Thursday 31 May 2018

تربت یداک کا مطلب کیا؟

تربت یداک کا مطلب کیا؟
سوال: محترم مفتی صاحب
مندرجہ ذیل حدیث میں "تربت یداک" کا مطلب کیا ہوگا، بتانے کی زحمت گوارا فرمائیے.
جواب: رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے؛
1. اول اس کا مالدار ہونا
2. دوم اس کا حسب نسب والی ہونا
3. سوم اس کا حسین وجمیل ہونا اور
4. چہارم اس کا دین دار ہونا
لہذا دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ
اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ ویسے تو یہ جملہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے ذلت وخواری اور ہلاکت کی بددعا کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں اس جملہ سے یہ بددعا مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دین دار عورت کو اپنا مطلوب قرار دینے کی ترغیب دلانا ہے۔
یہ ایک محاورہ ہے، اس میں لفظی معنی مراد نہیں ہوتے ہیں، 
جیسے اردو میں کہتے، دھت تیرا بھلا ہو وغیرہ
.............
یہ حدیث بخاری (4802) اورمسلم (1466) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کیوجہ سے، دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)
"قاضی رحمہ اللہ نے کہا: لوگوں کی عادت ہے کہ وہ خواتین کی مذہبی اور معاشرتی مناسبت سے انکی خاص صفات کو مدّ نظر رکھتے ہیں، جبکہ دین کو بنیادی حثییت ہونی چاہے کہ اسی کی بنیاد پر اپنایا جائے اور چھوڑا جائے، خصوصی طور پر وہ خصال جو دیر پا ہوں، اور اثرات زیادہ ہوں" انتہی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دیگی) کے معنی میں بہت زیادہ آراء پائی جاتی ہیں، چنانچہ نووی نے شرح مسلم میں فرمایا:

"محققین کے ہاں سب سے قوی اور صحیح ترین قول یہ ہے کہ اس کا معنی اصل میں ہاتھوں کے خالی ہونے کے مترادف ہے، لیکن عرب کے ہاں کچھ کلمات استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان کا اصل معنی مراد نہیں ہوتا، جیسے "تربت یداک" تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، "قاتلہ اللہ" اللہ اسے برباد کرے، "ما اشجعہ" بڑا بہادر ہے، "لا أم له" اسکی ماں مرے، "لا أب لك" تیرا باپ نہ رہے، "َثَكِلَتْهُ أُمّه" تیری ماں تجھے گم پائے، "َوَيْل أُمّه" اسکی ماں ہلاک ہو، وغیرہ، یہ الفاظ کسی چیز کے انکار، ڈانٹ ڈپٹ، مذمت، تعظیم، ترغیب، اور پسندیدگی کے اظہار کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ واللہ اعلم" انتہی .
.......................
ترب کے معنی فقیر ہونے کے ہیں کیونکہ فقر بھی انسان کو خاک آلودہ کردیتا ہے ۔ فرمایا :۔ أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ
[البلد/ 16]
یا فقیر خاکسار کو ۔ یعنی جو بوجہ فقر و فاقہ کے خاک آلودہ رہتا ہے ۔ اترب (افعال) کے معنی مال دار ہونے کے ہیں۔ گویا اس کے پاس مٹی کی طرح مال ہے نیز تراب کے معنی زمین کے بھی آتے ہیں اور اس میں التیراب (ج) تیارب اور التوراب والتورب والتوراب وغیرہ دس لغات ہیں۔
ریح تربۃ خاک اڑانے والی ہو ۔ اسی سے آنحضرت کا فرمان ہے (50) علیک بذاب الدین تربت یداک کہ شادی کےلئے دیندار عورت تلاش کرو۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں۔ اس میں تنبیہ ہے کہ دیندار عورت تیرے ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور تم غیر شعوری طورپر فقیر ہوجاوگے۔ بارح ترب خاک اڑانے والی ہو۔ 
ترائب سینہ کی پسلیاں (مفرد ت ربیۃ) قرآن میں ہے۔ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [الطارق/ 7]
جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَبْكاراً عُرُباً أَتْراباً
[الواقعة/ 36- 37] 
کنواریاں اور شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر۔ 
اور ہم نوجوان عورتیں۔ 
اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی (اور) ہم عمر (عورتیں) ہوں گی۔ میں اتراب کے معنی ہیں ہم عمر جنہوں اکٹھی تربیت پائی ہوگی گو یا وہ عورتیں اپنے خاوندوں کے اس طرح مساوی اور مماثل یعنی ہم مزاج ہوں گی جیسے سینوں کی ہڈیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ریا اس لئے کہ گو یا زمین پر بیک وقت واقع ہوئی ہیں اور بعض نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ اکٹھی مٹی میں ایک ساتھ کھیلتی رہی ہیں۔ 
(ت ر ث) 
تراث (ورثہ) یہ اصل میں وراث مثال وادی ہے۔ (جیسا کہ ورث میں بیان ہوگا ۔ قرآن میں ہے:۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [الفجر/ 19] 
اور میراث کے مال کو سمیٹ کر کھا جاتے ہو ۔ 
(ت ر ف) 
الترفۃ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں۔ 
..........................
تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَع
ایس اے ساگر
اہل علم نے نکاح کو نصف ایمان قرار دیا ہے. اس کی روشنی میں شریک حیات کا انتخاب ایک اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے، جس میں خوب باریک بینی سے کام لینے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت مطہرہ میں نکاح سے قبل استخارہ بھی ثابت ہے۔ ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نکاح سے قبل استخارہ کیا تھا. اللہ کو ان کا یہ عمل ایسا پسند آیا کہ باری تعالٰی نے آپ کا نکاح نبی کریم اللہ علیہ و سلم سے کردیا. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ رشتہ کرنے میں بڑی عجلت اور جلد بازی سے کام لیا جاتا ہے اور استخارہ کا اہتمام تو درکنار کسی قسم کی چھان بن اور تفتیش تک نہیں کی جاتی۔ اسلام رشتہ کرنے میں دیرنہ کرنے کا حکم ضرور دیتا ہے، مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ آنکھیں بندکرکے جہاں بھی ہو ، جیسے بھی ہو رشتہ کردیا جائے۔ بلکہ مناسب دینی و اخلاقی چھان بین کے بعد ہی رشتہ طے کرنا عقلی اور دینی تقاضا ہے۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ کی صورتوں سے بہر صورت بچنا چاہئے۔ فضول شرائط و اہداف اور خود ساختہ وغیرہ ضروری معیارات مقرر کرنا مناسب نہیں ہے۔ پیغام نکاح کے سلسلہ میں چند اہم دینی تعلیمات اور بزرگوں کی نصائح کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے ، جن کا خیال رکھنا ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ بہت فائدہ مند بھی ہے۔ رشتہ پررشتہ نہ بھیجا جائے: جس لڑکی کے لئے رشتہ کا پیغام بھیجا جارہا ہوں ، وہاں یہ دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا رشتہ کہیں طے نہ ہوا ہو، یا کسی اور اور کی طرف سے اس کے ساتھ رشتہ کی بات چیت نہ چل رہی ہو، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:ترجمہ: کوئی آدمی اپنے بھائی کے رشتہ پر رشتہ نہ بھیجے، یہاں تک کہ وہ نکاح کرلے یا وہ چھوڑدے۔ (بخاری شریف) ہاں! اگر لڑکی والوں کی طرف سے کہیں اور نکاح سے حتمی انکار کردیا گیا ہو تو پھر اس لڑکی کیلئے نکاح کا پیغام دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر پہلے رشتہ بھیجنے والے کا کردار ٹھیک نہیں ہے تو اس صورت میں دوسرے شخص کیلئے اپنے نام سے پیغام بھیجنا جائز اور درست ہے، کیونکہ ایک مسلمان کا حق یہ ہے کہ اس لڑکی کو کسی فاسق و فاجر کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے اس سے نجات دلائے۔
رشتہ بھیجنے سے پہلے لڑکی کو دیکھنا: ایک حدیث میں ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک لڑکی کو رشتہ کا پیغام دینے کا ارادہ کیا، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کو دیکھ بھی لیا؟ عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اس کو دیکھ لو، کیونکہ یہ تمہارے درمیان محبت پیداکرنے کا ذریعہ ہے۔ (ترمذی شریف)
شادی سے پہلے لڑکی کے دیکھ لینے کو علماء نے مستحب لکھا ہے، کیونکہ یہ پوری زندگی کا معاملہ ہے ، لڑکی پسند آگئی تو یہ ان کے لئے پوری زندگی کے لئے خوشی کا باعث ہوگا اور اگر نہ دیکھا اور خدانخواستہ بعد میں وہ پسند نہ آئی تو آپس میں ناچاقی اور زندگی تلخ ہوجائے گی۔ اگر رشتہ بھیجنے والا اپنے ارادے میں پختہ اور شادی کرنے کیلئے پہلے سے تیار ہے تو ایسے شخص کو چہرے اور ہتھیلیوں کے دیکھنے کی اجازت ہے، بلکہ اس کے لئے یہ بھی مناسب ہے کہ خاندان کی کچھ مخلص عورتوں کو لڑکی کے گھر بھیجے، تاکہ وہ لڑکی کے اخلاق اور اس کی عادات و اطوار کا انداز کریں۔دین داری کو ترجیح دینا چاہیے: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
کسی عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب نسب کی وجہ سے، اس کے دین کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، لیکن دیکھو ! تم دین دار عورت سے نکاح کرنا۔ لڑکی کے انتخاب کے وقت جو صفات مد نظر رکھنی چاہئیں، ان میں سب سے اہم صفت نیک اور دین دار ہونا ہے۔
روى البخاري (4802) ومسلم (1466)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :
( تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ) .
وليس في الحديث أمر
أو ترغيب في نكاح المرأة
لأجل جمالها أو حسبها أو مالها.
وإنما المعنى :
أن هذه مقاصد الناس في الزواج ،
فمنهم من يبحث عن ذات الجمال ،
ومنهم من يطلب الحسب ،
ومنهم من يرغب في المال ،
ومنهم من يتزوج المرأة لدينها ،
وهو ما رغب فيه النبي صلى الله عليه وسلم بقوله :
( فاظفر بذات الدين تربت يداك ) .
قال النووي رحمه الله في شرح مسلم :
" الصحيح في معنى هذا الحديث
أن النبي صلى الله عليه وسلم
أخبر بما يفعله الناس في العادة
فإنهم يقصدون هذه الخصال الأربع ،
وآخرها عندهم ذات الدين ،
فاظفر أنت أيها المسترشد بذات الدين ،
لا أنه أمر بذلك ...
وفي هذا الحديث الحث على مصاحبة أهل الدين في كل شيء
لأن صاحبهم يستفيد من أخلاقهم وحسن طرائقهم
ويأمن المفسدة من جهتهم " اهـ باختصار .
وقال المباركفوري في تحفة الأحوذي :
" قال القاضي رحمه الله :
من عادة الناس أن يرغبوا في النساء
ويختاروها لإحدى الخصال
واللائق بذوي المروءات وأرباب الديانات
أن يكون الدين مطمح نظرهم فيما يأتون ويذرون ،
لا سيما فيما يدوم أمره ، ويعظم خطره " اهـ .
وقد اختلف العلماء في معنى قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
( تربت يداك ) اختلافاً كثيراً ، قال النووي رحمه الله في شرح صحيح مسلم :
" وَالْأَصَحّ الْأَقْوَى الَّذِي عَلَيْهِ الْمُحَقِّقُونَ فِي مَعْنَاهُ :
أَنَّهَا كَلِمَة أَصْلُهَا اِفْتَقَرَتْ ,
وَلَكِنَّ الْعَرَب اِعْتَادَتْ اِسْتِعْمَالهَا غَيْر قَاصِدَة حَقِيقَة مَعْنَاهَا الْأَصْلِيّ ,
فَيَذْكُرُونَ تَرِبَتْ يَدَاك , وَقَاتَلَهُ اللَّه ,
مَا أَشْجَعه , وَلَا أُمّ لَهُ , وَلَا أَب لَك ,
وَثَكِلَتْهُ أُمّه , وَوَيْل أُمّه , وَمَا أَشْبَهَ هَذَا مِنْ أَلْفَاظهمْ يَقُولُونَهَا عِنْد إِنْكَار الشَّيْء ,
أَوْ الزَّجْر عَنْهُ , أَوْ الذَّمّ عَلَيْهِ , أَوْ اِسْتِعْظَامه ,
أَوْ الْحَثّ عَلَيْهِ , أَوْ الْإِعْجَاب بِهِ . وَاللَّهُ أَعْلَم " اهـ .
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے خواہاں حضرات کی اس جانب رہنمائی فرمائی کہ وہ دینداری کا انتخاب کریں تاکہ عورت اپنے شوہر اور بچوں کا مکمل حق ادا کرسکے اور اسلامی تعلیمات اور نبی کریمﷺ کے ارشادات کے مطابق گھر کا نظم و نسق چلاسکے۔ اگر عورت دین دار نہ ہوگی تو نہ مرد کے حقوق کی حفاظت کرے گی اور نہ ہی اولاد کی تعلیم و تربیت صحیح طور پر کر پائے گا۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خوبصورت اور حسن و جمال کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نیا رشتہ تلاش کرتے وقت محض خوبصورتی کو سب کچھ نہ سمجھا جائے۔ رفیقہ حیات میںمطلوبہ صفات اور بزرگوں کی نصائح:علماء کرام نے احادیث کی روشنی میں کچھ اور صفات بھی ذکر کی ہیں، جن کو ملحوظ رکھنا چاہیے مثلاً: یہ کہ عورت کا مزاج اچھا ہونا چاہیے، بد مزاج عورت ناشکری اور جھگڑالو ہوتی ہے، جس سے زندگی خراب ہوجاتی ہے۔
عورت کا مہر کم ہونا بھی ایک اچھی صفت ہے، رسول اللہ ﷺ نے عورت کا مہر کم ہونے کو اچھی صفت قرار دیا ہے۔ ایک اچھی صفت یہ ہے کہ عورت نوجوان اور کنواری ہو، اس میں بہت ساری حکمتیں اور فائدے ہیں: ایسی عورت سے مرد کو زیادہ محبت ہوگی اور عورت کو بھی مرد سے زیادہ محبت ہوگی کیونکہ شادی شدہ عورت پہلے ایک مرد دیکھ چکی ہوتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہی پہلا مرد اس کے دل و دماغ پر حاوی رہے اور دوسرے شوہر میں وہ پہلے کی سی الفت نہ پائے جس کی وجہ سے دوسرے کیلئے اس کے دماغ میں جگہ نہ بن سکے۔
ابن ماجہ کی حدیث ہے: تم غیر شادی شدہ عورتوں سے شادی کرو اس لئے کہ وہ شیریں دہن، پاک و صاف رحم والی ، کم دھوکہ دینے والی اور تھوڑے پر قناعت کرنے والی ہوتی ہیں۔ایک اچھی صفت یہ ہے کہ وہ اچھے دین دار خاندان کی ہو، کیونکہ دیندار گھرانے کے بچوں پر خاندانی تربیت کے اثرات ہوتے ہیں۔ لوگوں میں شرافت اور ذلت اور تقویٰ و صلاح کے اعتبار سے بہت فرق ہوتا ہے۔ اسی بات کو کسی نے بہت خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے: پہلے یہ نہ پوچھا جائے کہ ہونے والی بیوی نے کس درس گاہ میں تعلیم پائی ہے بلکہ پہلے یہ معلوم کیاجائے کہ اس کی پرورش کس گھرانے میں ہوئی ہے۔
حضرت عثمانی بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد کو شادی کے معاملہ میں یہ وصت کی کہ : اے میرے بیٹے! نکاح کرنے والی کی مثال ایسی ہے جیسے بیج بونے والا، اس لئے انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کہاں بیج ڈال رہا ہے۔ بری ذات و نسل کی عورت بہت کم شریف و نجیب بچہ جنتی ہے، اس لئے شریف النسل لڑکی کا انتخاب کرو چاہے اس میں کچھ وقت کیوں نہ لگے۔ داماد کیسا ہونا چاہئے ؟ :لڑکیوں کا رشتہ ناتہ کرتے وقت یہ بات دیکھنی چاہئے کہ لڑکا اور داماد با اخلاق ہو، اس لئے کہ ایسا شخص اپنی بیوی کا حق بھی پہچانے گا اور اس کو آرام و سکون سے رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اور اسی طرح خادندان کی دیکھ بھال، بیوی کے حقوق اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری کو مکمل طور پر ادا کرتا ہے۔ اگر کسی کے پاس مال و دولت تو بہت کچھ ہو، لیکن دین اور اخلاق نہ ہو تو وہ شخص اپنی بیوی کا حق ہی نہیں پہچانے گا اور اس کے ساتھ وفاداری کیا کرے گا۔ افسوس ہے کہ اب یہ پیمانہ بہت کم خاندانوں میں رہ گیا ہے، اب اگر کوئی پیمانہ رہ گیا ہے تو صرف مادی اور مالی پیمانہ ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو دین داری کو اہمیت دیتے ہیں ، چنانچہ اگر لڑکی والوں کو کہا جائے کہ لڑکا زنا کا عادی ہے تو کہتے ہیں کہ شادی کے بعد سدھر جائے گا اور کہا جائے کہ نماز کا پابند نہیں تو کہتے ہیں کہ ابھی جوان ہے ، بعد میں پابندی کرلے گا، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اورکچھ زیادہ مالدار نہیں ہے تو ان کا منہ بن جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی نیک اور اچھی سیرت کا مالک ہو۔)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ جس وقت کہ پیغام بھیجے نکاح کا طرف تمہارے وہ شخص کہ راضی ہو تو اس کےدین سے اور اس کے خلق سے پس نکاح کرو اس سے اگر نہ کرو گے تم نکاح تو ہوگا فتنہ زمین میں اورفساد بڑا۔ ‘‘(مظاہرحق، جلدسوم، ص۱۰۴)
ایک نیک اور شریف عورت کیلئے یہ بہت بڑا فتنہ ہے کہ اس کا رشتہ ایسے شخص سے کردیا جائے جو آزاد خیال، فاسق، مغرب زدہ یا ملحد ہو، کیونکہ وہ اسے بے پردگی، بے غیرتی اور دوسرے گناہوں پر مجبور کرے گا اور بالآخر اس نیک و شریف عورت کا دین و اخلاق تباہ و برباد ہوجائے گا۔سلف صالحین کا طریقہ: سلف صالحین کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ جب ان کی اولاد سن بلوغ کو پہنچتی اور وہ نکاح کے قابل ہوتی تو وہ ان کیلئے نیک، شریف اور دین دار گھرانوں میں ان کیلئے شادی کی بات کرتے، بہت زیادہ تکلفات اور مال داری کے بجائے شرافت اور نیکی کو معیار بناکر جلد از جلد رشتہ طے کرکے نکاح اور رخصتی کردیتے۔ تاریخ کی کتابوں سے بطور نمونہ سلف صالحین حضرت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ کا واقعہ امت کے لئے مشعل راہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابو دائود رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میں حضرت سعیدبن مسیّب رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر رہا کرتا تھا ، اتفاق سے میں کچھ روز حاضر خدمت نہ ہوسکا، آپ نے میری غیر حاضری کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا۔ جواب میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے پوچھا: تم کہاں تھے؟ میں نے عرض کیا: میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھا، میں اس کی تجہیز و تکفین میں لگا ہوا تھا، آپ نے فرمایا: تم نے مجھے کیوں نہ بتایا، میں بھی شریک ہوجاتا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ نے فرمایا:
پھر تم نے کوئی اور لڑکی دیکھی؟ میں نے عرض کیا:
خدا آپ کا بھلا کرے، بھلا مجھ سے کون نکاح کرے گا؟ میرے پاس شاید دو تین درہم ہوں گے۔ آپ نے فرمایا:
میں اپنی بیٹی سے تمہارا نکاح کراتا ہوں۔ میںنے کہا: آپ نکاح کروائیں گے؟
آپ نے کہا :
ہاں!
چنانچہ اسی وقت آپ نے خطبہ پڑھا، خدا کی حمدو ثنا بیان فرمائی، درود شریف پڑھا اور دو یا تین درہم مہر پر میرا نکاح کرادیا، میں آپ کی مجلس سے اٹھا تو مارے خوشی کے مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھاکہ میں کیا کروں؟ پھر میں نے اپنے گھر کی راہ لی اور راستہ میں سوچنے لگا کہ کسی سے کچھ قرض لوں، کسی سے کوئی ادھار لوں، پھر میں نے مغرب کی نماز ادا کی اور اپنے گھر لوٹا، گھر پہنچ کر میں نے چراغ جلایا، میرا روزہ تھا، اس لئے افطار کیلئے کھانا اپنے سامنے رکھا، میرا کھانا کیا تھا، روٹی اورزیتون کا تیل تھا، اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی دروازہ کھٹکھٹارہا ہے، میںنے کہا: کون ہے؟ آواز آئی، میں سعید ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ میںنے سعید نامی ایک ایک آدمی کا تصور کیا کہ یہ کون سعید ہوسکتا ہے؟ لیکن سعید بن مسیّب کی طرف میرا ذہن بھی نہیں گیا۔ کیونکہ چالیس سال کا عرصہ ان پر ایسا گزرا کہ وہ گھر سے مسجد کے علاوہ کہیں نہیں نکلے، نہ کہیں گئے۔ میں لپک کر دروازہ پر پہنچا، دیکھا تو حضرت سعید بن مسیّب تشریف فرماہیں، مجھے وہم ہوا کہ شاید آپ کا ارادہ بدل گیا ہے، میں نے عرض کیا:
ابو محمد! (یہ حضرت سعید رحمہ اللہ کی کنیت ہے) اگر آپ اطلاع کردیتے تو میں خود آجاتا، آپ نے فرمایا:
نہیں، تم اس کے زیادہ مستحق تھے کہ تمہارے پاس آیا جائے۔ میں نے عرض کیا : کہئے کیا حکم ہے ؟ انہوںنے فرمایا: تم غیر شادی شدہ تھے، اب تمہاری شادی ہوگئی ہے، اس لئے مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا کہ تم رات تنہا گزارو۔ یہ تمہاری بیوی حاضر ہے، میں نے دیکھا کہ آپ کی صاحبزادی یعنی میری اہلیہ آپ کے ٹھیک پیچھے کھڑی ہیں ، آپ نے صاحبزادی کو دروازے سے اندر داخل کیا اور خود لوٹ کر تشریف لے گئے۔راوی کہتے ہیں : اب میں نے ان سے تخلیہ کیا، میں نے دیکھا کہ حسن و جمال میں وہ یگانہ روزگار تھیں، لوگوں سے کہیں زیادہ انہیں کلام پاک یاد تھا، احادیث نبوی ﷺ ان کے نوک زبان پر تھیں، اور سب عورتوں سے کہیں زیادہ شوہر کے حقوق سے انہیں کامل واقفیت حاصل تھی۔ حضرت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ کی اس صاحبزادی سے خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے اپنے بیٹے ولید بن عبدالملک کیلئے پہلے سے پیغام بھیجا تھا، ان دنوں ولید ولی عہد تھا، لیکن حضرت سعید رحمہ اللہ نے انکار فرمادیا۔ اس واقعہ سے یہی سبق ملتا ہے کہ مال داری کی بجائے دین داری اور شرافت کو معیار بنانا چاہیے۔
(بشکریہ ختم نبوت)
By S A Sagar

No comments:

Post a Comment