تھکن دور کرنے کا نبوی وظیفہ
تسبیح فاطمہ کسے کہتے ہیں؟ اس کی کیا فضیلت ہے؟
سوال: تسبیح فاطمہ کسے کہتے ہیں؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1438=1203/ل
33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ، 34 بار اللہ اکبر، تسبیح فاطمی کہلاتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ: دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :8655
تاریخ اجراء :Nov 17, 2008
------
اس کا نام تسبیح فاطمہ ہے: 2388 -[8]: وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا فَقَالَ: «أَلَا أَدُلُّكِ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ خَادِمٍ؟ تُسَبِّحِينَ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَتَحْمَدِينَ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَتُكَبِّرِينَ اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ وَعِنْدَ مَنَامِكِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراء نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں خادم مانگنے آئیں ۱؎ تو فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتا دو جو خادم سے بہتر ہے ۳۳ بار سبحان اللہ پڑھا کرو اور ۳۳ بار الحمدللہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر ہر نماز کے وقت اور سوتے وقت پڑھ لیا کرو۲؎ (مسلم)
۱؎ حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر کیونکہ اس دن حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کا قیام انہی کے دولت خانہ میں تھا کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بہت لونڈی غلام آئے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسلمانوں میں تقسیم فرمارہے ہیں تم بھی جاؤ ایک لونڈی حاصل کرلو جیسا کہ پچھلی حدیث میں گزرا۔ خیال رہے کہ خادم مذکر مؤنث دونوں کو کہا جاتا ہے، یہاں مؤنث مراد ہے کیونکہ حضرت خاتون جنت نے لونڈی مانگی تھی جو چکی چولہے کا کام کرسکے۔ (ازمرقات)
۲؎ پچھلی حدیث میں صرف صبح شام کا ذکر تھا یہاں ہر نماز کا ذکر ہے۔ ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے تو صرف صبح شام کا حکم دیا ہو بعد میں ہر نماز کے بعد یا اس کے برعکس بہرحال احادیث میں تعارض نہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فقر غنا سے افضل ہے اور صبر شکر سے بہتر، یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو محنتی، عابد، زاہد، متقی بنائیں۔ انہیں صرف مالدار کرنے کی کوشش نہ کریں لڑکی کے لیے بہترین جہیز اعمال صالحہ ہیں نہ کہ صرف مال، یہ حدیث تربیت و تعلیم کا خزانہ ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکی سسرال کی تکالیف کی شکایت ماں باپ سے کرسکتی ہے ازالۂ تکلیف کے لیے، یہ بھی معلوم ہوا کہ سسرال کی تکلیف پر ماں باپ لڑکی کو گھر نہ بٹھالیں بلکہ وہاں ہی رکھیں اور صبر و شکر کی تلقین کریں، اس سے خانگی زندگی کے بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔
------
صحیح بخاری - کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
باب: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3748 - حدیث نمبر: 3748 - حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أُتِيَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ، بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلَام فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ فَجَعَلَ يَنْكُتُ، وَقَالَ: فِي حُسْنِهِ شَيْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ: كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مَخْضُوبًا بِالْوَسْمَةِ.
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ: أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهِمَا السَّلَام شَكَتْ مَا تَلْقَى فِي يَدِهَا مِنَ الرَّحَى ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا فَلَمْ تَجِدْهُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ، فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ قَالَ: فَجَاءَنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْتُ أَقُومُ، فَقَالَ: مَكَانَكِ، فَجَلَسَ بَيْنَنَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِي، فَقَالَ: أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى مَاهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ؟ إِذَا أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا أَوْ أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا، فَكَبِّرَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَهَذَا خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ، وعَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: التَّسْبِيحُ أَرْبَعٌ وَثَلَاثُونَ
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی وجہ سے کہ ان کے مبارک ہاتھ کو صدمہ پہنچتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادم مانگنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ہم اس وقت تک اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے میں کھڑا ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتا دوں جو تمہارے لیے خادم سے بھی بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو تو تینتیس (33) مرتبہ «الله اكبر» کہو، تینتیس (33) مرتبہ «سبحان الله» کہو اور تینتیس (33) مرتبہ «الحمد الله» کہو، یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے اور شعبہ سے روایت ہے ان سے خالد نے، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا کہ سبحان اللہ چونتیس (34) مرتبہ کہو۔ Sahih Bukhari #6318
غیرنبی کے لئے منفرداً ”علیہ السلام “ یا ”صلی اللہ علیہ“ کہنے کا مسئلہ صحابہ، تابعین وعلماء مجتہدین کے درمیان اختلافی رہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس، طاووس، عمر بن عبدالعزيز، امام ابوحنيفة، مالک، سفيان بن عيينة، سفيان ثوري اور علماء شوافع میں امام جوینی وغیرہ کے لئے یہاں مکروہ ہے. پھر بعض مکروہ تحریمی یعنی ناجائز، جبکہ دیگر بعض کراہت تنزیہی کے قائل ہیں. حضرت حسن بصري، خصيف، مجاهد، مقاتل بن سليمان ومقاتل بن حيان، إمام أحمد، إسحاق بن راهويه، أبوثور اور محمد بن جرير الطبري وغیرہ کے یہاں اہل بیت رسول واصحاب رسول کے لئے علیہ السلام کہنا جائز ہے بشرطیکہ یہ کسی گمراہ فرقے کا شعار نہ بن گیا ہو۔ امام ابن قیم جوزیہ نے ”جلاء الأفهام في فضل الصلاة على محمد خير الأنام صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ“ ص (465- 482) میں اس مسئلے پہ سب سے زیادہ شرح وبسط کے ساتھ کلام کرتے ہوئے مانعین ومجیزین کے دسیوں دلائل نقل کئے ہیں. ہمارے علماء کراہت تحریمی کے قائل بھی اسی لئے ہیں کہ یہ روافض کا شعار ہے جیساکہ ملا علی قاری نے تصریح فرمائی ہے؛ کیونکہ روافض حضرت ابوبکر صدیق یا حضرت عمر و عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم کے لئے نہیں؛ بلکہ صرف چوتھے خلیفہ حضرت علی، فاطمہ اور اولاد رسول کے لیے ہی علیہ السلام لکھتے ہیں
ظاہر ہے یہ صریح تفضیل وتفریق اصحاب رسول ہے جوکہ ممنوع ہے.
اگر کبھی کبھار اصحاب رسول یا اہل بیت میں سے کسی کے لئے علیہ السلام لکھدیا جائے تو حنابلہ اور دیگر محدثین اس کی گنجائش دیتے ہیں. اسی لئے بعض محدثین یا نسّاخ حدیث اہل بیت رسول کے ساتھ یہ صیغہ لکھتے آئے ہیں.
آپ نے جن احادیث میں حضرت علی، فاطمہ یا ان کی اولاد کے لئے علیہ السلام لکھے جانے کا حوالہ دیا ہے. وہ اسی قول و نظریے کی بنیاد پر نسّاخ حدیث نے تحریر فرمائے ہیں ،متن حدیث کا وہ جزو نہیں ہے. مشہور محقق ومحدث، بلوغ المرام للحافظ کے شارح، صاحب سبل السلام امیر صنعانی اپنی مذکورہ شرح میں اسی وجہ سے جابجا اہل بیت رسول کے لئے علیہ السلام لکھتے نظر آئے ہیں. فریقین کے دلائل کے لئے درج ذیل مصادر کی مراجعت فرمائیں:
جلاء الأفهام" ص (465- 482)، "تفسير ابن كثير"لقوله تعالى: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا) الأحزاب/56 )، الأذكار للنووي ص 274 ) الفقہ الاکبر ص 167, الفتاوى الكبرى لابن تيمية (2/173)، الموسوعة الفقهية (27/239)، فتاوی الشيخ ابن عثيمين رحمه الله)
واللہ اعلم بالصواب
----------------------------------
۱۔ تسبیحات فاطمہ رضی اللہ عنہا
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا کہ میں تمھیں اپنا اور فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ لاڈلی بیٹی تھیں قصہ سناؤں۔ شاگرد نے کہا ضرور۔ فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں جس کی وجہ سے ہاتھ میں نشان پڑ گئے تھے اور خود پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے سینہ پر مشک کی رسی کے نشان پڑگئے تھے اور گھر کی جھاڑو وغیرہ بھی خود ہی دیتی تھیں جس کی وجہ سے تمام کپڑے میلے کچیلے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام باندیاں آئیں۔ میں نے فاطمہ (رضی اللہ عنہا) سے کہا کہ تم جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خدمت گار مانگ لو تاکہ تم کو کچھ مدد مل جاوے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہاں مجمع تھا اور شرم مزاج میں بہت زیادہ تھی۔ اس لئے شرم کی وجہ سے سب کے سامنے باپ سے بھی مانگتے ہوئے شرم آئی۔ واپس آگئیں۔ دوسرے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے۔ ارشاد فرمایا کہ فاطمہ کل تم کس کام کے لئے گئی تھیں؟ وہ شرم کی وجہ سے چپ ہوگئیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کی یہ حالت ہے کہ چکی کی وجہ سے ہاتھوں میں گٹے پڑگئے اور مشک کی وجہ سے سینہ پر رسی کے نشان ہوگئے. ہر وقت کے کاروبار کی وجہ سے کپڑے میلے رہتے ہیں۔ میں نے ان سے کل کہا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس خادم آئے ہوئے ہیں ایک یہ بھی مانگ لیں اس لئے گئی تھیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ میرے اور علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس ایک ہی بسترہ ہے اور وہ بھی مینڈھے کی ایک کھال ہے۔ رات کو اس کو بچھاکر سو جاتے ہیں، صبح کو اسی پر گھاس دانہ ڈال کر اونٹ کو کھلاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیٹی صبر کر ۔ حضرت موسیؑ اور ان کی بیوی کے پاس دس برس تک ایک ہی بچھونا (بسترہ) تھا۔ وہ بھی حضرت موسی (علیہ السلام) کا چوغہ تھا۔ رات کو اسی کو بچھا کر سو جاتے تھے۔ تو تقوٰی حاصل کر اور اللہ سے ڈر اور اپنے پروردگار کا فریضہ ادا کرتی رہ اور گھر کے کاروبار کو انجام دیتی رہ اور جب سونے کے واسطے لیٹا کرے تو سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ، الحمد اللہ ۳۳ مرتبہ اور اللہ اکبر ۳۴ مرتبہ پڑھ لیا کرو۔ یہ خادم سے زیادہ اچھی چیز ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے راضی ہوں۔
(فضائل اعمال، سبق حکایات صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)، باب دہم) (پیش کش: ایس اے ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_49.html?m=1
No comments:
Post a Comment