Monday, 13 July 2020

سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کی تحقیق

سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کی تحقیق
-------------------------------
--------------------------------
2805 حدثنا مسلم بن إبراهيم حدثنا هشام بن أبي عبد الله الدستوائي ويقال له هشام بن سنبر عن قتادة عن جري بن كليب عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى أن يضحى بعضباء الأذن والقرن قال أبو داود جري سدوسي بصري لم يحدث عنه إلا قتادة حدثنا مسدد حدثنا يحيى حدثنا هشام عن قتادة قال قلت لسعيد بن المسيب ما الأعضب قال النصف فما فوقه [ص: 402] التالي السابق - عرض الحاشية
[ص: 402] (عن جري): تصغير جرو (ابن كليب): تصغير كلب (بعضباء الأذن والقرن): بعين مهملة وضاد معجمة وموحدة أي مقطوعة الأذن ومكسورة القرن.
قال في النيل : فيه دليل على أنها لا تجزئ التضحية بأعضب الأذن والقرن وهو ما ذهب نصف قرنه أو أذنه .
وذهب أبو حنيفة والشافعي والجمهور إلى أنها تجزئ التضحية بمكسور القرن مطلقا وكرهه مالك إذا كان يدمي وجعله عيبا.
وقال في البحر إن أعضب القرن المنهي عنه هو الذي كسر قرنه أو عضب من أصله حتى يرى الدماغ لا دون ذلك فيكره فقط ولا يعتبر الثلث فيه بخلاف الأذن .
---------
- [عن علي بن أبي طالب:] نَهى رسولُ اللهِ ﷺ أنْ يُضحّى بعَضْباءِ القَرْنِ والأُذُنِ.
شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج المسند ٦٣٣  •  إسناده حسن  •  أخرجه أبو داود (٢٨٠٥)، والترمذي (١٥٠٤)، وابن ماجه (٣١٤٥)، وأحمد (٦٣٣) واللفظ له
-------
- [عن علي بن أبي طالب:] أنَّ النَّبيَّ ﷺ نَهى أن يُضحّى بعضباءَ الأذنِ والقرنِ
ابن دقيق العيد (٧٠٢ هـ)، الاقتراح ١٢٩  •  صحيح
-----
علي بن أبي طالب:] نَهى رسولُ اللَّهِ ﷺ أن يُضحّى بعضباءِ القرنِ والأُذنِ
أحمد شاكر (١٣٧٧ هـ)، مسند أحمد ٢/٥٢ • إسناده صحيح
ان روایات میں عضب القرن کی قربانی کی ممانعت ہے، جب کہ احناف کہتے ہیں کہ اس وقت ناجائز ہے جب کہ سینگ اس قدر ٹوٹ جائے کہ اس کا اثر دماغ تک پہنچ  جائے۔
بہ ظاہر یہ روایات احناف کے خلاف ہیں۔
اس لئے ان روایات کا احناف کیا جواب دیتے ہیں؟
تفصیلی جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں 
حسیب الرحمن ندوی قاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
قربانی کے جانور کا درج ذیل چار عیوب سے محفوظ ہونا صحت قربانی کے لئے تمام ائمہ مجتہدین کے یہاں لازم وضروری ہے:
«أَرْبَعٌ لاَ تُجْزِئُ فِي الأَضَاحِي: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لاَ تُنْقِي» 
{أخرجه أبوداود في «الضحايا» باب ما يُكره من الضحايا (٢٨٠٢) والنسائي في «الضحايا» ما نُهي عنه من الأضاحي: العوراء (٤٣٦٩)، وابن ماجه في «الأضاحي» باب ما يُكره أن يضحَّى به (٣١٤٤)، وغيرهم من حديث البراء بن عازبٍ رضي الله عنه. وهو حديثٌ صحيحٌ. انظر: «نصب الراية» للزيلعي (٤/ ٢١٣)، و«البدر المنير» لابن الملقِّن (٩/ ٢٨٦)، و«التلخيص الحبير» لابن حجر (٤/ ٣٤٦} 
یہ اجماعی مسئلہ ہے، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأجمعوا على أنَّ العيوب الأربعة المذكورة في حديث البراء وهو: المرض والعَجَف والعَوَر والعَرَج البيِّن لا تُجزئ التضحية بها، وكذا ما كان في معناها أو أقبحَ كالعمى وقطعِ الرجل وشبهه» {شرح مسلم» للنووي (١٣/ ١٢٠)، «الاستذكار» لابن عبدالبرِّ (٥/ ٢١٥} 
ان بنیادی چار امراض یا اس سے بدتر دیگر امراض کے علاوہ کان کا پہٹا ہوا ہونا یا سینگ ٹوٹا ہوا ہونا بھی صحت قربانی کے لئے لازم وضروری ہے یا نہیں؟ 
اس بابت چونکہ روایتیں مختلف و متعارض ہیں؛ اس لئے ائمہ کے مابین بھی اس حوالے سے اختلاف واقع ہوا ہے. سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی کی صحت وعدم صحت کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے  دو متعارض روایتیں وارد ہوئی ہیں۔
ایک تو وہ مرفوع روایت ہے جسے آپ نے پیش کیا ہے، یعنی:
نَهى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عن عَضْباءِ القَرْنِ والأُذُنِ.
(عن علي بن أبي طالب.شعيب الأرناؤوط.تخريج المسند.
1293.إسناده حسن.
وأخرجه أبو داود (2805)، والترمذي (1504)، وابن ماجه (3145)، وأحمد (633) باختلاف يسير، وأخرجه عبدالله بن أحمد في (زوائد المسند) (1293) واللفظ له) 
اس سے مطلق مکسورۃ القرن جانور کی ممانعت ثابت ہورہی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت بھی مسند احمد کی ہے اور وہ حسن ہے:
سأَل رجُلٌ عليًّا عنِ البَقرةِ، فقال: عن سَبعةٍ. فقال: مكسورةُ القَرنِ؟ فقال: لا يَضُرُّكَ. قال: العَرجاءُ؟ قال: إذا بلَغتَ المَنسَكَ فاذبَحْ، أمَرنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أنْ نَستَشرِفَ العَيْنَ والأُذُنَ.(عن علي بن أبي طالب. شعيب الأرناؤوط.تخريج المسند: 734.إسناده حسن. وأخرجه أبو داود (2804) آخره في أثناء حديث، والترمذي (1503) باختلاف يسير، والنسائي (4376)، وابن ماجه (3143) مختصراً، وأحمد (734) واللفظ له.)
ایک صحیح حدیث یہ بھی ہے:
سألَ رجلٌ عليًّا رضيَ اللَّهُ عنهُ عنِ البقَرةِ ، فقالَ : عن شُعبةَ فقالَ: مَكْسورَةُ القرنِ فقالَ : لا يضرُّكَ قالَ: العَرجاءُ؟ قالَ: إذا بلَغتِ المنسَكَ فاذبَحْ، أمرَنا رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أن نَستَشرِفَ العَينَ والأذُنَ (عن حجية بن عدي.أحمد شاكر. مسند أحمد: 2/102. إسناده صحيح)
ان دونوں روایتوں سے مکسورۃ القرن جانور کی قربانی کا جواز ثابت ہورہا ہے. اب جن محدثین کے یہاں حضرت علی کی عضباء قرن  کی عدم صحت والی پہلی روایت حسن یا قابل استناد واحتجاج ہے جیساکہ  آپ نے پیش کیا ہے تو انہوں نے حضرت سعید بن مسیب کی درج ذیل تفسیر وبیان کے بعد ممانعت کو آدھا یا اس سے زائد حصہ ٹوٹنے پر محمول فرمایا:
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ نَهَى عن عَضباءِ الأذُنِ والقَرنِ قالَ: فسَألتُ سعيدَ بنَ المسيِّبِ فقالَ: النِّصفُ فما فَوقَ ذلِكَ (عن علي بن أبي طالب.أحمد شاكر.مسند أحمد.
2/127.إسناده صحيح.) أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ نَهى عن عَضْباءِ الأُذُنِ والقَرنِ، قال: فسأَلْتُ سعيدَ بنَ المُسَيِّبِ فقال: النِّصفُ فما فوقَ ذلك. (عن علي بن أبي طالب.شعيب الأرناؤوط.تخريج المسند. 791.إسناده حسن. وأخرجه أبوداود (2805)، والترمذي (1504)، وابن ماجه (3145)، وأحمد (791) واللفظ له.
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت جس میں مکسورۃ القرن کے بارے میں "لایضرك" کی بات آئی ہے اسے آدھا سے کم حصہ کم ٹوٹنے پر محمول کرتے ہوئے اسے مانع قربانی قرار نہیں دیا؛ بلکہ کراہت تنزیہی پہ محمول کیا. بعض محدثین کرام کے یہاں عضباء قرن والی حضرت علی کی روایت ضعیف اور ناقابل احتجاج واستدلال ہے۔ امام بیہقی اسے انتہائی ضعیف قرار دیتے ہیں: 
نهى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن عَضْباءِ الأذُنِ والقَرْنِ عن علي بن أبي طالب.
السنن الكبرى للبيهقي: 9/275.أضعف رواية.) 
ابن عبد البر اس روایت کو ناقابل استدلال قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ نهى في الضحايا عن عَضْبَاءِ الأُذُنِ والقَرْنِ. عن علي بن أبي طالب. التمهيد: 20/171. لا يحتج بمثله.) 
جبکہ اس کے بالمقابل عضباء قرن کو "لايضرك" قرار دینے والی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت حسن درجہ کی ہے. لہذا سینگ کا ٹوٹنا مانع اضحیہ نہیں ہوگا بلکہ زیادہ سے زیادہ مکروہ ہوگا. حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے کہ آنکھ اور کان کا بنیادی طور پر صحیح سالم ہونا صحت اضحیہ کے لئے ضروری ہے، سینگ میں نقص وعیب ہونا مانع صحت نہیں:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالأُذُنَ» (أخرجه أبو داود في «الضحايا» باب ما يُكره من الضحايا (٢٨٠٤)، والترمذي في «الأضاحي» باب ما يُكره من الأضاحي (١٤٩٨)، من حديث عليٍّ رضي الله عنه، وصحَّحه ابن الملقِّن في «البدر المنير» (٩/ ٢٩١)
یہی مذہب احناف، شوافع مالکیہ اور دیگر جمہور علماء وائمہ کا ہے 
(انظر: «المجموع» للنووي (٨/ ٤٠٤)، «الاستذكار» لابن عبد البرِّ (٥/ ٢١٩،القوانين الفقهية ص127، الذخيرة 4/146]
ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ جس جانور کو پیدائشی سینگ نہ ہو جسے "جَمّاء" يا " جلحاء" کہتے ہیں، اس کی قربانی جائز ہے (بدائع الصنائع 4/216، ملتقى الأبحر" 2/224، الفتاوى البزازية 3/293، بدائع الصنائع 4/216 ، الذخيرة 4/147، جامع الأمهات ص229، الحاوي 15/84، المغني 9/442) 
علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
«العلماء مجمعون على أنَّ الجمَّاء [وهي التي لم يُخلق لها قرنٌ] جائزٌ أن يضحَّى بها، فدلَّ إجماعُهم هذا على أنَّ النقص المكروه هو ما تتأذَّى به البهيمةُ وينقص مِن ثمنها ومِن شحمها»الاستذكار» لابن عبد (البرِّ (٥/ ٢١٨)
لہذا جب سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو بدرجہ اولی قربانی جائز ہوگی. عضو ماکول میں نقص وعیب جانور کو ناقص بناتا ہے. سینگ عضو ماکول نہیں ہے کہ اس کے کسر یا انعدام (جماء) سے گوشت پہ فرق پڑے اور قربانی صحیح نہ ہو!
احناف کے یہاں سینگ جڑ سے اس طرح ٹوٹ گیا ہو کہ اس زخم کا اثر دماغ تک پہنچ چکا ہو تو چونکہ اب عضو ماکول عیب دار ہوگیا؛ اس لئے اب اس جانور کی قربانی درست نہ ہوگی۔ عدم صحت اضحیہ کے لئے جڑ سے اکھڑنے کی یہ قید ہم اس لئے لگاتے ہیں کہ "عضباء" کے لغوی مفہوم میں ہی یہ شامل ہے، حقیقت شرعیہ حقیقت لغویہ سے منفک نہیں ہوتی؛ اس لئے احناف نے عضباء قرن کو دماغ تک مؤثر کسر پر محمول کیا، اس سے کم کسر قرن عضباء قرن کی ممانعت میں شامل نہیں 
امام لغت علامہ ابن درید لکھتے ہیں:
[القصماء من المعز المكسورة القرن الخارج، والعضباء المكسورة القرن الداخل وهو المشاش] (لسان العرب 11/197) مستفاد من فتاوی الشیخ ابو عبد المعز محمد علی، رقم 1168) 
واللہ اعلم بالصواب 
الجواب صحیح 
مجتبی حسن قاسمی



No comments:

Post a Comment