Wednesday 30 May 2018

فرض نماز اور تراویح کے بعد اجتماعی دعا کی شرعی حیثیت

(۳۸۹) فرض نماز اور تراویح کے بعد اجتماعی دعا کی شرعی حیثیت

سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فرض نمازوں اور تراویح اور اسی طرح جب وتر نماز جماعت کے ساتھ رمضان میں ادا کی جاتی ہے، اس کے بعد دعا انفرادی طورپر تو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن اس دعا کو ایک ہیئت اور جمعیت کے ساتھ لازم سمجھنا کہ امام کے ساتھ دعا کے بغیر کوئی بھی نہ اٹھے تو یہ کام کیسا ہے؟ شریعت کے موافق ہے یا نہیں؟ اگر شریعت کے موافق ہے یا نہیں تو دونوں کو ادلۂ شریعہ سے واضح کریں۔ شکریہ

الجواب بعون الملک الوھاب… دعا ایک عبادت ہے، کثرت سے احادیث مبارکہ دعا کے متعلق کتب احادیث میںموجود ہیں۔ جن سے دعا کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ تاہم بعض حضرات نماز کے بعد دعا کے متعلق افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ جس کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فرض نمازوں اور تراویح کے بعد امام کے ساتھ تمام مقتدیوں کا مل کر دعا مانگنا جائز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ اس طور پر التزام کہ امام کے ساتھ دعا کے شروع کرنے اور ختم کرنے کو لازم سمجھنا یا بغیر دعا مانگے اٹھنے والے کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا اور اسی طرح اس بے جا التزام کی آڑ میں نفس دعا ہی کا انکار کردینا دونوں امرحد سے متجاوز اور غلو فی الدین کے مترادف ہیں۔ ان سے اجتناب انتہائی ضروری ہے خاص طور پر ہمارے زمانے میں جبکہ امت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ اور فقط چند عبادات میں امت کی اجتماعیت کی اک کرن باقی ہے۔ اس میں بھی اختلاف وانتشار کا دروازہ کھول لینا قطعاً مناسب نہیں ہے۔ 
لمافی البخاری(۹۳۷/۲): باب الدعاء بعد الصلوۃ: …عن ورّاد مولی المغیرۃ بن شعبۃ قال کتب المغیرۃ الی معاویۃ ابن ابی سفیان ان رسول اﷲ ﷺ کان یقول فی دبر صلوتہ اذا سلّم لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیٔ قدیر، اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذالجد منک الجد۔وفی فتح الباری(۱۱۱/۱۱): (قولہ باب الدعاء بعد الصلوۃ) ای المکتوبۃ وفی ھذہ الترجمۃ رد علی من زعم أن الدعاء بعد الصلوۃ لا یشرع متمسکا بالحدیث الذی اخرجہ مسلم والجواب ان المراد بالنفی المذکور نفی استمرارہ جالسا علی ھیئتہ قبل السلام الا بقدر ان یقول ما ذکر۔ فقد ثبت انہ کان اذا صلی أقبل علی أصحابہ فیحمل ماورد من الدعاء بعد الصلوۃ علی انہ کان یقول بعد ان یقبل بوجھہ علی اصحابہ۔
وفی فیض الباری علی صحیح البخاری(۴۱۷/۴): باب ’’الدعاء بعد الصلاۃ‘‘ لا ریب ان الادعیۃ دبر الصلوات قد تواترت تواترا لا ینکر، اما رفع الأیدی فثبت بعد النافلۃ مرۃ او مرتین، فالحق بھا الفقھاء المکتوبۃ ایضا، وذھب ابن تیمیۃ وابن القیم إلی کونہ بدعۃ بقی ان المواظبۃ علی امر لم یثبت عن النبی ﷺ الامرۃ او مرتین، کیف ھی فتلک ھی الشاکلۃ فی جمیع المستحبات فانھا تثبت طورا فطورا، ثم الامۃ تواظب علیھا، نعم نحکم بکونھا بدعۃ اذا افضی الامر إلی النکیر علی من ترکھا۔
وفی اعلاء السنن(۱۸۳/۳): قال الحافظ فی الفتح: قال ابن المنیر: ان المندوبات قد تنقلب مکروھات اذا رفعت عن رتبتھا، لان التیامن مستحب فی کل شیٔ من أمور العبادۃ لکن لما خشی ابن مسعود ان یعتقدولوجوبہ اشار الی کراھتہ۔ واللہ اعلم اھـ۔
ولیتنبہ لھذا من یصر علی القیام عند ذکر الولادۃ الشریفۃ ویطعن فی من لایقوم وکذا کل من رفع المباح او المندوب عن رتبتھما وطعن فی تارکھما فافھم۔
وفی مجموعۃ الفتاوی علی خلاصۃ الفتاوی(۱۰۰/۱):الجواب صحیح والرای نجیح ویؤید ما رواہ ابو بکر بن ابی شیبۃ فی المصنف عن الاسود العامری عن ابیہ قال صلیت مع رسول اﷲ ﷺ الفجر فلما سلم انصرف ورفع یدیہ ودعا الحدیث۔ فثبت بعد الصلوۃ المفروضۃ رفع الیدین فی الدعا عن سید الانبیاء و اسوء ۃ الاتقیاء صلعم کمالا یخفی علی العلماء الأذکیاء۔

نجم الفتاوی جلد 2

ناقل نورالحسن پرتاپگڑھی

No comments:

Post a Comment