Sunday 12 July 2020

غریبم یا رسول اللہ غریبم

غریبم یا رسول اللہ غریبم
(یا رسول اللہ ﷺ میں انتہائی غریب ہوں)
علامہ اقبال ؒ اور سر علی امام کے درمیان تعلقات میں کھچاؤ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ سر علی امام کی وجہ سے ان کا نام ہائیکورٹ کے جج کے طور پر مسترد کیا گیا تھا۔ انہیں لوگوں نے بتا رکھا تھا کہ پنجاب ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے سر علی امام نے ان کو جج بنانے کی مخالفت کی تھی۔ اقبال اس قدر ناراض تھے کہ سر علی امام سے بات چیت کرنا بھی پسند نہ کرتے ۔ سر علی امام چونکہ لاہور میں نہیں رہتے تھے اس لئے انہیں اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ کس قدر خراب ہے۔ یہ ناراضی برقرار رہتی اگر 1931ء میں یہ دونوں لندن جانے کے لئے ایک ہی بحری جہاز میں سوار نہ ہوتے۔ ان کا جہاز بمبئی کی بندرگاہ سے چل کر عدن پہنچا اور یہاں کچھ دیر قیام کے بعد یوروپ کی طرف ہولیا۔ ' ملوجا‘ نام کا یہ جہاز بحرِاحمر کے پانیوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا، شام کا وقت تھا ، اقبال ؒ عرشے پر کھڑے غروب ہوتے سورج کو دیکھ رہے تھے کہ سر علی امام ان کے پاس آئے اور کہنے لگے ، ''ڈاکٹر صاحب اس وقت ہم جس مقام سے گزر رہے ہیں اس کا طول ِبلد اتنا اور عرضِ بلد اتنا ہے۔ اس مقام سے اگر نوے ڈگری کے زاویے پر ایک لکیر مشرق کی طرف کھینچی جائے تو یہ سیدھی مدینہ منورہ چلی جائے گی‘‘۔ سر علی امام نے بات ختم کی اور ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ روتے روتے انہوں نے فارسی کے نعتیہ اشعار پڑھنا شروع کردیئے اور علامہ اقبالؒ سے پوچھنے لگے. ''ڈاکٹر صاحب ہم روزِ قیامت کیا منہ دکھائیں گے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو؟‘‘ اقبال ؒ جو پہلے ہی عشقِ مصطفٰی ؐ میں سرتاپا بھیگے ہوئے تھے، سر امام کا یہ روپ دیکھ کر رو دیئے اور بغیر کچھ کہے دل سے انہیں معاف کردیا۔ بعد میں کسی نے پوچھا کہ سر علی امام سے تعلقات کیونکر ٹھیک ہوئے تو اقبال نے یہ واقعہ سنا کر کہا: ''جو عشقِ رسول ؐ میں رو پڑے اس کے خلاف میں کینہ نہیں پال سکتا‘‘۔ خود اقبال ؒ کا حال یہ تھا کہ ایک بار کسی جاننے والے سے خصوصی طور پر مدینہ منورہ کا ایک کبوتر منگوایا جس کا وہ اپنی بیماری کے باوجود غیرمعمولی خیال رکھتے تھے۔ گھر میں کسی کی بے احتیاطی سے وہ کبوتر ایک بلّی کا نشانہ بن گیا تو کئی دن اس پر مغموم رہے۔ ان کی اسی غمزدہ کیفیت کو دیکھ کر مولانا ظفر علی خان نے چند اشعار بھی کہے۔ اقبال ؒ جو مشرق و مغرب کے فلسفے کا حافظ ہے، اقبالؒ جو علم الکلام کا ماہر ہے، اقبال جوبتاتا ہے کہ عشق اور عقل کا امتزاج ہی مردِ مومن کہلاتا ہے، جب خاتم النبیین ؐکی بات کرتا ہے تو صرف ایک دیوانہ ہے ؎
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر تُومی بینی حسابم نا گزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
(ترجمہ: اے خدا آپ ہر دو عالم سے غنی ہیں اور میں فقیر ہوں، میری درخواست ہے کہ روزِ قیامت میں اپنے گناہوں کے جوعذر کروں اسے قبول کرلیجیے گا۔ اگر آپ میرے اعمال کا حساب ضروری سمجھیں تو پھر یہ مہربانی کریں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ کریں، کیونکہ میں گناہ گار ان کی نگاہوں کی تاب نہ لاسکوں گا)
پانچ صدیاں پہلے عبدالرحمٰن جامی ؒ افغانستان کے بہت بڑے عالم ہوئے ہیں۔ ایک بار سادات خاندان کے ایک صاحب ان کی شہرت سن کر ان سے ملنے چلے آئے۔ جب مہمان کا تعارف جامیؒ تک پہنچا تو وہ ننگے پاؤں اس کا استقبال کرنے کے لئے آگئے اور اپنے مکان کا بہترین حصہ اس کی رہائش کے لئے مختص کردیا۔ رات گزری تو ان کے ملازم نے دیکھا کہ جامی ؒ جاگ رہے ہیں اور مکان کے جس حصے میں مہمان مقیم تھا بار بار اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ملازم نے اپنے آقا کی بے چینی کا سبب دریافت کیا تو مہمان خانے کی جلتی ہوئی روشنی کی طرف اشارہ کرکے بولے، ''یہ کیسے ممکن ہے کہ آل رسولؐ مہمان ہو اور میں بستر پر لیٹ جاؤں‘‘۔ کئی کتابوں کا مصنف اور فارسی کا یہ غیرمعمولی شاعر جامی کہتا ہے ؎
زجامِ حبّ ِ تو مستم،بہ زنجیرِ تو دل بستم
نمی گویم کہ من ہستم ،سخن داں یا رسول اللہ
(ترجمہ: میں تو بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مست ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زنجیر سے بندھا ہوا ہوں، یا رسول اللہ میں تو خود کو سخن دان بھی نہیں سمجھتا)
کیا سرسید احمد خان کی روشن خیالی پر کسی کو شک ہے؟ ہندوستانی مسلمانوں میں اسلام کو مغرب کی نظر سے دیکھنے کی جو روایت انہوں نے برپا کی وہ آج تک جاری ہے. انہوں نے یوروپی تہذیب اور اپنی قوم کے درمیان جو علمی و عملی سمجھوتہ کروایا اسے بعض لوگ شکست خوردگی سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ سرسید جو مغرب کی بہت سی نامعقول باتوں پر بھی سوال نہیں اٹھاتے ولیم میور کی کتاب 'لائف آف محمدؐ' میں اٹھائے گئے اعتراضات پر اتنے سیخ پا ہوتے ہیں کہ اپنی عقلیت پسندی کو ایک طرف رکھ، اپنا سب اثاثہ بیچ، مہاجنوں سے قرض لے کر لندن جابیٹھتے ہیں، مقصد بس یہ کہ کسی طرح اس دل آزار کتاب کا جواب دیا جاسکے۔ ان کی کوشش کی علمی حیثیت اپنی جگہ لیکن ان کی حبّ ِ نبی ؐ کو دیکھیں تو ان کی خطا بھی کارنامہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ ذرا تصور کریں اس شخص کے جنون کا کہ وہ اپنی ساری دولت صرف کرکے برطانیہ میں رہ کر پہلے مغربی زبانوں میں چھپے ہوئے مواد کا اپنے لئے اردو ترجمہ کرواتا ہے اور پھر اس ترجمے کی مدد سے جو کتاب لکھتا ہے اسے انگریزی میں ترجمہ کرواتا ہے تاکہ ولیم میور کی اس گھٹیا کتاب کا جواب دے سکے۔
یہ چند مثالیں ان لوگوں کی ہیں جو تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمارے بزرگوں نے پیش کی ہیں ورنہ گزشتہ چودہ سو سال میں مسلمانوں نے اپنے عمل سے دنیا پر یہ ثابت کیا ہے کہ اس قوم کے بچے بچے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت لہو بن کر دوڑتی ہے۔ ہم مجبور، بے کس اور ناتواں ہر ظلم سہہ لیتے ہیں، لیکن ناموسِ نبی ؐ پر کوئی حرف آئے تو ہمیں زندگی بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہمیں وہ موت عزیز تر ہے!!!
(حبیب اکرم)
غریبم یا رسول اللہ غریبم
یا رسول اللہ ﷺ میں انتہائی غریب ہوں
ندارم در جہاں جز تو حبیبم
اس دنیا میں میرا آپﷺ کے سواکوئی حبیب نہیں
مرض دارم زعصیاں لا دوائے
میں گناہوں کے ایسے مرض میں مبتلا ہوں جس کا کوئی علاج نہیں
مگر الطاف تو باشد طبیبم
مگر یہ کہ آپ ﷺ کی مہربانیاں ہی میری طبیب ہیں (میں آپ ﷺ کے لطف و کرم سے اچھا ہوسکتا ہوں)
بریں نازم کی ھستم امت تو
بس مجھے اس پر ناز ہے کہ میں آپ ﷺ کا امتی ہوں
گنہگارم ولیکن خوش نصیبم
بے شک میں گنہگار ہوں لیکن (آپﷺ کا امتی ہونے کے سبب) خوش نصیب ہوں.
(ایس اے ساگر)

No comments:

Post a Comment