Thursday, 23 July 2020

غزوہ ہند کے نام پر فساد و شرارت

غزوہ ہند کے نام پر فساد و شرارت
----------------
عبدالحمید نعمانی
-----------------
بہت سی باتوں کا تعلق مخصوص زمان و مکان سے ہوتا ہے ، ان کو منظر،پس منظر سے الگ کر کے صحیح طریقے سے سمجھا بھی نہیں جاسکتا ہے ، کسی چیز کا موجود ہونا ، کافی نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے خارج میں مصداق اور صحیح افہام و تفہیم کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بسا اوقات ایک صحیح قانون اور اس کی دفعات کا غلط استعمال ہوتا ہے ، یہی مذہبی احکام و مسائل کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے ،کبھی مخالف غلط استعمال کرتا ہے تو کبھی موافق غلط استعمال کرتا ہے ، دونوں کا مقصد سماج میں اپنی جگہ بناکر اپنے وجود اور سرگرمیوں کا جواز فراہم کرکے تفوق قائم کرنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کتب حدیث میں موجود غزوہ ہند کی روایات کی مثال پیش کی جاسکتی ہے، پاکستان میں روس، افغانستان کے درمیان جاری جنگ کے دوران میں ایک مخصوص طرح کا ذہن و عمل پروان چڑھنے کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی، گزرتے دنوں کے ساتھ بہت سی ایسی تنظیمیں اور گروپس وجود میں آتے چلے گئے، جن کے لیے بہت سی سرگرمیوں کو وقت اور حالات نہ رہ جانے کے باوجود بھی جاری رکھنا زندگی کی ضرورت بن گیا ۔ افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے بعد بھی، اپنی سابقہ کی زندگی اور سرگرمیوں کی طرف واپس جانا مشکل ہوگیاہے کہ جاری سرگرمیوں نے کاروبار حیات کی شکل اختیار کر لی تھی، سامنے سے روس ہٹ جانے کے بعد بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ سرگرمیوں کا رخ دوسری طرف موڑا جائے، ان عناصر نے غزوہ ہند کی روایات کا سہارا لے کر اپنی مہم کار خ بھارت کی طرف موڑ دیا یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ جب ملک اور عالمی سطح پر سفارتی تعلقات اور معاہدے ہوں تو شرعاً و اصولاً جنگ کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے ،غزوہ تو بہت دور کی بات ہے ۔ ویسے بھی شرعی و اصطلاحی طور سے عدم معاہدہ کی صورت میں بھی مقدس غزوہ کا کوئی معنی و مطلب نہیں ہے ، کیوں کہ اسلامی اصطلاح کے مطابق غزوہ اس جنگی مہم کوکہا جاتا ہے ،جس میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود شریک ہوں،ایسی جنگوں کی تعداد، اسلامی تاریخ و سیر ت کی کتابوں میں دو درجن سے زائد 27کے قریب ہے ،جنگ کی ایک قسم سریہ ہے، یعنی وہ جنگی مہم جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات شرکت نہ فرمائی ہو ،بلکہ کسی صحابی ؓ کو قیادت کے لیے متعین و مقرر فرمایا ہو، یہ مذکورہ دونوں کی جنگیں غزوات واقعہ کے زمرے میں آتی ہیں ، ان دونوں کے سوا دیگر جنگیں قتال کے زمرے میں آسکتی ہیں، یا زیادہ سے زیادہ غزوات موعودہ کے ذیل میں ایسی ادنی مناسبت کے پیش نظر محدثین نے ایسی روایا ت کو کتب حدیث میں غزوہ کے باب کے تحت درج کیا ہے، 
کتب حدیث میں غزوات موعودہ کے تحت، کئی ممالک و قبائل کے تناظر میں مختلف قسم کی روایات پائی جاتی ہیں، غزوہ ہند کی روایات ان ہی کا حصہ ہیں ، ان کے حوالے سے پڑوسی ملک میں یہ تاثرات پھیلانے کا کام ہورہا ہے کہ احادیث کے پیش نظر خلافت راشدہ سے قیامت تک ہندستان کے خلاف جتنے بھی حملے ہوں گے،ان میں شریک لوگ غزوہ ہند ہی میں تصور کیے جائیں گے اور نبوی بشارتوں کے حق دار ٹھہریں گے، اس سلسلے میں کئی اہم نکات کو نظر انداز کر کے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خود غزوہ کے دائرے اور زد میں آجاتے ہیں ، یہ سب جانتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت غزوہ ہند کی پیشن گوئی کی تھی ،اس وقت نہ تو بھارت کا موجودہ جغرافیہ تھا، نہ سرحدیں بلکہ بھارت سند ھ سے معروف تھا، اور پورے ملک کے جغرافیائی حدود میں پاکستان، بنگلہ دیش، برما (میانمار) افغانستان بھی شامل تھے اور یہ ایران، بصرہ اور ہندستان کی طرف کے علاقے بھی مراد ہوتے تھے ،اس اعتبار سے نبوی پیشن گوئی والے حملے کی زد میں پاکستان و افغانستان بھی آجاتے ہیں کہ وہ بھی ہند میں شامل تھے ۔ معروف عالم مولانا مفتی سلمان منصور پوری نے کچھ برسوں پہلے غزوہ ہند کی روایات کے مصداق پر ایک تحقیقی تحریر لکھی تھی ،لیکن اس کی زیادہ اشاعت نہیں ہوسکی اور جو افراد میڈیا کے سامنے باتوں کو رکھتے ہیں ، انھوں نے متعلقہ مسئلے سے واقفیت کے لیے کوئی محنت و جستجو نہیں کی، انھوں نے یاتو خاموشی سے کام لیا یا اصل مسئلے کو نظر انداز کر کے دوسری تیسری باتیں کرکے ہندو فرقہ پرستوں کو غزوہ  ہند کے حوالے سے نفرت پھیلانے اور اکثریتی سماج میں اپنی جگہ بنانے کے مواقع فراہم کیے، سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے گروپس سرگرم عمل ہیں جن کی زندگی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے اور اشتعال انگیزیاں کرنے پر قائم ہے ، سرجیت یادو نے ہندو وادی سر جیت یا د وکے نام سے فیس بک اکاﺅنٹ بنا رکھا ہے ، وہ ایک ٹی وی چینل کا ایک پروگرام باربار دکھاتے ہیں ، جس میں شامل مسلم نمائندہ سوال کا جواب نہیں دیتا ہے اور مسلم نام والا ایک راجستھانی آدمی کہتاہے کہ ہاں ہمیں مدرسے میں پڑھایا جاتا ہے کہ بھارت کے غیر مسلموں کے خلاف جنگ کرنی ہوگی، فیس بک پر اور بھی ہندو وادی کے نام سے 6,7 اکاﺅنٹ ہیں، پڑوسی ملک کے کچھ عناصر نے غزوہ   ہند کی روایات کے نام پر جس طرح کا ماحول بنا رکھا ہے اس کا بھارت کے فرقہ پرست ہندستانی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے لیے خوب خوب استعمال کرتے ہیں ، دونوں طرف کے  شدت  پسندوں کو لگتا ہے کہ سیکولرازم اور ملک کے آئین کے دائرے میں ہندوتو اور ملت کے نام پر سرگرمیوں اور سیاست کے لیے کوئی زیادہ گنجائش نہیں ہے ۔ اس لیے مذہبی علامتوں و روایات کا غلط استعمال کرکے سماج میں پھیلنے کی جدو جہد میں لگے ہوئے ہیں ، غزوہ  ہند کی روایات کابے جا استعمال اسی ذیل میں آتا ہے ، اس سوال کو نظر اندا ز کردیا جاتا ہے کہ کوئی بھی پیش گوئی حالات کے تحت عمل کی صورت اختیار کرتی ہے ، اس کے پیش نظرامن و معاہدے کو سبو تاژ کرنے کی کوشش ، شر پسندی اور فسا د انگیزی ہے نہ کہ مقدس جہاد، امت مسلمہ کی مختلف ممالک کے علاوہ بھارت میں آمد اور جنگی مہمات، حضرات صحابہ ؓ خلافت راشدہ کے دور ،حضرت عمر ؓ کے عہد سے شروع ہوکر ، تابعین محمد بن قاسم اور بعد کے دنوں میں عمل میں آچکی ہیں اور غزوہ ہند کے متعلق نبوی پیشن گوئی کا ظہور مسلم حکمرانوں کی فتوحات کی شکل میں ہوچکا ہے ۔ حضرت عیسیٰؑ سے ملنے والے گروہ کے متعلق روایات گرچہ صحت و وضاحت سے خالی ہیں ، تاہم ماضی کی جنگی مہمات اور کارہائے دعوت و تبلیغ سے جو خطے ، سندھ ، افغانستان ، ،بصرہ وغیرہ مسلم آبادیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں ، وہیں سے حضرت عیسیٰؑ سے ملنے والا گروہ بھی ہوسکتا ہے، غزوہ  ہند سے متعلق حضرات ابو ہریرہ ؓ (دو روایات)ثوبانؓ، ابی بن کعب، صفوان بن عمر وؒ (تابعی) کے حوالے سے ذخیرہ احادیث میں کل پانچ (5) روایات ہیں، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی دونوں روایات میں اطلاع دی گئی ہے کہ اس امت میں سندھ و ہند کی طرف لشکروں کی روانگی ہوگی ، اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور اس میں شہید ہوگیا یا اگر واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ؓ ہوں گا جسے اللہ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا(مسند احمد ج دوم 369 البدایة و النہا یةلابن کثیر جلد 6، صفحہ223) ایک دوسری سند سے نسائی اور السنن الکبریٰ میں بھی حضرت ابو ہریرہ ؓ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں بھی قریب قریب مذکورہ روایت کی طرح باتیں ہیں، لیکن یہ دوسری روایت کی اسنادی کمزوری کی طرف امام مزی اور امام ذہبی ؒ نے تہذیب الکمال اور میزان الاعتدال میں اشارہ کیا ہے،
حضرات ثوبان و ابی ابن کعب ؓ اور صفوان بن عمرو ؒ کی روایات میں کچھ دیگر تفصیلات (اور کئی طرح کے علمی مباحث) ہیں، مثلاً یہ کہ میری امت کے کچھ لوگ ہند میں جنگ کریں گے اللہ تعالی ان کو فتح عطا فرمائے گا حتی کہ وہ اس کے حکمراں کو بیٹریوں میں جکڑے ہوئے پائیں گے۔ ایسی روایات میں کئی طرح احتمالات و سوالات کے ساتھ اسنادی کمزوریوں کے ساتھ مختلف صحیح روایات کے خلاف بھی ہیں مزید یہ کہ دور اول محمد بن قاسم اور عہد وسطی میں مسلم حکمرانوں  کی فتوحات اور سندھ ،ہند کے حکمراں کی گرفتاری کے واقعات بھی ظہور پذیر ہوچکے ہیں توایسی حالت میں طرف سے دونوں شدت پسند گروپس کی جانب سے امن و معاہدہ کے تحت زندگی گزارنے والے افراد کو روایات کا مخاطب بنانا سرا سر شرارت اور غارت پسندی کے سوا کچھ اور نہیں ہے، آج کی تاریخ میں عالمی اور ملک کی سطح پر انسانی سماج کے امن اور آزادی کا تحفظ و بقاء ازحد ضروری ہے۔


No comments:

Post a Comment