Saturday 18 July 2020

ایک بکرا، بکری کی قربانی پوری فیملی کی طرف سے کافی نہیں!


ایک بکرا، بکری کی قربانی پوری فیملی کی طرف سے کافی نہیں!
------------------------------------------
از: مفتی محمد جعفر ملی رحمانی
دارالافتاء جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا 
-------------------------------------------
اِس وقت وہاٹس ایپ پر ایک بیان چل رہا ہے، کہ ایک بکری کی قربانی پوری فیملی کی طرف سے ہوسکتی ہے، اور اس میں دو حدیثوں سے استدلال کیا جارہا ہے۔
حدیثِ اول: عطا بن یسار کہتے ہیں میں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا: ایک آدمی اپنی طرف سے اور گھروالوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا، پس وہ اس کو کھاتے تھے، اور دوسروں کو کھلاتے تھے، یہاں تک کہ لوگوں میں مُفاخرت شروع ہوگئی، جس کے نتیجے میں وہ صورتِ حال ہوگئی ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔(۱)
حدیثِ ثانی: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا:
”اللہم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد“- 
یعنی اے اللہ! تو اس قربانی کو میری طرف سے اور آل محمد (میرے گھر والوں) کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے قبول فرما۔ (۲)
اِن دو حدیثوں کو بنیاد بناکر یہ کہا جارہا ہے کہ ایک بکری کی قربانی پوری فیملی کی طرف سے درست ہے۔
جب کہ مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ استدلال صحیح ودرست نہیں ہے، کیوں کہ حدیث اول میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول: 
”کان الرجل في عہد النبي یضحي بالشاة عنہ وعن أہل بیتہ“- 
ایک آدمی عہدِ نبوی میں اپنی طرف سے، اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا۔ کے متعلق علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے ”اعلاء السننن“ میں، حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے ”تکملة فتح الملہم“ میں، حضرت مفتی سعید صاحب پالن پوری دامت برکاتہم نے ”تحفة الالمعی“ میں قابلِ قبول یہ توجیہ فرمائی ہے کہ یہ حدیث ثواب میں شرکت پر محمول ہے، اِجزاء واِسقاطِ واجب پر نہیں۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربانی فرمایا، اس لیے اب امت کی طرف سے قربانی ساقط ہوگئی، بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ میں اِس قربانی کے ثواب میں ساری امت کو شریک کرتا ہوں، اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایتِ مذکورہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ عہد نبوی میں مال وزر کی کثرت نہیں تھی، بعض اوقات گھر کے اندر ایک ہی شخص کے ذمے قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگ چوں کہ صاحبِ نصاب نہیں ہوتے تھے، اس لیے اُن کے ذمے قربانی واجب نہیں ہوتی تھی، لیکن قربانی کرنے والا اپنی واجب قربانی کے ثواب میں گھر کے تمام افراد کو شریک کرلیا کرتا تھا، جسے شرکت فی الثواب تو کہا جاسکتا ہے، شرکت فی الواجب نہیں۔ اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اسی کے بارے میں یہ فرمارہے ہیں کہ جس شخص پر قربانی واجب ہوتی تھی، وہ اپنی اس واجب قربانی کے ثواب میں گھر کے تمام افراد کو شامل کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ لوگوں نے مفاخرت شروع کردی، اور مفاخرت کے طور پر اُن افراد کی طرف سے بھی قربانی شروع کردی، جن کے ذمہ قربانی واجب نہیں تھی، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اسی مفاخرت پر نکیر فرمارہے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِمبارک میں اس طرح مفاخرت کے طور پر قربانی کرنے کا رَواج نہیں تھا، جیسا کہ آج رائج ہے، یہ مراد ہرگز نہیں کہ جب گھر کا سربراہ یا ایک فرد، جس پر قربانی واجب ہے، وہ اپنی طرف سے قربانی کردے، تو گھر کے اُن تمام افراد کی طرف سے بھی قربانی ساقط ہوگی جن پر قربانی واجب ہے۔ (۳)
اسی طرح حدیثِ ثانی جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا: 
”اللّٰہم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد“-
یعنی اے اللہ! تو اس قربانی کو میری طرف سے اور آل محمد (میرے گھر والوں) کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے قبول فرما۔ یہ حدیث اور اِس جیسی دیگر حدیثوں کا صحیح محمل ومطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آل محمد اور پوری امت کو صرف ثواب میں شریک فرمایا ہے، اداء واجب میں نہیں، جیسا کہ ”فتح الودود علی ہامش أبی داود“ کی عبارت سے واضح ہوتا ہے:
” یحمل الحدیث علی الاشتراک في الثواب والأجر بحیث لا ینقص بہ أجر المضحي ، قیل : وہو الأوجہ في الحدیث عند الکل“ ۔ (ص/۳۸۸، حاشیہ :۷)
اسی طرح علامہ رملی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک بکری صرف ایک شخص کی طرف سے کافی ہوگی، رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: 
”اللہم ہذا عن محمد وأمة محمد“- 
تو یہ نفسِ ثواب میں شرکت پر محمول ہے، واجب قربانی کی ادائیگی میں نہیں۔ ”والشاة عن واحد فقط ……وأما خبر: اللہم ہذا عن محمد وأمة محمد فمحمول علی أن المراد التشریک في الثواب لا في الأضحیة“۔ (تکملة فتح الملہم: ۳/۵۶۴)
نیز ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قربانی میں امت کو شریک کرنا) اگرثواب میں شری
کرنے پر محمول ہے، تو اس پر کوئی اشکال نہیں، اور اگر حقیقت (واجب قربانی میں شریک کرنے) پر محمول ہے، تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ 
”ثم المشارکة أما محمولة علی الثواب، وأما علی الحقیقة فیکون من خصوصیة ذلک الجناب“۔ (مرقاة شرح مشکوة: ۳/۵۶۸)
نیز آپ رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مینڈھے کی قربانی اپنی ذاتِ شریفہ کی طرف سے کی، اور دوسری قربانی اپنی امت کے اُن لوگوں کی طرف سے فرمائی، جو قربانی نہیں کرسکتے تھے۔
”والأظہر أن یکون أحدہما عن ذاتہ الشریفة، والثاني عن أمتہ الضعیفة “ ۔ (ایضًا :۳/۳۶۹)
محدث کبیر حضرت مولانا مفتی سعید صاحب پالن پوری دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث مختصر ہے، پوری روایت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے قربان کیے تھے، ایک اپنی طرف سے واجب قربانی کی تھی، اور دوسری نفل قربانی کی تھی، جس میں اپنے آل اور امت کو بھی حصولِ ثواب میں شریک کیا تھا، اور نفل قربانی میں کئی افراد کو حصولِ ثواب میں شریک کرنا جائز ہے۔(۵)
آپ مدظلہ العالی کے قول کی تائید ملا علی قاری رحمہ اللہ کے مذکورہ قول: 
”والأظہر أن یکون أحدہما عن ذاتہ الشریفة، والثاني عن أمتہ الضعیفة“
سے ہوتی ہے۔ عقل وقیاس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایک بکرا یا بکری کی واجب قربانی میں کئی لوگوں کا شریک ہونا، جائز ودرست نہ ہو، کیوں کہ اگر ایک بکرا یا بکری میں کئی لوگوں کاشریک ہونا جائز ہوگا، تو ایک بڑے جانور میں سات سے زائد لوگوں کا شریک ہونا بدرجہٴ اولیٰ جائز ہوگا، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شریعت نے بڑے جانور میں سات لوگوں کی شرکت کی جو تحدید کی، وہ باطل ہوگی، اس لیے حق اور صحیح بات یہی ہے کہ ایک بکرا، بکری،دنبہ دنبی اور بھیڑ ایک ہی شخص کی طرف سے کافی ہوگی، پورے اہلِ خانہ کی طرف سے نہیں، اور علامہ نووی رحمہ اللہ نے اسی پر اجماع بھی نقل فرمایا ہے۔ 
”وأجمعوا علی أن الشاة لا یجوز الاشتراک فیہا“ (نووی شرح مسلم: ۱/۴۲۴)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
”من وجد سعة ولم یضح فلا یقربن مصلانا“ 
”جوشخص قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ نہ آئے“سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر صاحبِ استطاعت پر مستقل قربانی واجب ہے، ایک بکرا یا بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں، اگر ایسا ہوتا تو کوئی شخص بھی اس وعید کا مصداق نہ بنتا، جو آپ کے اِس فرمان میں موجود ہے، کیوں کہ اس صورت میں ایک بکرا، بکری میں سو اور دو سو سے زائد لوگ بھی شریک ہوسکتے تھے،اور یہ ہر کسی کے بس میں ہوتا، کوئی بھی اس سے عاجز نہ ہوتا۔ لہٰذا! امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ وہاٹس ایپ، انٹرنیٹ وغیرہ پر اس طرح کی گمراہ کن اور کارِخیر سے دُور کرنے والی ویڈیو کلیپس پر دھیان نہ دیں، اور ہر وہ شخص جس پر قربانی واجب ہے، وہ بطیبِ خاطرقربانی کرے، واجب قربانی سے انحراف، اعراض اور فرار کی راہ تلاش نہ کرے، کہ اسی میں اُس کی دنیا وآخرت کی کامیابی وفلاح ہے، اور یہی ایک مومن کی صفت بھی ہے کہ وہ نیک کاموں میں دوسروں پر سبقت کی کوشش کرتا ہے۔ 
﴿اولئک یسارعون في الخیرات﴾
فاستبقوا الخیرات!
اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے!
آمین یا رب العالمین!
یکم ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ.. Sep .5 .  2016


No comments:

Post a Comment