سرمہ لگانے کی شرعی حیثیت؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سرمہ کے تعلق سے ایک مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ:
سرمہ کی سنت کے سلسلے میں احقر کے ذہن میں غور وخوض کے بعد یہ بات آتی ہے کہ سرمہ لگانا سنت نہیں بلکہ بہت سے دنیوی امور کی طرح ایک اختیاری عمل ہے البتہ سرمہ اگر کوئی اگر لگاتا ہے تو اس کا سنت طریقہ وہ ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ رات کے وقت لگاےء اور طاق عدد لگاءے اور یہ بات حدیث مبارکہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ حدیث شریف میں سرمہ کا طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح سرمہ لگا یا کرتے تھے. واللہ اعلم.
کیا مفتی صاحب کی یہ بات درست ہے؟ حضرات علماء راہنمائی فرمائیں.
———————
الجواب وباللہ التوفیق:
سرمہ لگانا نہ صرف سنت نبوی؛ بلکہ اس کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر متعدد احادیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم اثمد پتھر سے بنا سرمہ رات کو سونے سے قبل ہر آنکھ میں تین تین سلائی اثمد لگاتے تھے:
"عليكم بالإثمد عند النوم، فإنه يجلو البصر وينبت الشعر". أخرجه ابن ماجة (3496)، وعن ابن عباس -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "إن خير أكحالكم الإثمد يجلو البصر وينبت الشعر" أخرجه أبو داود (3878) والترمذي (1757)، والنسائي (5113)، والإمام أحمد في المسند (2047)
عن عكرمة، عن ابن عباس:’’أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يكتحل بالإثمد كل ليلة قبل أن ينام، وكان يكتحل في كل عين ثلاثة أميال‘‘مسند أحمد (5 / 343)
مرد کے لئے دن میں سیاہ رنگ کا سرمہ بغرض زینت لگانا ناپسندیدہ ہے:
"لا بأس بالإثمد للرجال باتفاق المشايخ، ويكره الكحل الأسود بالاتفاق إذا قصد به الزينة، واختلفوا فيما إذا لم يقصد به الزينة، عامتهم على أنه لايكره، كذا في جواهر الأخلاطي".الفتاوى الهندية (5/ 359)
واللہ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment