تنبیہات
سلسلہ نمبر 62
ذی الحج میں پہلی اولاد کی خصوصی دعا
● سوال:
گذشتہ کئی روز سے مندرجہ ذیل پوسٹ گردش کررہی ہے اور اس عمل کو پھیلایا جارہا ہے، کیا یہ عمل درست ہے؟
وہ عمل حسب ذیل ہے:
ذی الحج کی ۷، ۸، ۹ اور ۱۰ تاریخ کو خاص طور پر اولاد کے حق میں دعا مانگنی ہے۔
کیونکہ ان دنوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دعا مانگی تھی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی تھی۔
اولاد کی زندگی، صحت، مال اور عزت میں برکت کے لئے دعا کرنی ہے۔
اولاد کے اچھے نصیب اور نیک جوڑے کے لئے دعا کرنی ہے۔
ہر ماں باپ یہ عمل ضرور کریں.
١. حج کے دن ٤:٣٠ سے ٥:٣٠ بجے کے درمیان کا وقت قبولیت کا وقت ہے۔
٢. ٤٤٧ بار لبیك اللّٰھم لبیك۔
٣. اول و آخر ٢١ بار درودِ ابراہیمی.
پھر کوئی بھی جائز دعا کریں، ان شاءاللہ عزوجل وہ دعا ضرور قبول ہوگی.
▪ الجواب باسمه تعالی:
واضح رہے کہ ذی الحج کے دس دن ان افضل ترین ایام میں سے ہیں جن کی اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں قسم اٹھائی ہے:
{والفجر وليال عشر}
اور حضور علیہ السلام نے ان دس دنوں کو افضل ترین ایام فرمایا ہے.
● حدیث:
ما مِن أيَّامٍ أفضلُ عندَ اللهِ مِن أيَّامِ عشْرِ من ذي الحجَّةِ. قال: فقال رجلٌ: يارسولَ اللهِ! هنَّ أفضلُ أم عِدَّتُهنَّ جهادًا في سبيلِ اللهِ؟ قال: هنَّ أفضلُ مِن عِدَّتِهنَّ جهادًا في سبيلِ اللهِ؟ وما مِن يومٍ أفضلُ عندَ اللهِ مِن يومِ عرفةَ ينزِلُ اللهُ إلى السَّماءِ الدُّنيا فيُباهي بأهلِ الأرضِ أهلَ السَّماءِ فيقولُ: انظُروا إلى عبادي شُعْثًا غُبْرًا ضاحِينَ جاؤوا مِن كلِّ فجٍّ عميقٍ يرجون رحمتي ولم يرَوْا عذابي، فلم يُرَ يومٌ أكثرُ عِتْقًا مِن النَّارِ مِن يومِ عرفةَ.
- الراوي: جابر بن عبدالله.
- المحدث: ابن حبان.
- المصدر: صحيح ابن حبان.
- الصفحة أو الرقم: 3853.
- خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه.
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کسی بھی قول یا عمل کو بغیر دلیل اور ثبوت کے نہ صرف قبول کرلیں بلکہ اس کو پھیلانا بھی شروع کردیں، جبکہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی جھوٹی بات کو میری ذات کی طرف منسوب کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے.
■ اولاد کیلئے دعا کرنا:
اس پوسٹ میں خاص ان ایام میں اولاد کیلئے دعا کے متعلق کہا گیا ہے، تو اگر اس سے مراد پہلی اولاد کیلئے دعا کرنا اور اس عمل کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا مقصود ہے کہ انہوں نے پہلی اولاد کی دعا ان دنوں میں کی ہے تو یہ بات بلکل باطل اور بےاصل ہے، اور اگر اس سے ان ایام میں اپنی اولاد کی اصلاح اور بہتری کی دعا کرنا مراد ہے تو ایسی بات بعض مفسرین نے ذکر تو ضرور کی ہے لیکن اس کیلئے کسی تاریخ یا کسی خاص وقت کا تعین کرنا ہرگز درست نہیں.
☆ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اولاد کیلئے مطلقا دعا کرنا قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے لیکن اس میں کسی مخصوص تاریخ یا دن کا تذکرہ نہیں ہے.
• فهذا سيدنا إبراهيم يرفع أكف الضراعة طالبا من الله تعالى أن يرزقه أبناء صالحين مصلحين فقال: {رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ} (الصافات: 100)
گویا مطلقا دعا کرنا تو ثابت ہے لیکن کسی خاص دن یا کسی خاص موقعے کا ذکر نہیں، بلکہ مفسرین نے وہ موقعہ تو ذکر فرمادیا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوئے تو فرمایا کہ میں یہاں سے بیت المقدس کی سرزمین کی طرف ہجرت کررہا ہوں، اے اللہ! مجھے صالح اولاد نصیب فرما.
□ قال ابن كثير رحمه الله في تفسيره:
يَقُول تَعَالَى مُخْبِرًا عَنْ خَلِيله إِبْرَاهِيم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام إِنَّهُ بَعْدَمَا نَصَرَهُ اللہ تَعَالَى عَلَى قَوْمه وَأَيِسَ مِنْ إِيمَانهمْ بَعْدَمَا شَاهَدُوا مِنْ الْآيَات الْعَظِيمَة هَاجَرَ مِنْ بَيْن أَظْهُرِهِمْ وَقَالَ: {إِنِّي ذَاهِب إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ○ رَبّ هَبْ لِي مِنْ الصَّالِحِينَ} يَعْنِي أَوْلَادًا مُطِيعِينَ يَكُونُونَ عِوَضًا مِنْ قَوْمه وَعَشِيرَته الَّذِينَ فَارَقَهُمْ.
□ قال العلامة السعدي رحمه الله في تفسيره:
وقال إبراهيم: إني مهاجر إلى ربي من بلد قومي إلى حيث أتمكن من عبادة ربي؛ فإنه سيدلني على الخير في ديني ودنياي.
□ قال القرطبي رحمه الله:
هَذِهِ الْآيَة أَصْل فِي الْهِجْرَة وَالْعُزْلَة. وَأَوَّل مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ إِبْرَاهِيم عَلَيْهِ السَّلَام، وَذَلِكَ حِين خَلَّصَهُ اللہ مِنْ النَّار (قَالَ إِنِّي ذَاهِب إِلَى رَبِّي) أَيْ مُهَاجِر مِنْ بَلَد قَوْمِي وَمَوْلِدِي إِلَى حَيْثُ أَتَمَكَّنُ مِنْ عِبَادَة رَبِّي فَإِنَّهُ (سَيَهْدِينِ) ای فِيمَا نَوَيْت إِلَى الصَّوَاب.
قَالَ مُقَاتِل: هُوَ أَوَّل مَنْ هَاجَرَ مِنْ الْخَلْق مَعَ لُوط وَسَارَة إِلَى الْأَرْض الْمُقَدَّسَة وَهِيَ أَرْض الشَّام.
وَقِيلَ: ذَاهِب بِعَمَلِي وَعِبَادَتِي، وَقَلْبِي وَنِيَّتِي.
☆ سوال میں مذکور پوسٹ میں ان ایام میں اپنی اولاد کی خیر وبرکت کیلئے دعا کا لکھا گیا ہے. یقینا ہر انسان کو اپنی اولاد کیلئے تمام حالات میں اور خاص طور پر ان بابرکت ایام میں دعا ضرور مانگنی چاہئے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معمول رہا ہے کہ کبھی تو اولاد کیلئے ہدایت کی اور شرک سے بچنے کی دعا مانگ رہے ہیں:
{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِناً وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ} (إبراهيم:35)
• اور کبھی ان کی آخرت کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا کی بھلائی اور کامیابی کیلئے دعا مانگ رہے ہیں: {رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ} (إبراهيم:37)
• اور کبھی ان کے نیک اعمال پر جمنے کی دعا مانگ رہے ہیں:
{رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ} (إبراهيم:40).
● بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو یہ ایام حج تھے اور آپ نے اولاد کیلئے دعا مانگی.
پوری آیت اس طرح ہے: {رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ} (البقرة:128)
■ تعمیر بیت اللہ سے فارغ ہونے کی روایات:
٢٠٦٩- حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبدالرزاق قال، أخبرنا ابن جريج قال، قال ابن المسيب: قال علي بن أبي طالب: لما فرغ إبراهيم من بناء البيت، قال: "فعلت أي رب، فأرنا مناسكنا" (أی أبرزها لنا، علمناها) فبعث الله جبريل، فحج به. (طبری)
□ وأخْرَجَ الأزْرَقِيُّ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قالَ: "لَمّا فَرَغَ إبْراهِيمُ مِنَ البَيْتِ الحَرامِ، قالَ: أيْ رَبِّ، قَدْ فَعَلْتُ، فَأرِنا مَناسِكَنا. فَبَعَثَ اللهُ إلَيْهِ جِبْرِيلَ، فَحَجَّ بِهِ، حَتّى إذا جاءَ يَوْمُ النَّحْرِ، عَرَضَ لَهُ إبْلِيسُ، فَقالَ: احْصِبْ، فَحَصَبَ سَبْعَ حَصَياتٍ، ثُمَّ الغَدُ، ثُمَّ اليَوْمُ الثّالِثُ، فَمَلَأ ما بَيْنَ الجَبَلَيْنِ، ثُمَّ عَلا عَلى ثَبِيرٍ، فَقالَ: ياعِبادَاللہ، أجِيبُوا رَبَّكم. فَسَمِعَ دَعْوَتَهُ مَن بَيْنَ الأبْحُرِ مِمَّنْ في قَلْبِهِ مِثْقالُ ذَرَّةٍ مِن إيمانٍ، قالُوا: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ....." الخ (درمنثور)
▪ خلاصہ کلام:
ان ایام میں دعا کو اولاد کیلئے مخصوص کرنا اور اس کیلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی دلیل پیش کرنا اگرچہ بعض مفسرین سے منقول ضرور ہے لیکن اس میں کسی تاریخ کو متعین کرنا یا کسی خاص وقت کو متعین کرنا ایک ایسی زیادتی ہے جو قطعی اور یقینی نہیں، لہذا ایسے ہر قسم کے دعوے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ یہ فضیلت والے دن اور راتیں ہیں، لہذا ان میں نیک اعمال کرنا، روزے رکھنا، اپنے اور اپنے اہل وعیال کیلئے دعائیں کرنا بہت برکت والا عمل ہے.
《واللہ اعلم بالصواب》
《کتبه: عبدالباقی اخونزادہ》
0333-8129000
٢٩ ذوالقعده ١٤٣٨ مکہ مکرمہ
No comments:
Post a Comment