Wednesday 23 May 2018

رمضان المبارک میں انتقال کرنے والے کا حکم

رمضان المبارک میں انتقال کرنے والے کا حکم
سوال؛ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیانِ شرع مسئلہ ذیل کے بارے میں " کہ  رمضان المبارک کے مہینہ میں انتقال ہونے والے مرد ے مرد ہو یا عورت کے بارے میں حساب وکتاب قبر میں ہوگا یانہیں؟ اور غیر مسلم کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب وباالله التوفیق:
رمضان المبارک میں اگر کوئی غیر مسلم مر جائے تو صرف ماہ مبارک کے احترام میں رمضان المبارک تک عذاب قبر سے محفوظ رہے گا،
اس کے بعد تا قیامت عذاب وفتنہ قبر میں مبتلا رہے گا،
اور یہی حکم یوم جمعہ کا بھی ہے،
اور اگر کسی مؤمن کا انتقال رمضان المبارک یا جمعہ کے دن ہوجائے تو تا قیامت عذاب قبر ومنکر نکیر کے سوال سے محفوظ رہے گا،
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ فتنہ قبر کا مسئلہ میدان حشر وآخرت کے حساب وکتاب کے مسئلہ سے بالکل الگ ہے،
اس لئے حقوق العباد وغیرہ معصیت میں مبتلا مؤمن اگر ان مبارک ایام میں انتقال کر جائے تو بروایت حدیث وفقہ عذاب قبر سے محفوظ ہوجائے گا،
لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں حساب وکتاب سے چھٹکارا نہیں ہوگا؟
حقوق العباد کا سوال آخرت میں ضرور ہوگا،
عن أنس بباالصواب:
رضي اللہ عنہ- أن عذاب القبر یرفع من الموتی شہر رمضان۔ (شرح الصدور، للسیوطي، بإسناد ضعیف، ص: 125)إن بعض الموتی شہر رمضان لا ینالہم فتنۃ القبر، ولا یأتیہم الفتانات، وذلک علی ثلاثۃ أوجہ مضاف، أي عمل ومضاف إلی حال بلا … بالموت ومضاف إلی زمان۔ (شرح الصدور، ص: 17)واخرج أحمد والترمذي وحسنہ وابن أبي الدنیا والبیہقي عن ابن عمر قال: قال رسول اللہ ﷺ ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللہ فتنۃ القبر۔
(شرح الصدور، ص: 89) و یأمن المیت من عذاب القبر، ومن مات فیہ، أو في لیلتہ أمن من عذاب القبر، ولا تسجر فیہ جہنم، وتحتہ في الشامیۃ، قال أہل السنۃ والجماعۃ عذاب القبر حق وسوال منکر ونکیر، وضغطۃ القبر حق لکن إن کان کافرا، فعذابہ إلی یوم القیامۃ، ویدفع عنہ یوم الجمعۃ وشہر رمضان فیعذب اللحم متصلا بالروح، والروح متصلا بالجسم، فیتألم الروح مع الجسد وإن کان خارجا عنہ، والمؤمن المطیع لا یعذب، بل لہ ضغطۃ یجد ہول ذلک، وخوفہ والعاصي یعذب ویضغط لکن ینقطع عنہ العذاب یوم الجمعۃ ولیلتہا، ثم لا یعود وإن مات یومہا أو لیلتہا یکون العذاب ساعۃ واحدۃ، وضغطۃ القبر ثم یقطع۔ (شامي، کراچی آخر باب الجمعۃ 165/2ومن لا یسأل، وفي الشامي: ثم ذکر أن من لا یسأل ثمانیۃ: الشہید، والمرابط، والمطعون، والمیت زمن الطاعون بغیرہ إذا کان صابرا محتسبا، والصدیق، والأطفال، والمیت یوم الجمعۃ أو لیلتہا، والقارئ کل لیلۃ تبارک الملک، وبعضہم ضم إلیہا السجدۃ۔ (شامي، مطلب ثمانیۃ لا یسألون في قبورہم،  193/2  

واللہ اعلم باالصواب
مفتی اسماعیل بابا
03327915840
.....................
سوال (۵۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک مؤمن شخص رمضان المبارک میں انتقال کرجاتا ہے، تو کیا اس سے بھی منکر نکیر سوال وجواب کرتے ہیں یا نہیں؟ اور شریعت میں رمضان المبارک میں انتقال کرجانے کی کیا فضیلت ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: رمضان المبارک میں وفات پانے والے کے متعلق بھی ضعیف حدیث وارد ہے کہ اس کو قبر میں سوال وجواب اور عذاب نہ ہوگا۔
قال ابن رجب: روی باسناد ضعیف عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن عذاب القبر یرفع عن الموتی في شہر رمضان۔ (شرح الصدور للسیوطي ۲۵۴ مکتبۃ دار التراث بیروت) 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۵؍۱۴۲۱ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
کیا رمضان میں وفات پانے والے سے برزخ کا عذاب تاقیامت ختم کردیا جاتا ہے؟
سوال (۵۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: احسن الفتاوی اور فتاوی محمودیہ وغیرہ میں لکھا ہے اورخطبات حکیم الاسلام میں بھی لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان کا انتقال رمضان میں ہوجائے تو اس سے برزخ کا عذاب قیامت تک کے لئے ختم کردیا جاتا ہے؛ لیکن ہمارے بعض علماء اس سے اتفاق نہیں کررہے ہیں، اس لئے دارالافتاء سے رجوع کیا جارہا ہے، فیصلہ فرمادیں، جب کہ جمعہ کے بارے میں متفق ہیں کہ جمعہ میں اگر انتقال ہوجائے تو برزخ کا عذاب قیامت تک کے لئے ختم ہوجاتا ہے، اس لئے مع حوالہ تحریر فرمائیں۔
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: رمضان المبارک میں انتقال کرنے والے شخص سے قبرکا عذاب ہٹائے جانے کا ثبوت بعض ضعیف روایات سے ہوتا ہے؛ لیکن ان میں تا قیامت کی قید نہیں ہے، انہی کو بنیاد بناکر مذکورہ کتابوں میں رمضان المبارک میں وفات پانے والوں کے متعلق مذکورہ بات لکھی گئی ہے؛ اورجمعہ کے دن وفات پانے سے متعلق عذابِ قبر نہ ہونے کی بات متعدد احادیث سے ثابت ہے، وہ احادیث اگر چہ متکلم فیہ ہیں؛ لیکن تعدد طرق کی وجہ سے فضائل میں انہیں قبول کیا جا سکتا ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو ص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي أبواب الجنائز/ باب ما اء فیمن یموت یوم الجمعۃ ۱؍۲۰۵، وقال: ہذا حدیث غریب و لیس اسنادہ بمتصل)عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن عذاب القبر یرفع عن الموتی في شہر رمضان۔ (شرح الصدور للسیوطي ۲۵۴ مکتبۃ دار التراث بیروت)
ویرفع العذاب یوم الجمعۃ وشہر رمضان بحرمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأنہ ما دام في الأحیاء لا یعذبہم اللّٰہ تعالیٰ بحرمتہ۔ فکذلک في القبر یرفع عنہم العذاب یوم الجمعۃ وکل رمضان بحرمتہ۔ (شرح الفقہ الأکبر ۱۷۲ بیروت)
قال ابن عابدینؒ في اٰخر باب الجمعۃ: قال أہل السنۃ والجماعۃ: عذاب القبرحق، وسؤال منکر ونکیر وضغطۃ القبر حق لکن إن کان کافراً فعذابہ یدوم إلی یوم القیامۃ ویرفع عنہ یوم الجمعۃ وشہر رمضان۔ (شامی / باب الجمعۃ، مطلب ما اختص بہ یوم الجمعۃ ۲؍۱۶۵ کراچی، ۳؍۴۴ زکریا)
ثم المؤمن علی وجہین: إن کان مطیعاً لا یکون لہ عذاب ویکون لہ ضغطۃ، فیجد ہول ذٰلک وخوفہ، وإن کان عاصیاً یکون لہ عذاب القبر وضغطۃ القبر، لکن ینقطع عنہ عذاب القبر یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، ثم لا یعود العذاب إلی یوم القیامۃ، وإن مات یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ یکون لہ العذاب ساعۃً واحدۃً، وضغطۃ القبر، ثم ینقطع عنہ العذاب، کذا في المعتقدات للشیخ أبي المعین النسفي۔ (الأشباہ والنظائر مع: الفن الثالث، الجمع والفرق / القول في أحکام الجمعۃ ۳؍۲۰۰، شرح الحموي ۵۶۴) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم

املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲؍۷؍۱۴۳۱ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہ
جمعہ کے دن وفات پانے والوں کے لئے فضیلت 
سوال (۵۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا یہ بات صحیح ہے کہ جمعہ کے دن یا اس کی رات میں مرنے والوں کو قبر کا عذاب اور سوال وجواب نہیں ہوتا ؟ اور کیا قیامت تک ان سے عذاب ہٹا رہتا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
متعدد طرق سے یہ حدیث مروی ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو شخص جمعہ کے دن یا اس کی رات میں انتقال کر جائے وہ قبر کے فتنہ سے محفوظ رکھا جاتا ہے‘‘ اور قبر کے فتنہ میں بظاہر سوال وجواب اور عذاب دونوں شامل ہیں، یعنی ایسا شخص دونوں باتوں سے بچا رہتا ہے، اب یہ صورت قیامت تک یونہی برقرار رہے گی یا بعد میں کسی وقت عذاب ممکن ہے؟ اس بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں:
حکیم ترمذیؒ نے نوادر الاصول میں لکھا ہے کہ’’ تکوینی طور پر کسی شخص کی موت کا جمعہ کے دن یا رات کے موافق ہو جانا اس کی سعادت مندی کی دلیل ہے، اور یہ سعادت صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے فتنۂ قبر سے محفوظ رکھا جانا منظور
ہوتا ہے، جس کا تقا ضہ یہ ہے کہ وہ تاقیامت اس سے محفوظ رہے۔ بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ بعض روایات میں جمعہ کے دن وفات پانے والے کو درجہ شہادت کا مستحق بھی قرار دیا گیا ہے۔ اور شہید کا عذابِ قبر سے محفوظ رہنا طے شدہ امر ہے‘‘۔
اس کے برخلاف ملاعلی قاریؒ نے شرح فقہِ اکبر میں اس موضوع پرکلام کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ :’’اس مسئلہ کا تعلق چونکہ عقائد سے ہے؛ لہٰذا اس کے بارے میں جب تک کوئی مضبوط روایت یانص قطعی نہ ہو کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی‘‘۔
تاہم علماء کے اس اختلاف کے باوجود اگر کوئی شخص جمعہ کے دن وفات سے متعلق فضیلت کی حدیث کو عمومی معنی میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید رکھے تو اس میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ا: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي، الجنائز / باب ما جاء في من یموت یوم الجمعۃ ۱؍۲۰۵ وقال ہذا حدیث غریب ولیس اسنادہ بمتصل)
عن ابن شہاب موقوفا: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من مات لیلۃ الجمعۃ أو یوم الجمعۃ برئ من فتنۃ القبر وکتب شہیداً۔ (مصنف عبد الرزاق ۳؍۲۶۹)
قال الحکیم الترمذي في نوادر الأصول: ومن مات یوم الجمعۃ فقد انکشف لہ الغطاء عما لہ عند اللّٰہ؛ لأن یوم الجمعۃ لا تسجر فیہ جہنم وتغلق أبوابہا، ولا یعمل سلطان النار فیہ ما یعمل سائر الأیام، فإذا قبض اللّٰہ عبداً من عبیدہ فوافق قبضہ یوم الجمعۃ کان ذلک دلیلا لسعادتہ وحسن ماٰبہ، وإنہ لایقبض في ہذا الیوم إلا من کتب لہ السعادۃ عندہ فلذلک یقیہ فتنۃ القبر۔ (شرح الصدور بشرح حال الموتیٰ والقبور للسیوطی ۲۰۹ مکتبۃ دار التراث المدنیۃ المنورۃ، مرقاۃ المفاتیح للملا علی القاري ۲؍۲۴۲)
وقال الملا علي قاريؒ: فلا یخفی أن المعتبر في العقائد ہو الأدلۃ الیقینیۃ وأحادیث الأحاد لو ثبت إنما تکون ظنیۃ، نعم ثبت في الجملۃ أن من مات یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ یرفع العذاب عنہ إلا أن لا یعود إلیہ إلی یوم القیامۃ فلا أعرف لہ أصلا الخ۔ (شرح الفقہ الأکبر للملا علي قاري ۱۷۳)
 
فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۱۱؍۶؍۱۴۳۵ھ
فاسق وفاجر مسلمان اگر جمعہ کے دن مرجائے تو عذابِ قبر ہوگا یا نہیں؟ 
سوال (۵۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک مسلمان جو کہ شرابی ہے، جواری، فاسق ہے، بے نمازی ہے اور بدعتی ہے، اس آدمی کا اگر جمعہ کے روز انتقال ہو جائے تو اس کوعذاب قبر ہوگا یانہیں؟ حدیث شریف میں جو فضائل جمعہ کے دن انتقال ہونے والے کے لئے آئے ہیں، اس میں یہ آدمی داخل ہوگا یا نہیں؟ یا پھر یہ فضائل صرف مؤمن کے لئے ہیں؟ 
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمعہ کے دن مرنے والے کے عذاب قبر سے محفوظ رہنے کے بارے میں جو روایت مروی ہے اس میں صرف مسلم کی قید ہے اور بظاہر اس میں صالح وفاسق دونوں شامل ہیں، اس لئے امید رکھنی چاہئے کہ بلا امتیاز ہر مسلمان اس بشارت کا مستحق ہوگا، مگر واضح ہو کہ اس بشارت کا تعلق صرف اَحوالِ قبر سے ہے، یہ آخرت میں حساب وکتاب اور عذابسے محفوظ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي ۱؍۲۰۵) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم 
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۸؍۶؍۱۴۲۶ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہ
جمعہ کے دن مرنے والے کا حکم
سوال (۵۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مؤمن شخص جمعہ کے روز مرتا ہے تو اس کا شریعت میں کیا مرتبہ ہے؟ اور اس سے قبر کے اندر سوال وجواب منکر نکیر کرتے ہیں یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمعہ کے دن یا رات میں مرنے والے کے متعلق ایک ضعیف روایت میں یہ مضمون وارد ہے کہ وہ قبر کے سوال وجواب اور فتنہ سے محفوظ رہتا ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي ۱؍۲۰۵) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۵؍۱۴۲۱ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
.............
حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ جو مومن رمضان میں یا جمعہ کے دن وفات پائے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے، محدثین کے درمیان یہ اختلاف ہے ہ ہمیشہ کے لیے قبر کا عذاب اس سے اٹھالیا جاتا ہے یا صرف رمضان تک یا صرف جمعہ کو۔ کچھ حضرات اسی دوسرے قول کو لیتے ہیں کہ صرف رمضان یا صرف جمعہ کو قبر کا عذاب اٹھایا جاتا ہے اور کچھ محدثین پہلے قول کو لیتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اللہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اسی حدیث کی وجہ سے رمضان یا جمعہ کے دن وفات پانے والے کو مبارک کہا جاتا ہے۔ اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے قبر والی بات ہماری نظر سے نہیں گذری۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
حضرے مولانا رشید احمد گنگوہی نور اللہ مرقدہ پہلے قول کے قائل ہے کہ  رمضان کے بعد بھی عذاب ہوگا.
فتاوی رشیدیہ میں ہے
..............
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
رمضان المبارک میں انتقال کرنے والے شخص سے قبر کا عذاب ہٹائے جانے کا ثبوت بعض ضعیف روایات سے ہوتا ہے؛ لیکن ان میں تا قیامت کی قید نہیں ہے، انہی کو بنیاد بناکر مذکورہ کتابوں میں رمضان المبارک میں وفات پانے والوں کے متعلق مذکورہ بات لکھی گئی ہے؛ اورجمعہ کے دن وفات پانے سے متعلق عذابِ قبر نہ ہونے کی بات متعدد احادیث سے ثابت ہے، وہ احادیث اگر چہ متکلم فیہ ہیں؛ لیکن تعدد طرق کی وجہ سے فضائل میں انہیں قبول کیا جا سکتا ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو ص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي أبواب الجنائز/ باب ما اء فیمن یموت یوم الجمعۃ ۱؍۲۰۵، وقال: ہذا حدیث غریب و لیس اسنادہ بمتصل)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن عذاب القبر یرفع عن الموتی في شہر رمضان۔ (شرح الصدور للسیوطي ۲۵۴ مکتبۃ دار التراث بیروت)
ویرفع العذاب یوم الجمعۃ وشہر رمضان بحرمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأنہ ما دام في الأحیاء لا یعذبہم اللّٰہ تعالیٰ بحرمتہ۔ فکذلک في القبر یرفع عنہم العذاب یوم الجمعۃ وکل رمضان بحرمتہ۔ (شرح الفقہ الأکبر ۱۷۲ بیروت)
قال ابن عابدینؒ في اٰخر باب الجمعۃ: قال أہل السنۃ والجماعۃ: عذاب القبر حق، وسؤال منکر ونکیر وضغطۃ القبر حق لکن إن کان کافراً فعذابہ یدوم إلی یوم القیامۃ ویرفع عنہ یوم الجمعۃ وشہر رمضان۔ (شامی / باب الجمعۃ، مطلب ما اختص بہ یوم الجمعۃ ۲؍۱۶۵ کراچی، ۳؍۴۴ زکریا)
ثم المؤمن علی وجہین: إن کان مطیعاً لا یکون لہ عذاب ویکون لہ ضغطۃ، فیجد ہول ذٰلک وخوفہ، وإن کان عاصیاً یکون لہ عذاب القبر وضغطۃ القبر، لکن ینقطع عنہ عذاب القبر یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، ثم لا یعود العذاب إلی یوم القیامۃ، وإن مات یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ یکون لہ العذاب ساعۃً واحدۃً، وضغطۃ القبر، ثم ینقطع عنہ العذاب، کذا في المعتقدات للشیخ أبي المعین النسفي۔ (الأشباہ والنظائر مع: الفن الثالث، الجمع والفرق / القول في أحکام الجمعۃ ۳؍۲۰۰، شرح الحموي ۵۶۴) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
از کتاب النوازل
العبد محمد اسلامپوری
..............
رمضان المبارک یا جمعہ میں کسی فاسق مسلمان کی موت ہو تو کیا وہ شخص قیامت تک کے عذاب قبر سے محفوظ رہے گا یا صرف جمعہ ورمضان کے ایام تک۔ ان ایام میں کافر کی موت کا کیا مسئلہ ہے؟
Aug 05,2014
Answer: 54438
Fatwa ID: 1112-874/D=10/1435-U
اگر کسی فاسق مسلمان کی موت رمضان المبارک یا جمعہ میں ہوجائے تو اس کو ہلکا عذاب ہوگا اس کے بعد قیامت تک مرتفع ہوجاتا ہے اور وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا، اور اگر کسی کافر کی موت ان ایام میں ہوجائے تو اس سے صرف رمضان المبارک اور جمعہ میں عذاب مرتفع ہوگا، رمضان وجمعہ گزرنے کے بعد پھر اس پر عذاب ہوگا اور اگلا رمضان وجمعہ آنے پر پھر اس سے عذاب اٹھالیا جائے گا، اور یہی سلسلہ جاری رہے گا۔
یہی تمام اہل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے، چنانچہ رد المحتار میں ہے: 
قال أہل السنة عذاب القبر حق وسوٴال نکیر ومنکر حق وضغطة القبر حق لکن إن کان کافرا فعذابہ یدوم إلی یوم القیامة ویرفع عنہ یوم الجمعة وشہر رمضان․․․ والعاصي یعذب ویضغط لکن ینقطع عنہ العذاب یوم الجمعة ولیلتہا ثم لا یعود، وإن مات یومہا أو لیلتہا یکون العذاب ساعة واحدة وضغطہ القبر ثم یقطع (رد المحتار ج۳ ص۴۴ مکتہ زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment