انوارالفقھاء:
نذر کی قربانی، میت کی طرف سے کی گئی قربانی اور بقرعید کی قربانی کے گوشت کے مصارف؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: نذر کی قربانی کا گوشت اور میت کی طرف کی گئی قربانی اور بقرعید کی قربانی کے گوشت کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ نیز دوسرے کو دینے یا بیچنے اور کسی چیز سے تبادلہ کرنا کیسا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی مہمانی ہوتی ہے، اور مہمان کو کھانے پینے کی پوری اِجازت ہوتی ہے؛ لیکن کسی چیز کے بیچنے اور فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اِس لئے بندہ قربانی کے گوشت کو کھانے اور کھال کو جوتے وغیرہ کے کام میں پورے طور پر استعمال کرسکتا ہے، اور دوسرے کسی شخص کو بلاکسی معاوضہ کے دے سکتا ہے؛ لیکن کسی چیز کی اُجرت میں دینا جائز نہیں ہے۔
لأنہا من ضیافۃ اللّٰہ عز شانہ التي أضاف بہا عبادہ، ولیس للضیف أن یبیع من طعام الضیافۃ شیئًا۔
(بدائع الصنائع ۴؍۲۲۵ زکریا)
قربانی کے گوشت کے متعلق جو احکامِ شرعی معلوم کئے گئے ہیں، اُن کو تین الگ الگ سرخیوں میں واضح کیا جائے گا:
(۱) گوشت کو اپنے استعمال میں لانا
(۲) کسی دوسرے کو دینا
(۳) بیچنا یا کسی چیز سے تبادلہ کرنا۔ ذیل میں ترتیب وار ہر ایک کو واضح کیا جاتا ہے۔
___________________________
(۱) گوشت کو اپنے استعمال میں لانا:-
اگر نذر اور منت کی قربانی ہے تو اُس کا سارا گوشت غریبوں پر خرچ خیرات کرنا ضروری ہے، خود استعمال نہیں کرسکتا، اگر استعمال کرلیا تو اُس کے برابر قیمت کا صدقہ کرنا لازم ہے۔
(بہشتی زیور مکمل مدلل ۳؍۱۳۹)
اگر میت نے قربانی کی وصیت کی تھی، تو میت کی طرف سے وصیت کردہ قربانی کا گوشت نہیں کھاسکتا، اُس کا صدقہ کرنا لازم اور ضروری ہے، اور اگر میت کی طرف سے بطور تبرع قربانی کیا ہے، تو اُس کا گوشت کھانے اور دوسرے کو دینے کا پورا اختیار حاصل ہے۔
(احسن الفتاویٰ ۷؍۴۹۶، امداد الفتاویٰ ۳؍۵۳۳)
اور اگر قربانی کا گوشت ہے تو اپنے استعمال میں لاسکتا ہے، اور دوسرے کو بلامعاضہ دے سکتا ہے۔
(مالابد منہ ۱۶۸)
لیکن قربانی کے گوشت میں اَفضل اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ کل گوشت کے تین حصے کئے جائیں، ایک حصہ غریب اور مسکین پر صدقہ کردیا جائے، اور ایک حصہ اعزہ واَقارب کی مہمان نوازی کے لئے اپنے پاس روک لے، اور ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لئے رکھے؛ لیکن اگر کوئی ایک تہائی سے کم غریبوں کے لئے خیرات کرے، یا کچھ بھی خیرات نہ کرے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔
(بہشتی زیور ۳؍۱۶۵)
اور اگر کوئی زیادہ اَولاد والا ہے اور خوش حال نہیں ہے، ایسے شخص کے لئے گوشت کا تہائی حصہ صدقہ کرنا مستحب ہے، اور اگر گوشت کو سکھاکر یا فریج میں رکھ کر کئی دنوں تک استعمال کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
(فتاویٰ محمودیہ ۴؍۲۱۵)
ولا یأکل الناذر منہا، فإن أکل تصدق بقیمۃ ما أکل۔
(الدر المختار مع الشامي ۹؍۴۶۴ زکریا)
والمختار أنہ إن بأمر المیت لایأکل منہا وإلا یأکل۔
(شامي ۹؍۴۷۲ زکریا)
وإن تبرع بہا عنہ لہ الأکل؛ لأنہ یقع علی ملک الذابح والثواب للمیت۔
(شامي ۹؍۴۸۴ زکریا)
ویسحب أن یأکل من أضحیتہ ویطعم منہا غیرہ۔
(الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۰۰)
والأفضل أن یتصدق بالثلث ویتخذ الثلث ضیافۃ لأقربائہ وأصدقائہ، ویدخر الثلث، ویستحب أن یأکل منہا، ولو حبس الکل لنفسہ جاز؛ لأن القربۃ في الإراقۃ والتصدق باللحم تطوع۔
(شامي ۹؍۴۷۴ زکریا، بدائع الصنائع ۴؍۲۲۴ زکریا)
وندب ترکہ لذي عیال غیر موسع الحال۔ (شامي ۹؍۴۷۴ زکریا)
____________________________
(۲) قربانی کا گوشت کسی دوسرے کو دینا:-
قربانی کا گوشت مسلم، غیرمسلم مال دار اور فقیر سب کو دیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ کسی معاوضہ میں نہ دیا جائے۔
(احسن الفتاویٰ ۷؍۴۹۵، فتاویٰ رحیمیہ ۶؍۱۶۵)
خوش حال لوگوں کے لئے یہ مستحب ہے کہ گوشت میں سے تہائی حصہ فقیروں پر صدقہ کردے، اور کسی دوسرے کی قربانی کا دیا ہوا گوشت کھانا یا کسی کو دینا یا فروخت کرکے اُس کی قیمت استعمال کرنا جائز اور درست ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ ۱۴؍۲۵۰)
یہب منہا ما شاء للغني والفقیر والمسلم والذمي، کذا في الغیاثیۃ۔
(الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۰۰ زکریا)
وندب أن لاینقص الصدقۃ من الثلث۔ (البحر الرائق ۸؍۳۲۶ زکریا)
أن إطعامہا والتصدق أفضل إلا أن یکون الرجل ذا عیال وغیر موسع الحال الخ۔ (بدائع الصنائع ۴؍۲۲۵ زکریا)
_________________________________
(۳) بیچنا یا کسی چیز سے تبادلہ کرنا:-
قربانی کے گوشت کو روپے پیسوں اور ایسی چیز کے عوض فروخت کرنا جائز نہیں، جس کے باقی رہتے ہوئے نفع اٹھانا ممکن نہیں، مثلاً کھانا، تیل، گوشت، اَناج، سرکہ، مصالح وغیرہ اور جن چیزوں کے باقی رہتے ہوئے نفع حاصل کرنا ممکن ہو، اُن سے تبادلہ درست ہے، جیسے مصلی کپڑے وغیرہ، پس اگر کسی نے روپے کے عوض یا ایسی چیز کے عوض بیچا جس کے باقی رہتے ہوئے نفع حاصل کرنا ممکن نہیں، تو اُس کی قیمت اور تبادلہ میں حاصل شدہ چیز کا صدقہ کرنا لازم اور ضروری ہے، ذبح کرنے والے کو ذبح کی اُجرت میں اور کام کرنے والے مزدور کے کھانے میں قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں، اگر کسی نے دے دیا، تو اُس کے برابر قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔ (احسن الفتاویٰ ۷؍۴۹۴)
فإن بیع اللحم أو الجلد بہ أي بمستہلک أو بدراہم تصدق بثمنہ۔ (الدرالمختار) أي وبالدراہم فیما لو أبدلہ بہ۔
(الدرالمختار مع الشامي ۹؍۴۷۵ زکریا)
ولا یعطی أجر الجزار منہا؛ لأنہ کبیع۔ (الدر المختار مع الشامي ۹؍۴۷۵ زکریا)
اگر بفروشد کسے گوشت اضحیہ را بدراہم یا تبدیل کند از سرکہ وغیرہ پس واجب است کہ تصدق کند قیمت آں را۔ (مالابد منہ ۱۶۹)
ولو باعہ نفذ سواء کان من النوع الأول أو الثاني فعلیہ أن یتصدق بثمنہ۔ (بدائع الصنائع ۴؍۲۲۴ زکریا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۱۰؍۱۴۲۸ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
=============================
واللہ اعلم بالصواب
محمد مصروف مظاہری
http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_31.html?m=1
No comments:
Post a Comment