Friday 17 July 2020

کیا زمانہ کے زندہ لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی ممانعت روایت حضرت علی سے ثابت ہے؟

کیا زمانہ کے زندہ لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی ممانعت روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے؟
-------------------------------
--------------------------------
کیا یہ قول درست ہے؟ براہ کرم واضح فرمائیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے زمانہ کے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے سے بچو، کیوں کہ ایک آدمی جنت والوں کے عمل کرتا ہے، پھر اللہ کے علم کے مطابق وہ پلٹا کھا جاتا ہے اور دوزخ والوں کے عمل کرنے لگ جاتا ہے اور دوزخی بن کر مرتا ہے۔ اور ایک آدمی دوزخ والوں کے عمل کررہا ہوتا ہے، پھر وہ اللہ کے علم کے مطابق پلٹا کھا جاتا ہے اور جنت والوں کے عمل کرنے لگ جاتا ہے اور جنتی بن کر مرتا ہے۔ اگر تم نے ضرور ہی کسی کے پیچھے چلنا ہے تو پھر تم ان لوگوں کے پیچھے چلو جن کا خاتمہ ایمان واعمال صالحہ پر ہوچکا ہے اور وہ دنیا سے جاچکے ہیں۔ جو ابھی زندہ ہیں ان کے پیچھے مت چلو! (کیوں کہ کسی زندہ انسان کے بارے میں اطمینان نہیں کیا جاسکتا، نہ معلوم  کب گمراہ ہوجائے)۔
( اخرجہ ابن عبدالبر فی العلم (ج 2 ص 187)
تحریر: محمد سرور بٹ۔
الجواب وباللہ التوفیق:
غلط حوالہ دیا گیا ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں کوئی روایت مروی نہیں ہے. بظاہر مختلف روایتوں کو اس میں خلط ملط کردیا گیا ہے. حضرت عبد اللہ بن مسعود کا کا قول مختلف کتابوں میں یوں آیا ہے: 
عن ابن مسعود رضي الله عنه- قال: (أَلَا لا يقلِّدنَّ أحدكم دينه رجلًا، إن آمن: آمن، وإن كفر: كفر ؛ وإن كنتم لا بدَّ مقتدين، فاقتدوا بالميِّت؛ فإنَّ الحيَّ لا يُؤمن عليه الفتنة)
[رواه الطَّبراني في (9/152) (8764)، قال الهيثمي في (مجمع الزوائد) (1/185): رجاله رجال الصحيح. حياة الصحابة ٥/١٤٥) 
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث  میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کا ارشاد یوں نقل فرماتے ہیں:
ألا إن بني آدم خلقوا طبقات شتى منهم من يولد مؤمنا، ويحيى مؤمنا، ويموت مؤمنا، ومنهم من يولد كافرا، ويحيى كافرا، ويموت كافرا، ومنهم من يولد كافرا، ويحيى كافرا، ويموت مؤمنا، ومنهم من يولد مؤمنا، ويحيى مؤمنا۔ التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، ج 18 صفحة57) 
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
فإنَّ الرَّجُلَ مِنكُم لَيَعْمَلُ حتَّى ما يَكونُ بيْنَهُ وبيْنَ الجَنَّةِ إلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عليه كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بعَمَلِ أهْلِ النَّارِ، ويَعْمَلُ حتَّى ما يَكونُ بيْنَهُ وبيْنَ النَّارِ إلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عليه الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بعَمَلِ أهْلِ الجَنَّةِ. (عن عبدالله بن مسعود. صحيح البخاري: 3208. صحيح مسلم.: 2643.)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسند احمد میں روایت آئی ہے :
إنَّ الرَّجُلَ ليَعملُ بعَملِ أَهْلِ الجنَّةِ، وإنَّهُ لمَكْتوبٌ في الكِتابِ من أَهْلِ النَّارِ، فإذا كانَ قبلَ موتِهِ تحوَّلَ فعملَ بعملِ أَهْلِ النَّارِ فماتَ، فدخلَ النَّارَ، وإنَّ الرَّجلَ ليَعملُ بعملِ أَهْلِ النَّارِ، وإنَّهُ لمَكْتوبٌ في الكتابِ من أَهْلِ الجنَّةِ، فإذا كانَ قَبلَ موتِهِ تحوَّلَ، فعَملَ بعملِ أَهْلِ الجنَّةِ، فَماتَ فدخلَها. (عن عائشة أم المؤمنين.الصحيح المسند: 1581) 
ابن عبدالبر کی جامع بیان العلم میں بھی یہ مضمون حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے:
مَن كانَ مُسْتَنًّا، فَلْيَسْتَنَّ بمن قد ماتَ، فإنَّ الحيَّ لا تُؤمَنُ عليه الفِتْنَةُ، أولئك أصحابُ محمد - صلى الله عليه وسلم -، كانوا أفضلَ هذه الأمة: أبرَّها قلوبًا، وأعمقَها علمًا، وأقلَّها تكلُّفًا، اختارهم الله لصحبة نبيِّه، ولإقامة دِينه، فاعرِفوا لهم فضلَهم، واتبعُوهم على أثرهم، وتمسَّكوا بما استَطَعْتُم من أخلاقِهم وسيَرِهم، فإنهم كانوا على الهُدَى المستقيم۔ ("جامع بيان العلم وفضله" (2/947) 
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ مضمون وارد نہیں ہے 
واللہ اعلم بالصواب





No comments:

Post a Comment