Tuesday, 7 July 2020

امام کے پیچھے قرأت فاتحہ: ائمہ اربعہ کے نقطہائے نظر ‏

امام کے پیچھے قرأت فاتحہ: ائمہ اربعہ کے نقطہائے نظر 
-------------------------------
--------------------------------
چاروں فقہی مذاہب؛ حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا تقریبا اتفاق ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے علاوہ کوئی سورہ یا آیت نہیں پڑھ سکتا۔ لیکن کیا سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟؟ اس بارے میں ان کے مابین اختلاف ہے۔
امام شافعی کا مذہب:۔ 
امام شافعی کے نزدیک خواہ جہری نماز ہو یا سری ہر نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ اور دلیل ان کی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی ۔۔۔۔ صحیح مسلم۔ ([المجموع 3/326]. مغني المحتاج 1 / 156، وشرح روض الطالب 1 / 149)
امام احمد بن حنبل کا مذہب:۔ 
امام احمد کے نزدیک جہری نمازوں میں مقتدی کا سورہ فاتحہ پڑھنا مکروہ ہے اور دوسری نمازوں میں مستحب ہے اور جہری نمازوں میں بھی اس وقت مستحب ہے جب مقتدی امام کی قرأت سن نہ سکے ۔۔ ([شرح منتهى الإرادات للبهوتي الحنبلي 1/ 178۔ حاشية الدسوقي على الشرح الكبير 1 / 236 - 237، والخرشي على خليل 1 / 269، وكشاف القناع 1 / 386، والإنصاف 2 / 228)
امام مالک کا مذہب:۔ 
امام مالک کے نزدیک مقتدی جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرے اور اگر کرے گا تو اس کا یہ فعل مکروہ ہوگا اور سری نمازوں میں مقدی امام کے پیچھے قرأت کرسکتا ہے اور اس کا ایسا کرنا مستحب ہے فرض یا واجب نہیں۔ اور امام شافعی سے بھی ایک قول یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی کا امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا واجب نہیں۔ ([شرح مختصر خليل للخرشي المالكي 1/ 269]
امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک:۔
امام صاحب کے نزدیک مقتدی ہر حال میں امام کے پیچھے خاموش رہے۔ امام کے پیچھے مقتدی کا قرأت کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ (تبيين الحقائق 1 / 131، وحاشية ابن عابدين 1/ 366۔ ۔مراقي الفلاح ص 86۔  البناية شرح الهداية 2 /313] 
 امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دلائل: 
١} ..... قرآن کریم سے:۔
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ سورۃ اعراف آیت 204
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ۔۔ سورہ الاعراف 204
جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت نماز میں قرأت سے روکنے کے لئے نازل ہوئی بلکہ بعض مفسرین نے تو اس بات پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع بھی نقل کیا ہے کہ یہ آیت نماز میں قرآت ہی کہ روکنے کے لئے نازل ہوئی ۔۔۔
تفسیر کبیر میں امام رازی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرض نماز میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرأت کی اور آپ کے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے بھی قرأت کی جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت میں خلل واقع ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔۔۔ ج 4 ص 500 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ یہ آیت نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ تفسیر ابن کثیر ج 1، ص 281
٢} قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ ۔ روایت جریر عن قتادۃ- صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کروائے، جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اس طرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ الفاظ منقول ہیں، امام مسلم نے اس روایت کو بھی صحیح کہا ہے.
٣ } مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے. عن عطاء ابن یسار سال زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراۃء مع الامام فی شئی ء- صحیح مسلم ، سجود والتلاوۃ حضرت عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ پڑھنے کی بابت پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی بھی نماز میں امام کے ساتھ ساتھ قرآن نہ پڑھے۔
 ٤ } امام کی قرأت مقتدی کے لئے کافی ھےکان یقول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، من صلی وراء الامام کفاہ قراۃ الامام ۔ صحیح البیہقی، سنن بیہقی، من قال لایقراء
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ جو شخص امام کی اقتداء میں نماز پڑھے اس کے لئے امام کی قرأت کافی ہے۔ (امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
 ٥ } تنہا نمازی فاتحہ پڑھے مقتدی نہیں. کان ابن عمر رضی اللہ عنہ اذا سئل ھل یقرء خلف الامام ؟ قال اذا صلی احد کم خلف الامام فحسبہ قراءۃ الامام واذا صلی وحدہ فلیقرء وکان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ لا یقرء خلف الامام ۔ مؤطا امام مالک، ترک القراءۃ.
جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی پڑھے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ جواب دیتے کہ مقتدی کے لئے امام کی قرأت کافی ہے۔ البتہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو قرأت کرے۔ خود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔ (آثارالسنن میں ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے)
٦ } عن جابر رضی اللہ عنہ یقول من صلی رکعتہ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔ حسن صحیح - ترمذ ی شریف، ترک القراءۃ. حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی، علاوہ اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے. اسی حدیث کی بناء پر امام ترمذ ی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے دادا استاد امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ "لاصلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب" والی حدیث تنہا نمازی کے بارے میں ہے جو مقتدی کو شامل نہیں۔ ترمذی شریف..
٧} عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل صلاۃ یقرا فیھما بام الکتاب فھی خداج الا صلاۃ خلف الامام- کتاب القراءۃ للبیہقی ص 170۔171
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہے مگر وہ نماز (نامکمل نہیں) جو امام کے پیچھے پڑھی جائے۔ مندرجہ بالا احادیث میں بڑی صراحت کے ساتھ باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے سے روکا گیا ہے، لیکن کوئی صحیح مرفوع حدیث ایسی نہیں جس میں صراحتاً باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہو۔ بلکہ قریب اسی 80 کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے امام کے پیچھے مقتدی کو قرأت کرنے سے منع فرمایا ہے. (تبيين الحقائق 1 / 131، وحاشية ابن عابدين 1 / 366۔ محدث فورم) 
والله أعلم بالصواب 
٣\٦\١٥٣٩هجري 
الاتصال ٠٠٥٩٧٨٨٣٦٨٨٧


No comments:

Post a Comment