اللہ
تعالی سے
اچھا گمان رکھنا
بہترین عبادات ہے
راوی: وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حسن الظن من حسن العبادة. رواه أحمد وأبو داود
"اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اچھا گمان رکھنا من جملہ بہترین عبادات کے ہے۔ (احمد، ابوداؤد)
تشریح: مطلب یہ ہے کہ جن اعمال کو عبادات حسنہ کہا جاتا ہے ان میں سے ایک بہترین چیز اور بہترین عبادت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھا جائے لہذا ضروری ہے کہ عبادتوں کو ترک نہ کیا جائے واضح رہے کہ جاہل عوام یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ اگر عبادتیں ترک ہوتی ہیں تو ہونے دو۔ البتہ اللہ کی ذات پر اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ کریم اور غفور ہے جو تارک عبادت کو بھی یقینا بخش دے گا یہ گمان نہایت گمراہی کا سبب ہے اور شیطان کے فریب میں پھنس جانے کا نتیجہ ہے علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص عبادتوں کو ترک کرے اور معبود کے ساتھ حسن ظن کا دعوی کرے وہ یقینا مغرور و مردود ہے۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اچھے گمان کا تعلق اللہ کی بجائے مسلمانوں کے بارے میں خیر وصلاح کا عقیدہ رکھنا من جملہ عبادات حسنہ کے ہے۔ یا یہ کہ یہ ایک ایسی صفت ہے جو عبادتوں میں حسن و کمال پیدا کرتی ہے اور ثواب کا درجہ بڑھاتی ہے اس کا حاصل یہ نکلا کہ جو شخص عبادات گزار و نیکوکار ہوتا ہے وہ دوسروں کے بارے میں ہمیشہ اچھا گمان اور نیک خیال رکھتا ہے اور بد گمانی رکھنے والا بدکار کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
بدگماں باشد ہمیشہ زشت کار نامہ خود خواند اندر حق یار
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان ۔ حدیث 976
خدا کے ساتھ حسن ظن کی فضیلت
-----------------
اللہ کے ساتھ حسنِ ظن
جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے وصال سے تین روز قبل کہتے سنا کہ تم میں سے کوئی شخص دنیا سے اس حالت میں رخصت نہ ہو الاً یہ کہ وہ اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہو. (صحیح مسلم 5145)
حدیثِ قدسی میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
میں اپنے بندے کیساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں ،جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں، وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں، وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اس کی جانب جاتا ہوں (صحیح بخاری 6856، صحیح مسلم 4834)
اللہ کے بارے میں حسنِ ظن ایمان باللہ کی بنیاد ہے اسکی رحمت،جودوسخا،اسکی ہیبت، اس کے قادرمطلق ہونے پر یقین ہمارے عقیدے کا لا زمی جز ہے مذکورہ بالاحدیث میں اللہ تعالی صراحت کیساتھ بیان فرماتے ہیں کہ عبد کو معبود کی با بت ہمیشہ بہترین گمان رکھنا چاہئے کہ اللہ کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا جب بندہ اللہ کو دل کے یقین کیساتھ پکارتا ہے تو اس کا رب اس کی پکار کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا کہ یہ اس ذات ِ باری تعالی کی شان کے برعکس ہے کہ اسکا بندہ بہت مان سے دستِ ِسوال دراز کرے اور وہ عطا کرنے میں بخل کرے وہ تو غنی اور علی کل شیءقدیر ہے! اس کا بندہ جب بھول چوک کر گزرے اور نفس لوامہ کی تنبیہ پہ پلٹ کر اس غفور الرحیم کیجانب توبتہ النصوح کی نیت سے رجوع کرے تو اسکی شان ِ کریمی جوش میں کیوں نہ آئے؟ اس کا بندہ اسکی رضا پانے کی طلب میں اعمالِ صالح کیلئے حریص ہو تو وہ جو ستر ماوؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، کیوں اسکے اجر میں کمی کرے؟بات صرف اس سے آس لگانے کی ہے کہ اس کے خزینے تو بھرے پڑے ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، اسکی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں.“ (سورۃ یوسف: 87)
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ سے اچھی امید رکھنا تقوی سے مشروط ہے کہ ایک متقی انسان کو یقینِ کامل ہوتا ہے کہ اللہ سے بڑھ کر سچا قول اور کسی کا نہیں ، لہذا اسکے کہنے کے مطابق اس سے خیر کی توقع رکھنے والا مراد کو پہنچے گا انشاءاللہ اسکے برعکس فاسق اور منا فق انسان کا دل خطاکاری پر تکرار، ظلم اور نافرمانی کے باعث رحمتِ الہی سے متعلق سوئے ظن کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے، گناہوں کی سیاہی اسکے دل کو سخت کر دیتی ہے اور یہی چیز اسکو اللہ سے دور لے جانے کا سبب بن جاتی ہےاس کی مثال اس بھگوڑے غلام کی سی ہے جو چاہے بھی تو اپنے آقا سے حسنِ سلوک کی توقع نہیں رکھ سکتا۔بیشک اسکے اطاعت گزار بندے ہی اس کی بارگاہِ رحمت سے جھولی بھروانے کے امیدوار ہوتے ہیں ۔
”اور ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برا گمان رکھتے ہیں.“ (سورۃ الفتح:6)
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں مومن اپنے رب سے حسنِ ظن رکھتا ہے اس لیے نیکی کی تاک میں لگا رہتا ہے اور فاسق بدگمانی رکھنے کے باعث بداعمالیوں میں گھرا رہتا ہے.
اللہ تعالی خو د بد گمانی رکھنے والوں کے رویے کو منافقت کی علامت قرار دیتے ہوئے ملامت کرتے ہیں جب وہ ان منافقین کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہ سے غزوہءاحد کے موقع پر عین وقت پر بدعہدی کی
”اور یہ معاملہ جو پیش آیا ، تو یہ اس لیے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے، اللہ اسے آزما لے اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے، اسے چھانٹ دے، اور اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے.‘ (سورۃ آل عمران: 154)
مختصر یہ کہ اللہ سے اچھا گمان رکھنا ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہماری امیدوں کا مرکز وہی ہستی ہے جو رحمن بھی ہے اور قہار بھی ، لیکن ان صفات پر ایمان ہمارے یقین کو متزلزل نہ کرنے پائے کہ اگر ہم اخلاص کیساتھ اس کی راہوں پر نکل پڑیں گے، گناہوں سے بخشش کے طلبگار ہونگے اور نیکی میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے تو اسکی رحمت کو ان شاءاللہ ضرور پا لیں گے کہ ہمارے گناہ آسمانوں اور زمینوں کی حدود تک چھا جائیں تو بھی وہ قادر ہے کہ ہماری گریہ و زاری کو شرف ِ قبولیت سرفرازفرما دے انہ سمیع مجیب الدعوات
اللہ کے ساتھ حسنِ ظن
(ایس اے ساگر)http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_15.html?m=1
No comments:
Post a Comment