کی امامت درست نہیں
ہوتی، اس کے پیچھے نماز نہیں ادا ہوگی۔
(۳) جب فرائض کے لیے عورتوں
کو مسجد آنے کی اجازت نہیں ہے تو تراویح کے لیے کس طرح ہوگی، پس یہ طریقہ بھی مکروہ ہوا۔
(۴) یہ طریقہ درست ہے بشرطیکہ
مرد لوگ اپنی فرض مسجد میں پڑھ کر آئیں، ورنہ عشا کی نماز غیرمسجد میں پڑھنے سے ان کے ثواب میں کمی رہے گی۔ نیز دوسری غیرمحرم عورتوں کے آنے میں کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، عورتوں کو جواب میں مذکور طریقہ (الف) کے مطابق تراویح ادا کرنا چاہیے۔ (ب) طریقہ جائز ہے۔ نمبر1، 2، 3، منع ہے۔ نمبر 4 کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
...........................
سوال: کیا عورتیں تراویح پڑھاسکتی ہیں؟ جبکہ عورت کو مائیک میں نہیں پڑھانا ہے اور آؤاز بھی باہر نہیں جاتی اور پڑھنے والی بھی سب عورتیں ہیں؟
الجواب حامداً ومصلیا:
عورتوں کو گھروں میں اکیلے اکیلے نمازِ تراویح ادا کرنے کا حکم ہے،اس لئے عورتوں کو اکیلے اکیلے نمازِتروایح ادا کرنی چاہیے،جماعت سے بچنا چاہیےکیونکہ ان کے حق میں جماعت مکروہ تحریمی ہے تاہم اگر کوئی عورت حافظہ ہو اور اس کے لئے تراویح میں سنائے بغیر قرآن ِ کریم یاد رکھنا مشکل ہو تو چونکہ قرآن پاک کو بھلادینا بڑا گناہ ہے  اس لئے اس گناہ سے بچنے اور قرآن ِ کریم کو یاد رکھنے کی غرض سے مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدّس سرّہ حافظہ عورت کے لئے بلا تداعی ( بغیر اعلان کے ) صرف گھرکی خواتین کو با جماعت تراویح پڑھانے کی اس شرط کے ساتھ اجازت دیا کرتے تھے کہ حافظہ عورت کی آواز گھر سے باہر نہ جائے اور تداعی سے پرہیز کیا جائے ۔ تداعی کا مطلب یہ ہے کہ :
(الف)    اس کے لئے باقاعدہ اہتمام کر کے خواتین کو نہ بلایا جائے ۔
( ب )   اگر چہ اہتمام سے خواتین کو نہ بلایا جائے ، لیکن اقتداء کرنے والی خواتین صرف حافظہ کے گھر کی ہوں ، باہر سے آکر شریک نہ ہوں۔لیکن اقتداء کرنے والی خواتین کی تعدادقرآن سنانے والی خاتون کے علاوہ دو یا تین سے زیادہ نہ ہو۔
لہٰذا جہاں تک ہو سکے حافظہ خواتین کو بھی تراویح کی جماعت سے پرہیز کرنا چاہیے  البتہ بوقت ِ ضرورت درج بالا شرائط کے ساتھ مذکورہ گنجائش پر عمل کیا جا سکتا ہے البتہ عورت جب امام ہوتو وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی  مرد امام کی طرح آگے کھڑی نہیں ہوگی ۔( کذا فی التبویب : 1466/62)
=================
الدر المختار – (2 / 43)
(التراويح سنة) مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا.
=================
الدر المختار (1/ 565)
(و) يكره تحريما (جماعة النساء) ولو التراويح في غير صلاة جنازة (لأنها لم تشرع مكررة) ، فلو انفردن تفوتهن بفراغ إحداهن ولو أمت فيها رجالا لا تعاد لسقوط الفرض بصلاتها إلا إذا استخلفها الإمام وخلفه رجال ونساء فتفسد صلاة الكل (فإن فعلن تقف الإمام وسطهن) فلو قدمت أثمت إلا الخنثى فيتقدمهن (كالعراة) فيتوسطهم إمامهم. ويكره جماعتهم تحريما فتح.
=================
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 565)
(قوله ويكره تحريما) صرح به في الفتح والبحر (قوله ولو في التراويح) أفاد أن الكراهة في كل ما تشرع فيه جماعة الرجال فرضا أو نفلا (قوله لأنها لم تشرع مكررة إلخ)۔۔۔۔۔ (قوله تقف الإمام)۔۔۔۔۔۔(قوله وسطهن)۔۔۔۔۔۔(قوله فلو تقدمت) أثمت. أفاد أن وقوفها وسطهن واجب كما صرح به في الفتح، وأن الصلاة صحيحة، وأنها إذا توسطت لا تزول الكراهة، وإنما أرشدوا إلى التوسط لأنه أقل كراهية من التقدم كما في السراج بحر (قوله فيتقدمهن) إذ لو صلى وسطهن فسدت صلاته بمحاذاتهن له على تقدير ذكورته ح أي وتفسد صلاتهن أيضا (قوله فيتوسطهم إلخ) أشار به إلى أن التشبيه بين العراة والنساء ليس من كل وجه بل في الانفراد وقيام الإمام في الوسط وإلا فالعراة يصلون قعودا وهو أفضل والنساء قائمات كما في البحر.
=================
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (1/ 372)
(قوله وجماعة النساء) أي وكره جماعة النساء؛ لأنها لا تخلو عن ارتكاب محرم وهو قيام الإمام وسط الصف فيكره كالعراة كذا في الهداية وهو يدل على أنها كراهة تحريم؛ لأن التقدم واجب على الإمام للمواظبة من النبي – صلى الله عليه وسلم – عليه وترك الواجب موجب لكراهة التحريم المقتضية للإثم ويدل على كراهة التحريم في جماعة العراة بالأولی۔۔۔۔۔۔(قوله فإن فعلن تقف الإمام وسطهن كالعراة) لأن عائشة – رضي الله عنها – فعلت كذلك وحمل فعلها الجماعة على ابتداء الإسلام ولأن في التقدم زيادة الكشف وأراد بالتعبير بقوله تقف أنه واجب فلو تقدمت أثمت كما صرح به في فتح القدير والصلاة صحيحة فإذا توسطت لا تزول الكراهة وإنما أرشدوا إلى التوسط؛ لأنه أقل كراهية من التقدم كذا في السراج الوهاج، ولو تأخرت لم يصح الاقتداء بها عندنا لعدم شرطه وهو عدم التأخر عن المأموم.
=================
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 304)
“و” كره جماعة “النساء” بواحدة منهن ولا يحضرن الجماعات لما فيه من الفتنة والمخالفة “فإن فعلن” يجب أن “يقف الإمام وسطهن” مع تقدم عقبها.
=================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی
.......
گھر میں تراویح سے پہلے عشاء کی نماز گھر میں پڑھنا
آج کا سوال نمبر ١۳۶۰
آج کل بعض جگہ ٣ یا ۵ پارے کی تراویح گھر میں یا عبادت خانے میں ہونے لگی ہے تو اس صورت میں عشاء پڑھنے مسجد زیادہ دور نہ کے باوجود وہیں گھر عبادت خانے میں پڑھنا کیسے ہے؟
جواب:
حامدا و مصلیا و مسلما
صورت مسئولہ میں مسجد چھوڑ کر گھر یا عبادت خانے میں ہی عشاء کی جماعت کرنے میں مسجد کی فضیلت، ثواب اور اس کے فوائد اور برکات سے محرومی ہوگی، لہٰذا عشاء کی نماز مسجد ہی میں پڑھنی چاہیے،
مسائل تراویح صفہ ۴۳ سے اور
فضائل نماز سے ماخوذ
واللہ اعلم بالصواب
مفتی عمران اسماعیل میمن حنفی
استاذ دار العلوم رام پورہ سورت گجرات ہند

GHAR ME TARAWEEH SE PEHLE SE ISHAA KI JAMAAT GHAR ME KARNA
AAJ KA SAWAL NO.1360
Aaj kal baaz jaga 3 ya 5 pare ki taraweeh ghar me ya ibadat khane me hone lagi hai to us surat me isha parhne masjid zayada door na hone ke ba wujood wahin ghar, ibadat khane me parhna ksisa hai?
JAWAB
حامدا و مصلیا و مسلما
Puchhi hui surst me masjid chhodkar ghar ya ibadat khane me hi isha ki jamaat karne me masjid ki fazeelat, sawab aur us ki fawaid aur barkaat se mahroomi hogi lihaza ishaa ki namaz masjid hi me padhni chahiye.
MASAILE TARAWEEH SAFA 43 SE AUR
FAZAILE NAMAZ SE MAKHOOZ
و الله اعلم بالصواب
Mufti Imran Ismail Memon hanafi chisti.
Ustaad e daarul uloom Rampura surat, Gujarat, India.
http://www.aajkasawal.page.tl
http://www.aajkasawalgujarati.page.tl
http://www.aajkasawalhindi.page.tl
Telegram channel :
Https://t.me/AajKaSawalJawab
घर में तरावीह से पहले से ईशा की जमात घर में करना
आज का सवाल नो.१३६०
आज कल बाज़ जगा ३ या ५ पारे की तरावीह घर में या इबादत खाने में होने लगी है, तो उस सूरत में ईशा पढ़ने मस्जिद ज़यादा दूर न होने के बा वुजूद वहीँ घर, इबादत खाने में पढ़ना केसा है?
जवाब
حامدا و مصلیا و مسلما
पूछी हुई सुरत में मस्जिद छोड़कर घर या इबादत खाने में ही ईशा की जमात करने में मस्जिद की फ़ज़ीलत सवाब और उस की फवाइद और बरकात से महरूमी होगी लिहाज़ा ईशा की नमाज़ मस्जिद ही में पढ़नी चाहिए.
मसाइल तरावीह सफा ४३ से और
फ़ज़ाइले नमाज़ से माखूज़.
و الله اعلم بالصواب
मुफ़्ती इमरान इस्माइल मेमन
उस्ताज़े दारुल उलूम रामपुरा, सूरत, गुजरात, इंडिया.
http://www.aajkasawal.page.tl
http://www.aajkasawalhindi.page.tl
http://www.aajkasawalgujarati.page.tl
गुज.हिंदी उर्दू पर्चों के लिए
www.deeneemalumat.net
ઘર મેં તરાવીહ સે પહેલે ઇશા કી જમાત ઘર મેં કરના
આજ કા સવાલ નં. ૧૩૬૦
આજકલ બાઝ જગહ ૩ યા ૫ પારે કી તરાવીહ ઘર મેં યા ઇબાદતખાને મેં હોને લગી હૈ  તો ઉસ સૂરત મેં ઇશા પળ્હને મસ્જીદ ઝયાદા દૂર ના હોને કે બાવજુદ વહિં ઘર, ઇબાદત ખાને મેં પળ્હના કૈસા હૈ..?
જવાબ
حامدا و مصلیا و مسلما
પુછી હુઇ સૂરત મેં મસ્જીદ છોડકર ઘર યા ઇબાદતખાને મેં હી ઇશા કી જમાત કરને મેં મસ્જીદ કી ફઝીલત, સવાબ ઔર ઉસકે ફવાઇદ ઔર બરકાત સે મહરૂમી હોગી, લિહાઝા ઇશા કી નમાઝ મસ્જીદ હી મેં પળ્હની ચાહિયે.
મસાઇલે તરાવીહ સફા ૪૩ સે ઔર
ફઝાઇલે નમાઝ સે માખુઝ
و الله اعلم بالصواب
મુફતી ઇમરાન ઇસ્માઇલ મેમણ, હનફી, ચિશ્તી
ઉસ્તાદે દારૂલ ઉલુમ રામપુરા, સુરત, ગુજરાત, ભારત
www.aajkasawal.page.tl
Telegram channel :
Https://t.me/AajKaSawalJawab

سوال # 38257
سوال یہ ہے کہ 
(۱) اگر کوئی شخص گھر میں نماز پڑھا رہا ہو جیسا کہ رمضان میں گھروں میں تراویح ہوتی ہے تو وہیں پر صرف عشاء کی نماز بھی ہوتی ہے باقی ۴ نمازیں مسجد میں ہی پڑھی جاتی ہیں اور وہاں پر مسجد سے اذان کی آواز بھی آتی ہو تو کیا گھر میں بھی اذان دینا ضروری ہے یا اذان کے بغیر صرف جماعت کرلیں؟ 
(۲) نیز گھر میں غیر محرم نماز جماعت سے کس طرح پڑھے گی؟ یعنی امام نیت کس طرح کریگا؟ 
(۳) اسی طرح اگر کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو کیا وہ اذان اور اقامت خود کہے گا اور خود اکیلا نماز پڑھیگا یا اذان اقامت کی ضرورت نہیں ہے؟ 
(۴) اسی طرح قضا نماز میں بھی اذان اقامت کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟
(۵) وتر کی نماز کی نیت میں وقت عشاء کا کہنا درست ہے یا نہیں یا واجب اللیل کہنا ضروری ہے یا دونوں طرح نیت کر سکتے ہیں ؟
(۶) اگر کوئی شخص عصر کی نماز میں بھول سے عشاء کی نیت بول دیا پھر اسے خیال آیا تو اس نے بغیر سلام پھیرے اسی حالت میں دوبارہ زبان سے عصر کی نیت کر لی اور بغیر ہاتھ اٹھاے اللہ اکبر کہ دیا تو کیا اس سے عصر کی نماز ہو جائے گی یا ہاتھ کا اٹھانا ضروری ہے؟ اور کیا اس پر عشاء کی نماز واجب ہو گئی نیت کی وجہ سے؟
Published on: Apr 15, 2012 
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 143-167/N=5/1433
(۱) تمام فرض نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا سنت موٴکدہ ہے، مسجد کی جماعت چھوڑکر گھر میں جماعت کرنا مکروہ ہے، مسجد کی جماعت چھوڑنے کا گناہ ہوگا اس لیے جو لوگ رمضان میں گھر میں تراویح پڑھنے کی صورت میں عشاء کی نماز بھی گھر ہی میں پڑھ لیتے ہیں، مسجد کی جماعت چھوڑدیتے ہیں ان کا یہ عمل صحیح نہیں۔ ہاں اگر کسی عذر شرعی مثلاً سخت بارش وغیرہ کی وجہ سے گھر کے مرد حضرات مسجد نہ جاسکتے ہوں جس کی بنا پر گھر ہی میں نماز باجماعت ادا کرنا چاہیں تو اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ مسجد کی اذان وقامت کافی ہے، اذان واقامت کے بغیر جماعت کرسکتے ہیں لیکن مستحب یہ ہے کہ اذان واقامت کے ساتھ جماعت کی جائے قال في الدر (مع الرد، کتاب الصلاة باب الأذان: ۲/۶۳، ط: زکریا دیوبند): وکرہ ترکہما معًا․․․ بخلاف مصل ولو بجماعة في بیتہ بمصر أو قریة لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ: لأن أذان المحلة وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ․․․ اھ وقال في الہدایة (کتاب الصلاة، باب الأذان: ۱/ ۷۶)؛ فإن صلی في بیتہ في المصر یصلي بأذان وإقامة لیکون الأداء علی ہیئة الجماعة وإن ترکہما جاز․․․ اھ
(۲) عورتوں کے لیے افضل وبہتر یہی ہے کہ وہ گھروں میں اپنی اپنی نمازیں پڑھیں، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ان کے حق میں افضل نہیں، اور اگرمردوں کے ساتھ جماعت میں شامل ہونا ہی چاہیں تو پردہ کی آڑ کے ساتھ ان کی شرکت درست ہے، بشرطیکہ امام ان کی بھی نیت کرے، اور امام نیت یہ کرے گا کہ میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی امام ہوں۔
(۳) اگر منفرد مسافر ہے اور جنگل میں نماز ادا کررہا ہے تو اذان واقامت دونوں کہنا مستحب ہے، اور صرف اقامت پر اکتفاء کرنا بھی جائز ہے، اور اطمینان وسکون کی حالت اذان واقامت دونوں چھوڑدینا خلافِ اولیٰ ہے، 
قال في الہدایة (کتاب الصلاة باب الأذان: ۱/۷۶): والمسافر یوٴذن ویقیم فإن ترکہما جمیعا یکرہ ولو اکتفی بالإقامة جاز اھ 
اور اگر گھر میں نماز ادا کررہا ہے تو محلہ کی اذان واقامت کافی ہے، لیکن پھر بھی اذان واقامت کہہ لینا مستحب ہے، اور اگر کسی مسجد میں جماعت ہوجانے کے بعد نماز ادا کررہا ہے تو بغیر اذان واقامت دونوں کہہ لینا مستحب ہے۔ اور اگر کسی مسجد میں جماعت ہوجانے کے بعد نماز ادا کررہا ہے تو بغیر اذان واقامت کے نماز پڑھے گا، اس کے لیے اذان واقامت کہنا مکروہ ہے۔ 
قال في الدر (مع الرد کتاب الصلاة باب الأذان: ۲/۶۳، ط: زکریا دیوبند): وکرہ ترکہما معا․․․ بخلاف․․․ مصل في مسجد بعد صلاة جماعة فیہ بل یکرہ فعلہما اھ․
(۴) قضا نماز اگر جماعت کے ساتھ یا آبادی سے دور ادا کی جائے تو اذان واقامت کہنا مسنون ہے اور اگر گھر میں اکیلے ادا کی جائے تو محلہ کی اذان واقامت کافی ہے، لیکن پھر بھی اذان واقامت دونوں کہہ لینا مستحب ہے، 
قال في الدر (مع الرج کتاب الصلاة باب الأذان: ۲/۵۷، ط: زکریا دیوبند): ویسن أن یوٴذن ویقیم لفائتة رافعا صوتہ لو بجماعة أو صحراء أو بیتہ منفردًا اھ․
(۵) نماز وتر کی نیت میں وقت عشا کہہ سکتے ہیں، ضروری نہیں 
قال في رد المحتار (کتاب الصلاة باب شروط الصلاة: ۲/۹۸، ط: زکریا دیوبند): وفي الأشباہ الخطأ فیما لا یشترط لہ التعیین لا یضر کتعیین مکان الصلاة وزمانہا․․․ اھ 
اور اگر وتر واجب یا واجب اللیل کہیں تو یہ بھی جائز ہے، بلکہ حنفی کو وتر واجب کہنا چاہیے کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وتر کی نماز واجب ہے 
قال في رد المحتار (کتاب الصلاة باب شروط الصلاة: ۲/۹۵-۹۷): ولا بد من التعیین عند النیة․․․ لفرض ․․․ وواجب أنہ وتر اھ وفي الرد: قولہ: ”أنہ وتر“: لأنہ إن کان حنفیا ینبغي أن یونویہ لیطابق اعتقادہ اھ․
(۶) ایسی صورت میں دوبارہ نیت کی ضرورت نہیں تھی، عصر کی نماز میں اگر سہواً عشا کہہ دے تو اس میں کچھ حرج نہیں، اور جو صورت آپ نے اختیار کی نماز اس میں بھی ہوگئی، اور نیت عصر میں عشا کہہ دینے سے عشا کی نماز فرض یا واجب نہیں ہوئی، وہ تو عشا کا وقت آنے پر ہی فرض ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
..............
نور الایضاح کے حاشیہ میں بعض کا قول نقل کیا گیا ہے اور اسی طرف صاحب قدوری بھی کہتے ہیں کہ تراویح سنت ہے اور جماعت کرنا مستحب ہے 
.................
جماعت سنت علی الکفایہ ہے تراویح میں 



No comments:

Post a Comment