Wednesday, 8 July 2020

توفیق کیا ہے؟ بے عملی کے لئے توفیق نہ ملنے کے حیلے بہانے ‏

توفیق کیا ہے؟ بے عملی کے لئے توفیق نہ ملنے کے حیلے بہانے 
-------------------------------
--------------------------------
سوال: اگر کوئی آدمی یہ کہے  فلاں آدمی نماز پڑھنے اس لئے نہیں آرھا کہ اللہ اس کو توفیق نہیں دیا  کیا اس طرح کا بولنا غلط ہے؟ قرآن  و حدیث کے روشنی میں حوالہ کے ساتھ جواب دیکر شکریہ کا مقع دیں. اس طرح کی بھی کوئی آیت ھی جس میں توفیق ملنے یا نہ ملنے کا ذکر ہو
نعیم الدین 
الجواب وباللہ التوفیق: 
توفیق کی تعریف: توفیق کی تین تعریفیں ہیں:
۱) تَوْجِیْہُ الْاَسْبَابِ نَحْوَ الْمَطْلُوْبِ الْخَیْرِ۔ اسبابِِ خیروعملِ خیر کے اسباب جمع ہوجائیں۔ جیسے کہیں ملازم تھا جہاں اس کو دینی نقصانات تھے اور پھرکہیں اچھی جگہ یعنی دینی ماحول میں نوکری مل جائے یا ساری زندگی کسی اور کام میں تھا آخر میں خانقاہوں سے، اللہ والوں سےیااللہ والوں کےغلاموں سے جڑگیا، اسباب پیدا ہوگئے، تَوْجِیْہُ الْاَسْبَابِ، تَوْجِیْہْ وَجْہٌ سے ہے یعنی سامنے آجانا۔
۲) توفیق کے دوسرے معنیٰ  ہیں خَلْقُ الْقُدْرَۃِ عَلَی الطَّاعَۃِ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی قدرت پیدا ہوجائے۔
۳) توفیق کی تیسری تعریف ہے:
 تَسْھِیْلُ طَرِیْقِ الْخَیْرِ، وَتَسْدِیْدُ طَرِیْقِ الشَّرِّ خیر کے راستے آسان ہوجائیں اور بُرائیوں کے راستے مسدود ہوجائیں۔ چلا تھا بدنظری کرنے کے لئے، سڑک پر کوئی حسین ہی نہیں آیا، اللہ تعالیٰ نے سب کو بھگادیا،  تو اللہ تعالیٰ بھلائی کے اسباب پیدا فرمادیں اور شر کے راستے بند فرمادیں۔ مولانا اعزاز علی صاحب رحمۃاللہ علیہ استاذ الادب والفقہ اور دارالعلوم دیوبند کے بڑے اکابر میں سے ہیں جنہوں نے مقامات میں توفیق کی یہ تینوں تعریفیں بیان کردیں۔ (نفس کے حملوں سے بچائو کے طریقے۔ صفحہ 26۔ مولفہ حکیم اختر صاحب رحمہ اللہ)
ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو اپنی بے عملی کے لئے توفیق کا بہانہ کرتے ہیں یعنی یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں نماز وروزہ اور دوسرے عملوں کی توفیق عطا فرمائے۔ کبھی کہتے ہیں کہ دعا کیجیے کہ ہدایت ہوجائے۔ درحقیقت ان لوگوں کو توفیق کا معنی معلوم نہیں ہے۔ علمائے کرام نے توفیق کا معنٰی بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ ھُوَ جَعْلُ الْأَسْبَابِ مُوَافِقَۃً لِّلْخَیْرِ جس کامطلب یہ ہے کہ انسان جوکام کرنا چاہے اس کے کرنے کے اسباب مہیا ہوں، بس یہی توفیق ہے۔ 
ہر شخص اپنی قدرت وطاقت کو دیکھ لے، عمل کرنے کے لائق طاقت واستطاعت کاموجود ہونا ہی توفیق ہے۔ اگر مال ہے اور اس پر زکوٰۃ فرض ہے توادائیگی زکوٰۃ کے لیے یہی توفیق ہے۔ اگر اتنا مال ہے جس پر شرعاً حج فرض ہے تو حج کی ادائیگی کے لیے یہی توفیق ہے۔ قواعدِ شرعیہ کے مطابق کھڑے ہوکر، بیٹھ کر، لیٹ کر جس طرح نماز پڑھنے کی قدرت ہو بس یہی توفیق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جوحکم دیا ہے اس کی طاقت بھی دی ہے، جسمانی طاقت ہو یامالی وسعت ہو اس طاقت ووسعت کاہونا توفیق ہے۔ توفیق کوئی بجلی کی طاقت کانام نہیں ہے کہ کرنٹ پہنچے اور خود بخود مجبوراً مشین کی طرح حرکت کرنے لگے، توفیق ہوتے ہوئے بھی اپنا اختیار استعمال کرنا پڑتا ہے۔ 
(حیلے بہانے، مؤلفہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ)
اصل چیز تو فیقِ خداوندی ہی ہے۔ جب تک خدا کی توفیق شاملِ حال نہ ہو کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا ہے۔ اس لیے خدا سے نیکی کے لیے توفیق کی دعا کرنی چاہیے۔ 
 مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑا نصیحت آموز واقعہ لکھا ہے ۔ آپ بھی سنیے:
ایک آقا اورغلام کا گزر مسجد کے پاس سے ہوا۔ نماز کا وقت ہوگیا، اذان دی جاچکی تھی غلام نے آقا سے کہا، تھوڑی دیر کے لیے اجازت دیں تو میں نماز ادا کرلوں۔ آقا نے جو دنیا کی دولت پا کر خدا کو فراموش کرچکا تھا، بے رخی سے اجازت دے کر کہا، جاؤ جلدی سے نماز پڑھ کر آجاؤ، میں یہیں باہر انتظار کرتا ہوں، غلام آقائے حقیقی کے دربار میں چلا گیا ، نماز شروع کردی، نماز کی لذت سے وہ آشنا تھا، وہ اس لذت میں محو تھا ؎
ہر کہ دلبر دید کے ماند خموش 
بلبل گل دید کے ماند خموش
لوگ اپنی اپنی نمازیں پڑھ کر چلے گئے، یہ غلام اور نمازیں پڑھتا رہا، جب کافی تاخیر ہوگئی تو آقا سے رہا نہ گیا، غصہ میں چلّانے لگا ۔ کم بخت! سب نکل گئے، تم وہاں کیا کررہے ہو؟ کیا کسی نے پکڑ لیا ہے جو باہر نہیں آنے دے رہا ہے۔ کون ہے وہ جس نے پکڑ رکھا ہے؟ غلام نے اندر سے جواب دیا، جی ہاں آقا! ہم کو اسی نے پکڑ رکھا ہے اور باہر جانے نہیں دے رہا ہے جو آپ کو اندر آنے نہیں دے رہا ہے۔
بھائیو! دیکھئے توفیق کی بات اور خدا کی عنایت کا حال۔ ایک کو تو اپنی وہ لذت دی کہ باہر نہیں آرہا ہے جیسے پکڑلیا گیا ہو اور دوسرے کو توفیق نہیں دی کہ اندر جاکر نماز ادا کرے۔ بھائیو! توفیقِ خدا وندی کے لئے دعائیں کیا کرو ؎ 
اس کے الطاف تو عام ہیں سب پر شہید ی لیکن
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
(باتیں ان کی یاد رہیں گی)
اعمال صالحہ کی انجام دہی توفیق خداوندی کے بغیر ممکن نہیں۔لیکن توفیق کے صحیح معنی سمجھنے کی ضرورت ہے۔اپنی بے عملی کے توفیق کا بہانہ بنانا جیسے سوال میں مذکور ہے شیطانی فریب ہے۔
قرآن کریم میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے: 
011:088: قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
ترجمہ: شعیب نے کہا اے قوم بھلا دیکھو تو سہی اگر میں ہوں اپنے رب کے سیدھے راستہ پر اور اس نے دی مجھ کو اپنی طرف سے عمدہ (حلال) روزی (تو کیا تمہارے طرح کمائی کھانے لگوں) اور میں نہیں چاہتا کہ خود تم سے پہلے کرنے لگوں جس سے تم کو منع کرتا ہوں، بس میں تو اصلاح ہی چاہتا ہوں جہاں تک ہوسکے، اور میرا کامیاب ہونا تو بس اللہ ہی کے فضل سے ہے اسی پر میں بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (11 :088)


No comments:

Post a Comment