Saturday, 18 July 2020

حرمت رضاعت کی شرط وعلت؟

حرمت رضاعت کی شرط وعلت؟ 
رضاعی بھتیجی یا بھانجی سے ثبوت محرمیت؟ 
چھاتی کی بجائے بوتل وپیالہ وغیرہ سے دودھ پلانے سے ثبوت رضاعت؟ 
-------------------------------
--------------------------------
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
بھائی جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں ایک لڑکی کی پرورش کر ریا ہوں جو بھی ہو مگر ہے تو اجنبیہ بڑی ہونے کے بعد مجھ سے پردہ ہوگا اس کے لئے اگر میں اپنی بہن سے دودھ پلوا دوں تو وہ میرے لئے محرم ہوجائے گی، اتنا تو مجھے معلوم ہے لیکن آپ دو باتیں بتائیے اور نہ معلوم ہو تو صحیح بات پتہ کرکے بتائیے۔
1- دودھ اگر میں اپنی بہن کے علاوہ اپنی بھابھی سے پلوا دوں تو کیا محرم ہوجائیے گی؟
2 - دودھ کی مقدار مصۃ او مصتین آئی ہے تو کیا ایک مرتبہ پلانا کافی ہے یا کئی مرتبہ پلانا ہوگا؟؟
 ایک بات یہ بھی بتا دوکہ اگر دودھ چھاتی سے لگاکر نہ پلائیں بلکہ نکال کر دے دیں اور بوتل سے پلا دیا جائے تو بھی رضاعت ثابت ہوجائے گی نا؟؟
المستفتی محمد ریحان قاسمی الہ آبادی 
——————————
الجواب وباللہ التوفیق:
ایام رضاعت (دو سال صاحبین کے یہاں، اور یہی اقوی بھی ہے، اور ڈھائی سال امام صاحب کے یہاں، دونوں قول مفتی بہ ہیں) میں اگر نو سال سے زائد عمر کی کسی لڑکی یا عورت کا دودھ کسی شیرخوار کو پلادیا جائے، خواہ چھاتی میں لگاکر پلائے، یا پیالہ میں نکال کر، ایک مرتبہ پلائے یا کئی مرتبہ، اگر اس بچے کے جوف معدہ میں کسی عورت کا دودھ پہنچ جائے تو دونوں کے مابین رضاعت ثابت ہوجائے گی 
جس طرح نسبی بھانجی اور نسبی بھتیجی سے محرمیت قائم ہوجاتی ہے اسی طرح شرط مذکورہ کے ساتھ بہن یا بھابھی کی مُرضَعہ کے درمیان بھی محرمیت قائم ہوجائے گی اور سائل اس بچی کے رضاعی ماموں اور رضاعی چچا بن جائے گا 
حرمت مصاہرت کی علت جزئیت اور بعضیت کا ثبوت یعنی گوشت وہڈی کا نشو ونما ہے اور یہ جزئیت جیسے راست پستان سے دودھ پلانے سے ثابت ہوتی ہے ویسا ہی پستان سے دودھ کسی پیالے وغیرہ میں نکال کر پلانے سے بھی قائم ہوجاتی ہے، احناف کے مطلق دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، مقدار کی قلت وکثرت اس میں مؤثر نہیں ہے: 
قالَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في بنْتِ حَمْزَةَ: لا تَحِلُّ لِي، يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ ما يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ، هي بنْتُ أخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ. عن عبدالله بن عباس. صحيح البخاري: 2645)
{حرّمت علیکم اُمّهتکم وبنٰتکم واَخوٰتکم وعمّٰتکم وخٰلٰتکم وبنٰت الاخ وبنٰت الأخت}۔ (سورۃ النسآء: 23)
الحنفیۃ قالوا: یشترط في المرضعۃ شرطان: أحدهما أن تکون المرأۃ آدمیة ۔ ثانیها: أن تکون بنت تسع سنین فما فوقها ۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعة مکمل ۹۱۹)
هو مص الرضیع من ثدي الآدمية ۔ (البحر الرائق221/3 ، شامی 291/4: بیروت)
ولبن بکر بنت تسع سنین فأکثر محرم وإلا لا ۔ (شامي 302/4 بیروت)
ولبن البکر أي موجب للحرمة بشرط أن تکون البکر بلغت تسع سنین فأکثر، أما لو لم تبلغ سنین فنزل لها لبن فأرضعت به صبیًا لم یتعلق به تحریم ۔ (البحرالرائق228/3)
وقلیل الرضاع وکثیره سواء في إثبات الحرمة؛ لأن المنصوص علیه فعل الإرضاع دون العدد. قال اللّٰہ تعالیٰ: وَاُمَّہَاتُکُمُ اللَّاتِيْ اَرْضَعْنَکُمْ
رضاعت سے حرمت کے ثبوت کے لیے قلیل و کثیر مقدار کا حکم ایک جیسا ہے۔ کیونکہ نص عدد کی شرط لگائے بغیر فعلِ رضاعت ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو (حرام ہیں)۔
(محمود بن أحمد، برهان الدين، الامام، المحیط، 4: 95)
وكما يحصل الرضاع بالمص من الثدي يحصل بالصب والسعوط والوجور كذا في فتاوى قاضي خان۔ (الهندية ٣٤٤/١)
وفی الدرالمختار218/3: (وكذا) يحرم (لبن ميتة) ولو محلوبا۔
(ولو محلوبا) سواء حلب قبل موتها فشربه الصبي بعد موتها أو حلب بعد موتها بحر۔
وفی الشامیۃ (208/3) :وجعل الوجور والسعوط ملحقين بالمص ۔
وفیه أیضا (202/2): قوله (وكذا لو أوجره) أي لبن الكبيرة رجل في فيها أي الصغيرة وأشار إلى أن الحرمة لا تتوقف على الإرضاع بل المدار على وصول لبن الكبيرة إلى جوف الصغيرة فتبين كلاهما منه۔
والله أعلم بالصواب 
٢٤ ذي القعدة ١٤٤١ ہجری

No comments:

Post a Comment