Wednesday, 29 July 2020

فوت شدہ بچے کی طرف سے عقیقہ؟

فوت شدہ بچے کی طرف سے عقیقہ؟
-------------------------------
--------------------------------
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ. دونوں عبارت کے خط کشیدہ الفاظ پر غور کریں اور تطبیق کی کیا صورت ہوسکتی ہے ذرا رہنمائی فرمائیں



الجواب وباللہ التوفیق: 
اس فوت شدہ بچے کی طرف سے جس کا عقیقہ حین حیات نہ کیا گیا ہو بعد وفات عقیقہ کی مشروعیت و عدم مشروعیت  کے بارے میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے 
حنفیہ و مالکیہ کے یہاں بعد وفات بچے کی طرف سے عقیقہ مشروع نہیں ہے؛ کیونکہ عقیقہ دراصل دافع البلاء ہے، یعنی اس کے بغیر  بچہ مصیبتوں اور بلائوں میں گھرا رہتا ہے، اس کی نشو ونما موقوف رہتی ہے "الغلام مرتهن بعقيقته"  کی ایک تفسیر و تشریح یہ بھی ہے۔ عقیقہ کردینے کے بعد یہ بندھن کھل جاتا ہے اور بچہ بالکل فری ہوجاتا ہے. موت کی وجہ سے جب زندگی ہی نہ رہی تو جسمانی نشوونما کہاں؟ لہذا بعد موت بچے کی طرف سے عقیقہ بے معنی و مقصد ہونے کے باعث مشروع نہیں۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ عقیقہ زندگی میں اور ساتویں دن کیا جاتا ہے حدیث عقیقہ میں "تُذْبَح عنه يومَ سابعه" رواه الترمذي (1522)  کا ذکر ہے۔ وفات کی وجہ سے اب اس پہ عمل ممکن نہیں ہے؛ اس لئے اب عقیقہ کی مشروعیت بھی باقی نہیں رہے گی. احناف کی طرح شوافع کا ایک قول بھی موت کی وجہ سے سقوط عقیقہ کا ہے؛ لیکن ان کے صحیح قول کے مطابق فوت شدہ بچہ کی طرف سے عقیقہ کا استحباب باقی رہتا ہے، حنابلہ بھی یہی کہتے ہیں. 
مع الغُلامِ عقيقةٌ، فأَهْريقوا عنه دَمًا، وأَمِيطوا عنه الأذَى“ رواه البخاري (5154) 
اور  ”كلُّ غلام مُرْتَهِن بعقيقته“ کی وجہ سے (کیونکہ اس میں موت اور زندگی کی کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے، بلکہ پیدائش پر ہی عقیقہ کو موقوف کردیا گیا ہے) بعد وفات بھی وہ عقیقہ کے استحباب کو باقی رکھتے ہیں بشرطیکہ والدین وغیرہ کو اس کی طرف سے عقیقہ کرنے پر قدرت بھی ہو. جس حدیث ”كلُّ غلام مُرْتَهِن بعقيقته“ کو لیکر اعتراض کیا جارہا ہے اس کے مفہوم کی تشریح وتوضیح میں شراح حدیث کا اختلاف ہے. امام احمد بن حنبل وغیرہ نے ”محبوس بالشفاعة“ یعنی شفاعت سے محرومی کی بات فرمائی ہے جبکہ دیگر ائمہ حدیث ”محبوس بالأذى“ یعنی نشو ونما موقوف رہنے سے اس کی توضیح فرمائی ہے؛ اس لئے تو روایت بخاری کے اخیر میں  ”أميطوا عنه الأذى“ کی بات آئی ہے. اس تشریح کی روء سے وفات ہوجانے کی وجہ سے عقیقہ کی مقصدیت (ازالہ اذی اور مصائب سے تخلص وتحفظ)  فوت ہوجاتی ہے اس لئے اب اس کی مشروعیت بھی ختم، یہاں کوئی تعارض نہیں ہے 
واللہ اعلم بالصواب 

No comments:

Post a Comment