Tuesday 29 May 2018

مدارس چندہ اور کمیشن

مدارس چندہ اور کمیشن
                
بے شک دینی مدارس کا وجود ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی بقا کے لئے انتہائی ضروری ہے ـ اکابر علماء اسلاف نے مدارس کی بقا کی ذمہ داری کسی حکومت، کسی جاگیر دار، کسی سیٹھ اور سرمایہ دار کے سپرد کرنے کی بجائے توکل علی اللہ  اور توجہ الی اللہ کے بھروسے عام غریب، محنت کش، مزدور کے چھوٹے چھوٹے تعاون پر جوکسی زمانے روپیہ آٹھ انہ ہوتا تھا اب دس بیس روپیہ، پچاس سو روپیہ بھی ہوسکتا ہے کے سپرد کرنا پسند فرمایا تھا ـ
  عموما غریب محنت کش کا تعاون سرمایہ دار کے مقابلہ میں اگرچہ مقدار میں بہت کم ہوتا ہے مگر اخلاص اور پاکیزگی میں کہیں ذیادہ بہتروبرتر ہوتا ہےـ چونکہ مقدار کم ہوتی ہے اس لئے ارباب مدارس اخراجات پورا کرنے کے لئے مسبب الاسباب  کے دربار میں  الحاح وزاری نیز توجہ الی اللہ کی دولت سے بھی مالا مال رہتے ہیں ـ یہی وجہ ہے کہ جب تک مدارس کا دارومدار عام غریب مسلمانوں کے چھوٹے تعاون پر رہا، ہمارے انہی مدارس سے بڑی تعداد میں اہل اللہ محدث، مفسر اور قوم ملت کے عظیم خدمت گار مصلح نکلتے رہے ـ اور جب سے ہمارے علماء نے فراہمی سرمایہ کے لئے عام محنت کش مسلمانوں کی بجائے سیٹھوں اور ساہو کاروں کہ در پر جبیں سائی شروع کردی تب سے مدرسوں کی افادیت اور علماء کے وقار میں مسلسل گراوٹ آتی جارہی ہے ـ
  چند سال پہلے کی بات ہے ممبئی میں ایک بڑے سیٹھ بن سیٹھ کے یہاں شادی کی تقریب تھی، میں بھی مدعو تھا. مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ہندوستان کا وہ کون سا بڑا مدرسہ اور وہ کون سی خانقاہ تھی جس کی نمائندگی وہاں نہ رہی ہو.......، یوں تو کسی کی دعوت میں شامل ہونے میں شرعی طور پر کوئی حرج نہیں ہے ...... مگر سوچنےکی بات یہ ہے کہ کوئی غریب مسلمان اگر ان تمام اکابرین کی دعوت کرنے کی جسارت تو درکنار ان کی مجلس میں صرف زیارت کے لئےحاضری کی اجازت چاہتا تو اکابرین کو گھیرے رکھنے والے درباری اس کی اجازت بھی دیتے ؟ ......
   بندے کا ذاتی رجحان مدارس کے چندوں کے لئے تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے موقف کے مطابق ہے کہ مدرسے کی ضروریات کا عام اعلان کردیا جائے اس کے بعد جتنا چندہ آئے اس کے مطابق ہی کام ہاتھ میں لیاجائے درمیان میں اگر سرمایہ کم پڑجائے تو کام روک دیا جائے ہم اس سے ذیادہ کے مکلف نہیں ہیں، جس کا کام ہے وہی تکمیل کے اسباب فراہم کرے گا ـ
  مگر افسوس یہ ہے کہ آج کل تکثیر چندہ کی ہوڑ مچی ہوئی ہے، اس میں حرام حلال، جائز ناجائز کا کوئی خیال نہیں (الا ماشآءاللہ) ـ چندہ وصول کرنا ایک پیشہ بن گیا ہے، اس کے ماہرین پیدا ہوگئے ہیں  جن کو باقاعدہ پچاس بلکہ ساٹھ و ستّر فیصد کمیشن پر حاصل کیا جاتا ہے، پہلےہمارے علماء ومفتیان کمیشن کو ناجائز کہتے تھے مگر اب بیشتر علماء " عموم بلویٰ " کا سہارا لے کر موقف تبدیل کرچکے ہیں، بعض جگہ کمیشن کو  "انعام " کا خوبصورت نام دیا جاچکا ہے ـ
  یہی کمیشن خور "مچنّد" مدرسوں کے تذلیل کا سبب بن رہے ہیں، یہی لوگ سیٹھوں کی چاپلوسی کرتے ہیں، لائن لگاتے ہیں، یہاں تک کہ خالص حرام کاروبار کرنے والے سرمایہ دار، فلموں میں کام کرنے والے اداکار کے یہاں بھی پہنچتے ہیں  ـ اس بدعنوانی کے لئے کچھ نام نہاد مدارس کے خود ساختہ نظماء ومہتممین بھی ذمہ دار ہیں، جو بلاوجہ مدارس ومکاتب قائم کرکے چندہ وصولی کو فروغ دیتے ہیں ـ تعجب ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹے گاؤں میں تین تین  مکاتب کام کررہے ہیں،  وجہ محض یہی ہوتی ہے کہ تینوں مکاتب کے مہتمم حضرات اپنا اپنا چندہ کراتے ہیں ـ  یہ دیکھ کر مزید تعجب ہوتا ہے کہ ان مکاتب میں مقامی بچے یاتو بالکل ہی نہیں ہوتے یا دوچار پڑھ کر گھر چلے جاتے ہیں مگر ڈیڑھ ہزار میل دورکے چند بچے ضرور پالے جاتے ہیں تاکہ انھیں دکھا کر زکوۃ وصول کی جاسکے، کچھ لوگ یہ زحمت بھی نہیں اٹھاتے،  ظاہر ہے ممبئی کلکتہ سے کون سا چندہ دہندہ دیکھنے آرہا ہے........، مقامی چندہ یہ لوگ اس وجہ سے بھی نہیں کرتے کہ اس طرح مقامی لوگ بھی مدرسے کے معاملات میں جواب طلب کرنے لگیں گے،  ورنہ ایسا کون سا گاوں ہے جہاں کے لوگ سالانہ دس بیس روپے مدرسے میں نہیں دے سکتے، یہ لوگ دینا بھی چاہیں تو مدرسے والے نہیں لیں گے.......،  کیوں لیں، جب دور دراز کے شہر سے بغیر جواب دہی کہ ہزاروں لاکھوں آرہے ہیں تو دس بیس روپیہ لے کر اپنے سر ہمیشہ کی مصیبت مول لینا ظاہر ہے عقل مندی تونہیں ہے ـ
  ایسی ہی گڑبڑیوں  کے پیٹ سے کچھ ایسے ادارے اور جماعتیں بھی برآمد ہوئی ہیں جو مدارس کی تصدیق کا کام کرتی ہیں، جمیعت علماء جیسے ادارے اگرچہ پہلے ہی سے یہ کام کررہے تھے مگر کچھ مقامی اداروں نے بھی یہ کام شروع کیا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ایسے اداروں کے وجودسے ایک طرف مدرسوں میں ہونے والی مالی گڑبڑی کی تصدیق ہوتی ہے تو دوسری طرف جمیعت جیسی ہمہ جہت تنظیم کی تصدیقات پر بھی عدم  اعتماد کی ضرب پڑتی ہے، گویا جمیعت کو بھی اس بدعنوانی کا حصہ قرار دیا جارہا ہے ـ پھر ایسے تصدیقی اداروں میں سارے مدارس کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکا جاتا  ہے، سب کو شک کی نگاہ سے دیکھنا، ایک ایک کاغذ کی باریک بینی سے جانچ.......، ایسے میں نہ جانے کتنے علماء کی بے توقیری اور بے اکرامی ہوتی ہے، علماء کی اس تذلیل اور بے عزتی کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جنھوں نے چندہ وصولی کو پیشہ بنالیا ہے اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں ـ
     عروس البلاد ممبئی کی جہاں اور دیگر خصوصیات ہیں وھیں سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ شہر غریب پرور ہے، خیر کے کاموں میں ہمیشہ اگے رہتا ہے، سارے ہندوستان سے ارباب مدارس یہاں آتے ہیں اور ان کے سالانہ اخراجات کی بڑی رقم یہاں سے فراہم ہوتی ہے، یہاں ایسے بھی صاحبان خیر موجود ہیں جن کے پاس اگرکسی برس رمضان میں چندہ دینے کی گنجائش نہیں ہوتی تو قرض لے کرہر سال آنے والے سفراء کا تعاون کرتے ہیں ـ ممبئی میں بھی مدرسوں کی بڑی تعداد موجود ہے ان کے بھی تمام اخراجات اسی شہر سے پورے ہوتے ہیں، کسی نے شاید ہی اب تک ممبئی کے کسی مدرسے کا چندہ دہلی کولکاتا وغیرہ میں ہوتے دیکھا ہو، حالانکہ ممبئی میں دہلی کولکاتا کے مدارس کے سفراء بھی آتے ہیں، ایسا نہیں کہ ہندوستان کے دیگر بڑے شہروں میں مسلم سرمایہ داروں کی کمی ہے مگر یہ بات ماننی پڑے گی کہ راہ خدا میں صرف کرنے کا جو مزاج ممبئی میں ہے وہ اور کہیں نہیں ہے ـ
   راہ خدا میں صرف کرنے کے اسی مزاج کا فائدہ مستحقین کے ساتھ کچھ کمیشن خور بہروپئے بھی اٹھاتے ہیں جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ کوئی صاحب خیر فلاں وقت رقم تقسیم کرتا ہے سارے بھر بھرا کر وھیں دھاوا بول دیتے ہیں، ممبئی میں جگہ کی قلت ہے چھوٹی چھوٹی دوکانیں اور آفیسیں ہوتی ہیں جب ڈھیر سارے "بیگ بردار" سفرا پہنچتے ہیں تو وہاں ازدحام کی کیفیت ہوجاتی ہے، ایسے میں کوئی سوشل میڈیا کا پہلوان تصویر کھینچ کر اپنے مختصر سے طنزیہ نوٹ کے اسےساتھ وائرل کردیتا ہے، اور پھر وہاٹس ایپ اور فیس بک کے لکھاری بیک آواز اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور اتنا شور مچاتے ہیں کہ بیچارہ چندہ دینے والا "نکّو" بن جاتاہے ـ
  ایسا نہیں ہے کہ چندے کے سلسلے میں ہونے والی بے اعتدالی اور کمیشن خوری اب کوئی راز رہ گئی ہے عوام اور اصحاب خیر بھی یہ بات جاننے لگے ہیں......... اسی لئے اب ایک نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے، ایسے ادارے جو نادار مریضوں کی امداد کرتے ہیں، کچھ اسکولی بچوں کو کتابیں کاپیاں فراہم کرتے ہیں، کچھ اعلی عصری تعلیم ائی اے ایس اور آئی پی ایس کی کلاسس چلاتے ہیں، کچھ غریب ضرورت مند خواتین کو ہنر مند بنانے کا کام کررہے ہیں ،  اب زکوۃ کی بہت بڑی مقدار ایسے اداروں کو جارہی ہے،  سال بسال یہ مقدار بڑھ رہی ہے، پہلے تقریبا نوے فیصد زکوۃ مدرسوں میں جاتی تھی اب میرے خیال سے یہ مقدار پچاس فیصد ہوگئی ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ اب کچھ ایسے اداروں میں بھی چندہ خوری شروع ہوچکی ہے، کسی نے سچ کہا ہے کہ ......
       ضرورت ایجاد کی ماں ہے
   بہر حال موجودہ حالات میں اگر مدرسوں پر فورا عوام کا اعتماد بحال کرنے کے اقدامات نہیں کئے گئے تو یہ چندے کی مقدار مزید کم ہوتی جائیگی پھر اس کانتیجہ خدانخواستہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں مدارس کا آزادانہ وجود خطرے میں پڑجائے گا ـ اللہ نہ کرے اگر ایسا ہوگیا تو ملک میں دینی تعلیم، اسلامی تہذیب اورمشرقی تمدن بھی رخصت ہوجائے گا ـ
اب سوال یہ ہے کہ مدرسوں پر اعتماد کی بحالی کے اقدامات کرے گا کون ؟
     ۱ ـ  کون چھوٹے چھوٹے گاوں میں صرف چندہ خوری کے لئے قائم ہونے والے مکاتب پر پابندی لگائے گا؟
    ۲ ـ کون کمیشن خور پیشہ ور "مچنّدوں" کو روکے گا؟
   ۳ ـ  کون چندہ دہندگان کی غیر ضروری چاپلوسی اور علماء کے وقار کو خاک میں ملاکر قطار لگانے سے سفراء کو روکے گا؟
  ۴ ـ کون ناجائز کاروباریوں کے یہاں سے چندہ لانے سے منع کرے گا؟
  ۵ ـ کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا جائزہ لیا جائے کتنے بچے قرب وجوار کے ہیں اور کتنے بچے  ہزاروں میل دور سے لائے گئے ہیں، اگر ہزاروں میل دور کے بچوں کوپڑھانے کے لئے مدرسہ قائم کیا گیا ہے تو بہتر یہی ہوگا کہ پورا مدرسہ وہیں منتقل کردیا جائے ـ حالانکہ دور دراز کے جن علاقوں کے یہ بچے ہوتے ہیں خود ان کے علاقوں میں سینکڑوں مدارس کام کررہے ہیں ـ
   ۶ ـ یہ بھی پتہ لگانا چاہئے کہ مدرسوں میں تعلیمی معیار مسلسل گرتا کیوں جارہا ہے، ہرسال دس پندرہ ہزار کے قریب نکلنے والے علماء معاشرے کے لئے پہلے جیسے مفید کیوں نہیں ثابت ہورہے ہیں ـ
   مگر لاکھ ٹکے کا یہ سوال ایک بار پھر منہ پھاڑ کر کھڑا ہوجائے گا کہ ہمارے یہاں کوئی مرکزیت نہیں ہے ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک ہے، جمہوریت میں آپ کسی پر زبردستی بھی نہیں کرسکتے پھر یہ سب کیسے ہوگا ـ
کیا ہی اچھا ہوتا کہ  وہاٹس ایپ اور فیس بک پر لکھنے والے احباب اس پر بھی روشنی ڈالتے  ـ
    نوٹ ــــ    احقر کوجاننے والے واقف ہیں کہ میں نے اب تک کی ساری عمر مدارس وارباب مدارس کے دفاع میں گذاری ہے، مگر اس بار معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ .......
        چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر
        زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی ـ
    
              محمود دریابادی

No comments:

Post a Comment