شاہ ولی اللہ دہلوی سے منسوب صلوۃ الحاجہ کا حکم
-------------------------------
--------------------------------
مولانا مکی صاحب کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ صاحب کے حوالہ سے قبولیت کے قریب بلکہ مقبول ایک نماز چار رکعات صلوة الحاجت والی جس میں پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سو مرتبہ لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین دوسری رکعت سورہ فاتحہ کے بعد سو مرتبہ ربی انی مسنی الضر وانت ارحم الراحمین تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سو مرتبہ وافوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سو مرتبہ حسبنا اللہ و نعم الوکیل (بغیر ضم سورة کے) پڑھنی ہے. پھر نماز کے بعد سجدہ میں سو مرتبہ ربی انی مغلوب فانتصر پڑھنا ہے نماز کے اول آخر میں ایک ایک تسبیح دورود شریف کی پڑھنا ہے بتلائی ہے
اس کی کیا حیثیت ہے؟
الجواب وباللہ التوفق:
صلوۃ الحاجہ اصل میں دعاء وتضرع ہے. اس کی مشروعیت واستحباب پہ ائمہ متبوعین کا اتفاق ہے
اس نماز کی کیفیت اور طریقوں کے بارے میں متعدد و متعارض روایات وارد ہوئی ہیں. اسی لئے اس کی رکعتوں کی تعداد و ادائی کے طریقوں کے بارے میں ائمہ کے اقوال مختلف ہیں.
ائمہ ثلاثہ کے یہاں دو رکعت پڑھنا مستحب ہے، احناف کا ایک قول بھی یہی ہے، شرح منیہ میں اسے نقل کیا ہے. جبکہ ہمارے یہاں مشہور وظاہر مذہب چار رکعتیں ہیں
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بارہ رکعتوں کا قول اختیار کیا ہے.
شامی نے تجنیس کے حوالے سے بعد عشاء چار رکعتیں نقل کی ہیں:
صلوة الحاجة أربع ركعات بعد العشاء . (ردالمحتار ج٢ ص ٤٧٣)
اس باب میں اختلاف روایات کے باعث کیفیت و تعداد رکعات میں بھی اختلاف ہوا ہے.
اس نماز میں نہ کوئی قرأت مخصوص ہے نہ ہی دعاء
چونکہ اس نماز کی اصلیت دعاء اور طلب ضرورت ہے
جس کو جس طریقے اور کیفیت میں ضرورتیں پوری ہوئیں انہوں نے اسی طریقے پہ عمل کیا اور دوسروں کو ترغیب بھی دی
یعنی کہ اس کا مدار تجربے، افادیت اور نافعیت پر ہے، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالے سے یا شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے ملفوظات کے حوالے سے صلوۃ الحاجت کی جو چار رکعت مخصوص نماز نقل کی جاتی ہے وہ ان اکابر کے دیرینہ تجربات سے تعلق رکھتی ہے.
انہوں نے اس ہیئت و کیفیت کے ساتھ نماز کی ادائی کو حل مشکلات ومہمات کے لئے انتہائی مجرب قرار دیا ہے
اس کیفیت کو انہوں نے منصوص شرعی کی حیثیت سے پیش نہیں کیا ہے
لہذا بزرگوں اور اکابر کی ان تجرباتی ہدایات پر عمل کرنا فائدے سے خالی نہیں، اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، ہاں! اس ہیئت و کیفیت کو منصوص شرعی نہ سمجھا جائے.
واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment