Thursday 2 July 2020

'دل سے فتوی لو' سے کیا مراد ہے؟

'دل 
سے فتوی لو' 
سے کیا مراد ہے؟ 

حدیث پاک میں کہا گیا ہے کہ نیکی اور برائی، خیر اور شر اور معروف اور منکر کے درمیان تمیز کرنے کے لئے تم اپنے نفس اور اپنے دل سے فتاوی طلب کرو تو تم خود ہی راہ حق تک رسائی کرلوگے، کیونکہ جس نے ایسا کیا وہ تلاش حق کی راہ میں درجہ کمال کو پہنچ گیا، اور وصال کی آنکھ سے وصول کو اپنے قلب تک طلب کرلیا، اس لئے کے انسان  خیر کی راہ پر چلنا باطنی طاقت کی وجہ سے ہوتا ہے گرچہ ظاہر سے اسے تقویت ملتی ہے، اور ایسا اس لئے ہے کہ ظاہری جسمانی بناوٹ کا نفس اور قلب کی نیکی اور بھلائی کی طرف چڑھنے اور قلبی طاقت کے ظاہر کی طرف آنے کے درمیان ایک خاص تعلق ہے، حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "حدیث شریف میں ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”الا ان التقویٰ ھھنا، وأشار الی صدرہ“․ یاد رکھو! تقویٰ اس جگہ ہے اور اپنے قلب کی طرف اشارہ فرمایا۔ یعنی تقویٰ (اللہ تعالیٰ سے ڈرنا) افعال قلوب سے ہے۔ (التقویٰ ص:18) #
        کسی سے میں یہ کیوں پوچھوں تصوف کس کو کہتے ہیں
        خود اپنے دل کو دیکھا اور کہا کہ اس کو کہتے ہیں
حدیث شریف میں ہے ”استفت قلبک ولو افتاک المفتون“ (اپنے دل سے فتویٰ لو، اگرچہ مفتی بھی فتویٰ دے دیں) یعنی باطنی مفتی کے خلاف ظاہری مفتی کا قول نہ لیا جائے، بلکہ فتوے کے ساتھ اپنے دل کو دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے؟ ہاں! جہاں قلب شہادت دے دے وہاں بخوشی اجازت ہے ۔ (ارضاء الحق، ج: 2، ص: 42) حضرت! جب دل کو لگتی ہے اس وقت جواز کے سارے فتوے رکھے رہ جاتے ہیں اور اس وقت تک چین نہیں ملتا جب تک کھٹک کی بات کو دور نہ کیا جائے۔ مولانا محمد منیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نانوتہ میں ایک بزرگ تھے، ایک دفعہ ان کے ہاتھ سے مدرسہ دیوبند کی ایک امانت ضائع ہوگئی، سفر میں کسی نے چرالی اور رقم زیادہ تھی، انہوں نے فوراً مدرسہ میں اطلاع کردی کہ وہ امانت میرے پاس سے چوری ہوگئی، لیکن میں ضمان ادا کروں گا۔ مدرسہ والوں نے چاہا کہ مولوی صاحب سے ضمان نہ لیں، کیوں کہ ان کی دیانت پر پورا اعتماد تھا کہ انہوں نے قصداً حفاظت میں کوتاہی نہیں کی اور ایسی حالت میں شرعاً ان پر ضمان نہیں، چناں چہ ان سے کہا گیا تو انہوں نے اس کو منظور نہ کیا اور کہا مجھے بغیر ضمان ادا کئے چین نہ آئے گا۔ مدرسہ والوں نے مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مولوی منیر صاحب رحمہ اللہ نہیں مانتے۔ مدرسہ کا ضمان ادا کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ فتویٰ لکھ دیں تو شاید مان جائیں، کیوں کہ مولانا گنگوہی رحمت اللہ علیہ کو ساری جماعت بڑا مانتی تھی اور مولانا کے فتوے پر ہر شخص کو پورا اعتماد تھا۔ حضرت رحمہ اللہ نے فتوی لکھ دیا کہ جب امین نے حفاظت میں کوتاہی نہ کی تو اس پر شرعاً ضمان نہیں۔ مدرسہ والوں نے یہ فتوی مولوی منیر صاحب رحمہ اللہ کو لاکر دکھایا۔ حالاں کہ مولوی منیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا ادب کرتے تھے، مگر اس وقت یہ فتوی دیکھ کر ان کو بڑا جوش آیا اور ہم عمری کے سبب ناز کے لہجے میں کہا بس میاں رشید احمد نے سارا فقہ میرے ہی واسطے پڑھا تھا اور اپنے کلیجہ پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں، اگر ان کے ہاتھ سے مدرسہ کی امانت ضائع ہوجاتی تو کیا وہ خود بھی اس فتوے پر عمل کرتے یا بغیر ادا کئے چین نہ ملتا۔ لے جاؤ، میں کسی کا فتوی دیکھنا نہیں چاہتا۔ حضرت! انہوں نے نہیں مانا اور زمین بیچ کر، نامعلوم کس طرح مدرسہ کی رقم ادا کی، جب چین پڑا۔ (ارضاء الحق ج: 2 ص: 40 معارف گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ)
حضرت یہ کھٹک بھی ایک فرشتہ غیبی ہے جو حق تعالیٰ کی طرف سے آپ کو متنبہ کرتا ہے، جب بار بار تم اس کو دباؤگے تو وہ خاموش ہوجائے گا اور سخت بات ہے، بعض لوگ ممکن ہے یوں کہیں کہ جب ہم نے قواعد شرع کے بموجب ایک کام کیا ہے تو پھر کھٹک پر توجہ کرنے کی کیا ضرورت ہے اور ان سے میں کہتا ہوں کہ شریعت کا ایک یہ بھی قاعدہ ہے ”الاثم ماحاک فی صدرک“ کہ گناہ وہ ہے جس میں تمہارے دل میں کھٹک پیدا ہو، پھر تم نے اس قاعدہ پر عمل کیوں نہ کیا اور جب کسی عمل کے متعلق دل میں کھٹک پیدا ہوتی تھی، اس کو کیوں نہ چھوڑ دیا ۔ (ارضاء الحق ج 2، ص: 30)
قلب کا یہ قاعدہ ہے کہ اول وہلہ (پہلی بار میں اس کو جس قدر کراہت ونفرت ہوتی ہے دوسری مرتبہ میں ویسی نفرت نہیں ہوتی اور اس میں جو کھٹک اول وہلہ میں پیدا ہوتی ہے اگر اس پر عمل نہ کیا گیا بلکہ اس کو دبا دیا گیا تو پھر یہ کھٹک کمزور ہوجاتی ہے۔ (انفاس عیسی، ج 1 ص: 284) اس لئے قلب کی اول ہی کھٹک پر عمل کرناچاہئے۔
معصیت سے قلبی اور روحانی صحت برباد:
جس طرح طب اکبر پر عمل نہ کرنے سے صحت جسمانی میں خرابی آتی ہے، اسی طرح احکام الہٰی پر عمل نہ کرنے سے قلبی اور روحانی صحت برباد ہوجاتی ہے ﴿فان الجنة ھی الماویٰ﴾ قلب کا یہ قاعدہ ہے کہ ناجائز فعل سے اول وہلہ میں اس کو جس قدر کراہت ونفرت ہوتی ہے دوسری مرتبہ ویسی نفرت نہیں ہوتی اور اس میں جو کھٹک اول وہلہ میں پیدا ہوتی ہے اگر اس پر عمل نہ کیا گیا بلکہ اس کو دبا دیا گیا تو پھر یہ کھٹک کمزور ہوجاتی ہے اور بار بار کے دبانے سے بالکل نکل جاتی ہے، جو قلب کے سیاہ (بے حس اور مردہ) ہوجانے کی دلیل ہے کہ اب قلب کو گناہ سے الفت ہوگئی ہے، اس لئے کھٹک نہیں مگر یہ شخص سمجھتا ہے کہ مجھ پر حق واضح ہوگیا اور شرح صدر ہوگیا، اس لئے کھٹک موقوف ہوگئی، یاد رکھو! یہ حالت سخت خطرناک ہے۔ (ارضاء الحق، ج 2، ص: 28)
قلب کا زنا:
حدیث میں ہے ”والقلب یزنی، وزناہ ان یتشھی“ یعنی قلب بھی زنا کرتا ہے اور اس کا زنا خواہش کرنا ہے (رفع الموانع ص: 51) چناں چہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرتے ہوئے اجنبیہ کا تصور کرے تو اسے زنا کا گناہ ہوگا۔ (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: اشرف الاحکام جلد چہارم)
اعمال باطنہ کا محاسبہ:
حدیث میں ہے کہ الله تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا یہ وہ دن ہے جس میں پوشیدہ چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا اور دلوں کے پوشیدہ راز کھولے جائیں گے اور یہ کہ میرے کاتب اعمال فرشتے نے تو تمہارے صرف وہ اعمال لکھے ہیں جو ظاہر تھے اور میں ان چیزوں کو جانتا ہوں جن پر فرشتوں کو اطلاع نہیں، ورنہ انہوں نے وہ چیزیں تمہارے نامہ اعمال میں لکھی ہیں اور وہ سب تمہیں بتلاتا ہوں اور ان پر محاسبہ کرتا ہوں، پھر جس کو چاہوں گا بخش دوں گا اور جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا پھر مؤمنین کو معاف کردیا جائے اور کفار کو عذاب دیا جائے گا۔ (قرطبی) ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وان تبدوا ما فی أنفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ الله﴾․ (سورہ البقرة آیت: 284)
ترجمہ: جو باتیں تمہارے نفسوں میں ہیں اگر تم (زبان وغیرہ سے) ظاہر کروگے یا کہ (دل میں) پوشیدہ رکھوگے اللہ تعالیٰ تم سے حساب لیں گے۔ آیت مذکورہ میں جس محاسبہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ ارادے اور منتیں ہوں جو انسان اپنے قصد اور اختیار سے اپنے دل میں جماتا ہے اور اس کے عمل میں لانے کی کوشش بھی کرتا ہے، پھر اتفاق سے کچھ موانع پیش آجانے کی بنا پر ان پر عمل نہیں کرسکتا۔ قیامت کے دن ان کا محاسبہ ہوگا، پھر حق تعالیٰ جس کو چاہیں اپنے فضل وکرم سے بخش دیں اور جس کو چاہیں عذاب دیں۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ انسان پر جو اعمال اللہ تعالیٰ کی طر ف سے فرض کئے گئے ہیں یا حرام کئے گئے ہیں وہ کچھ تو اعضاء ظاہری وجوارح سے متعلق ہیں نماز، روزہ، زکوٰة، حج اور تمام معاملات اسی قسم میں داخل ہیں اور کچھ اعمال واحکام وہ بھی ہیں جو ان کے قلب اور باطن سے تعلق رکھتے ہیں، ایمان واعتقاد کے تمام مسائل تو اسی میں داخل ہیں اور کفروشرک، جو سب سے زیادہ حرام وناجائز ہیں ان کا تعلق بھی انسان کے قلب سے ہے، اخلاق صالحہ، تواضع، صبر، قناعت، سخاوت وغیرہ، اسی طرح اخلاق رذیلہ، کبر، حسد، بغض، حب دنیا حرص وغیرہ یہ سب چیزیں ایک درجہ حرام قطعی ہیں، ان سب کا تعلق بھی انسان کے اعضا و جوارح سے نہیں، بلکہ دل اور باطن سے ہے، اس آیت میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جس طرح اعمال ظاہرہ کا حساب قیامت میں لیا جائے گا اسی طرح اعمال باطنہ کا بھی حساب ہوگا اور خطا پر بھی مؤاخذہ ہوگا، باقی وساوس اور غیراختیاری خیالات جو انسان کے دل میں بغیر قصد اور ارادہ کے آجاتے ہیں بلکہ ان کے خلاف ارادہ کرنے پر بھی آتے رہتے ہیں ایسے غیراختیاری خیالات اور وساوس کو اس امت کے لئے حق تعالیٰ نے معاف کردیا ہے ، چناں چہ حدیث میں ہے ”ان الله تجاوز عن امتی عما حدثت انفسھا مالم یتکلموا او یعملوا بہ“۔ (قرطبی) یعنی اللہ تعالیٰ نے میری امت کو معاف کردیا ہے وہ جوان کے دل میں خیال آیا، جب اس کو زبان سے نہ کہا یا عمل نہ کیا ہو ۔ (تفسیر معارف القرآن، ج 1، ص: 291290)
اصل رونا دل کا ہے:
میرے پاس بعض ذاکرین کے خطوط آتے ہیں کہ ہم کو رونا نہیں آتا، اس کا افسوس ہے۔ میں لکھ دیتا ہوں کہ تمہارا دل تو روتا ہے اور کیا چاہتے ہو؟ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تم کو نہ رونے پر افسوس ہے (فناء النفوس) ایک صاحب نے لکھا مجھے وعظ سن کر نہ رونا آتا ہے نہ ذکر وغیرہ میں خوف خدا ہوتا ہے، یہ سنگ دلی تو نہیں؟ اس پر جواباً تحریر فرمایا: ”رونا دل کا مقصود ہے، آنکھ کا نہیں، وہ حاصل ہے، دلیل اس کی یہ تاسف ہے۔“ (انفاس عیسی، ج 1، ص: 106)
ایک بزرگ کا ارشاد ہے کہ اگر رونا ہی ولایت ہے تو رونا کیا مشکل ہے لاؤ ایک لاٹھی، مارنا شروع کروں ایک طرف سے، سب رونے لگیں گے۔ خوب کہا ہے #
        عرفی اگر بگریہ میسر شدے وصال
        صد سال مے تواں بہ تمنا گریستن
حدیث میں ہے ”ابکوا فان لم تبکوا فتباکوا“ یعنی رؤو اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کی صورت بناؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بکاء مقصود نہیں کیوں کہ ہر حال میں امر غیراختیاری ہے اور ایسا غیراختیاری مقصود نہیں ہوتا، بس جس کو رونا نہ آتا ہو وہ رونے کی صورت ہی بنالے، یہ کافی ہے۔ (فناء النفوس)
ایک صاحب نے لکھا کہ قلب میں قوت انفعالیہ کا نام ونشان نہیں، صحبت مجلس سے بھی حالت میں کوئی تغیر نہیں ہوتا، اس لئے سخت خطرہ ہے کہ کہیں قائلین قلوبنا غلف یا ارشاد ولا یجاوز ضاجرھم (الحدیث) کا مصداق تو نہیں ہوگیا؟ فرمایا کہ جو لوگ اس کے مصداق ہوتے ہیں ان کو اس کے مصداق ہونے کا احتمال تک نہیں، بلکہ التفات تک نہیں ہوتا، یہی دلیل ہے اس کے مصداق نہ ہونے۔ (کمالات اشرفیہ ص: 84)
دل اللہ تعالیٰ شانہ نے اپنی یاد کے لئے بنایا ہے
        دل گزر گاہ جلیل اکبر ست
اس کے معنی تو یہ ہیں کہ دل تجلی گاہ ہے حق تعالیٰ کا۔ لہٰذا اس کو غیر کی آلودگی سے بچاؤ، اپنے گھر میں دوسرے کے آنے کو کون پسند کرتا ہے؟ (الظاہر ص: 50)
        دل بدست آور کہ حج اکبر است
        از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر ست
مگر جب دل میں غیراللہ کی یاد بس جائے تو اس کی یہ حالت ہوتی ہے #
        دل جو دیکھا تو صنم خانہ سے بدتر نکلا
        لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر میں خدا رہتا ہے
ارشاد فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دلوں کو بھی (کبھی) زنگ لگ جاتا ہے۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! اور وہ کون سی چیز ہے جس سے دلوں کی صفائی ہوجائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا موت کا زیادہ دھیان رکھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔ (رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ شیطان آدمی کے قلب پر چمٹا ہوا بیٹھا رہتا ہے، جب وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ ہٹ جاتا ہے اور جب وہ (یاد سے) غافل ہوتا ہے وسوسہ ڈالنے لگتا ہے۔ (بخاری شریف)
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ذکراللہ کے سوا بہت کلام مت کیا کرو ،کیوں کہ اللہ کے سوا بہت کلام کرنا قلب میں سختی پیدا کرتا ہے اور سب سے زیادہ اللہ سے دور وہ قلب ہے جس میں سختی ہو۔ (ترمذی)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شے کی ایک قلعی ہے اور دلوں کی قلعی اللہ کا ذکر ہے۔ (بیہقی) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دلوں کی صفائی او رتزکیہ کے لئے ذکراللہ کی کثرت کرنا چاہئے۔ بقول حضرت مجذوب #
        میرے دل سیاہ کو انوار ذکر نے
        خورشید پُر ضیا کا مماثل بنا دیا
جمعیت قلب کون سی مطلوب ہے؟
سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے ہر معاملہ سے یہ بات معلوم ہوتی تھی کہ حضرت یہ چاہتے ہیں کہ جو غیرضروری بات جمعیت قلب کے خلاف ہو اس کو ترک کردو اور ایسی چیزوں سے اکثر منع فرماتے تھے۔ (الافاضات الیومیہ ج 3، ص: 56)
جمعیت قلب جیساکہ زیادہ کھانے سے فوت ہوتی ہے، کم کھانے سے فوت ہوتی ہے، زیادہ کھانے سے خطرات کا ہجوم ہوتا ہے، کیوں کہ معدہ کی تبخیر دماغ کی طرف عود کرتی ہے تو دماغ پریشان ہوجاتا ہے اور کم کھانے سے ہر وقت روٹیوں کی طرف دھیان رہتا ہے۔ (فناء النفوس)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ دنیا کی بے رغبتی (جس کا حکم ہے) نہ حلال کو حرام (کرنے) سے ہے اور نہ مال کے ضائع کرنے سے۔ ( ترمذی وابن ماجہ) 
ف:۔ اس میں صاف برائی ہے مال کے برباد کرنے کی، کیوں کہ اس سے جمعیت جاتی رہتی ہے۔ (حیٰوة المسلمین، روح دہم)
جمیعت قلب وہ مطلوب ہے جس میں اپنی طرف سے اسباب مشوشہ کو اختیار نہ کیا جائے، پھر اگر جمعیت حاصل نہ ہو تو یہ معذور ہے، میں اس پر قسم کھاسکتا ہوں کہ جو تشویش قلب اختیار سے ہو وہی مضر ہے اور اگر بلاقصد واختیار تشویش ہو وہ کچھ مضر نہیں، مثلاً ایک شخص صاحب عیال ہے، اس وجہ سے دنیا میں مشغول ہے اور اس کو کسی وقت یکسوئی نہیں ہوتی، نماز وذکر میں بلاقصد واختیار وساوس مشوشہ آتے ہوں تو کچھ مضر نہیں اور یہ قاعدہ کچھ حدیث النفس کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ حدیث اللسان یعنی کلام لسانی میں بھی یہی قاعدہ ہے کہ بلاضرورت ایک کلمہ بھی نکالنا قلب کا ستیاناس کردیتا ہے، مگر قلب پر، چوں کہ طبیعت محیط ہے، اس لئے محسوس نہیں ہوتا، بخلاف اس کے اگر بضرورت تکثیر ہو تو کچھ بھی مضر نہیں، مثلاً ایک شخص پہرہ دینے پر نوکر ہے، وہ رات بھر ”جاگو جاگو“ کرتا ہے، اس سے نورقلب میں کچھ بھی کمی نہ آئے گی، اسی طرح تحریر میں جب تک ضرورت کا مضمون لکھا جائے گا ضرر نہ ہوگا اور اگر بے ضرورت ایک جملہ بھی لکھا گیا تو قلب کا ناس ہوجائے گا، کیوں کہ تحریر بھی ایک نوع کا کلام ہی ہے۔
بہرحال کلام کی تین قسمیں ہیں: کلام نفسی کلام لفظی  کلام تحریری:
کلام تحریری میں تحریر کا مطالعہ بھی داخل ہے اس لئے ہر کتاب کا مطالعہ بھی جائز نہیں، غرض یہ کہ ہر ایک میں ضرورت کا درجہ مضر نہیں اور بلاضرورت ایک جملہ کا تلفظ یا کسی بات کا سوچنا یا لکھنا مضر ہے، چناں چہ بعض کلام کو خوشنما بنانے میں سجع وغیرہ کا تکلف کرتے ہیں، چوں کہ یہ بلاضرورت ہے، اس لئے گویا اس میں تنبیہ ہے ہم کو عدم تکلف پر کہ دیکھو! جب ہم باوجود قدرت، سجع کی رعایت نہیں کرتے حالاں کہ ہم کو تکلف نہیں کرنا پڑتا، تم کو بھی سجع کی رعایت نہ کرنا چاہئے، کیوں کہ تم کو تکلف کرنا پڑے گا اور بے ضرورت چیز کے لیے تم کو تکلف کرنا ہے۔ (انفاس عیسیٰ ج 1، ص: 249,248)
حصول فراغ قلب کا طریقہ:
قلب کو ہر وقت ماسوا اللہ سے فارغ رکھنا چاہئے (یعنی دل کسی اور چیز میں لگا ہوا نہ رہے)، یہ نہایت نافع ہے۔ اس کے تحصیل کا طریقہ یہ ہے کہ جو بات اور جو کام ضروری ہو اس کو دیکھو نہ سنو، خواہ وہ چیزیں ماضی کے متعلق ہوں یا مستقبل کے ۔ (انفاس عیسیٰ ج 1، ص: 261)
اصلاح قلب کا آسان نسخہ:
کسی شیخ کامل کی صحبت اختیار کرے۔ اس سے اصلاحی تعلق قائم کرکے اس کے ارشادات پر عمل کرے۔ ان شآءاللہ اس کی صحبت سے جلد قلب کی حالت میں تغیر محسوس ہوگا اور دل کی دنیا بدلنا شروع ہوگی۔ فی الحلال یہ دشوار ہو تو حضرت حکیم الامت تھانوی رحمت اللہ علیہ کے مواعظ حسنہ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرے۔ بہت نفع محسوس ہوگا ۔ مناجات مقبول سے چند دعائیں نقل کرتا ہوں اپنی دعاؤں میں ان کو بھی پڑھا کریں۔
اللھم مصرف القلوب، صرف قلوبنا علی طاعتک․ (مسلم، نسائی)
”اے اللہ، دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے“۔
اللھم ان تجعل القرآن العظیم ربیع قلبی، ونور بصری، وجلاء حزنی، وذھاب ھمی“․ (ابن احبان حاکم طبرانی)
”یا اللہ قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار اور میری آنکھوں کا نور اور میرے غم کی کشائش اور میرے فکر کا دفعیہ فرمادے۔“
اللھم انا نسالک قلوبا اوّاھة مخبتة فی سبیلک ”اے الله ہم تجھ سے مانگتے ہیں ایسے دل جو متاثر ہوں اور عاجزی کرنے والے ہوں اور رجوع کرنے والے ہوں تیری راہ میں۔“
اللھم ارزقنی عینین بذروف الدمع من خشیتک قبل ان تکون الدموع دما والاضراس جمرا․
”یا اللہ! مجھے آنکھیں برسنے والی نصیب فرما، جو سیراب کریں دل کو، بہتے ہوئے آنسوؤں سے، تیرے خوف سے قبل، اس وقت کے کہ آنسوں خون اور ڈاڑھیں انگارے ہوجائیں۔“ قلب کی اول کھٹک پر عمل کرنا چاہئے
(ایس اے ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_16.html?m=1

No comments:

Post a Comment