لاک ڈاؤن کے دوران قربانی کے احکام
معزز مفتیان کرام!
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
ہمیں مندرجہ ذیل امور کے بارے میں فقہی رائے درکار ہے، براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر ممنون ہوں۔
محمود خاں دریابادی
جنرل سیکریٹری آل انڈیا علماء کونسل، ممبئی
برہان الدین قاسمی
ڈائریکٹر، ایم ایم ای آر سی، ممبئی
اقبال چون والا
جوگیشوری، ممبئی
سوال: قربانی کس شخص پر لازم ہے اور کن شرائط کےساتھ لازم ہے؟
جواب:
قربانی ہر اس مسلمان پر واجب ہے جو صحیح العقل، بالغ، مقیم اور صاحب نصاب ہو۔ صاحب نصاب وہ شخص ہے جس کے پاس 612 گرام و 36 ملی گرام چاندی یا کوئی بھی چیز بنیادی ضروریات سے زیادہ اتنی ہو جس کی قیمت چاندی کے نصاب کے برابر ہو۔ بنیادی ضروریات کا مطلب گھر ، کپڑے، گاڑی وغیرہ ہے۔ لہذا، اگر کسی کے پاسگاڑی یا رہا ئشی گھر ضرورت سے زیادہ ہے اور انکی قیمت نصاب کے بقدر ہے اس پر قربانی واجب ہے۔ قربانی واجب ہونے کے لئے زکوۃ کى طرح نہ تو مال کا نامی (سونا، چاندی، پیسے، مال تجارت، جانور) ہونا ضروری ہے اور نہ ہی نصاب پر سال کا گزرنا ضروری ہے۔
سوال: کسی ایمرجنسی کے دوران قربانی کی کیا حیثیت رہتی ہے، مثال کے طور پر CoVID-19 میں دنیا بھر میں وبائی امراض کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، جانوروں کی خریداری میں بھی پریشانی ہے تو ایسے حالات میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
قربانی ہر حال میں صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے۔ لہذا، اگر کسی کے لئے کوروناوبائی مرض کے حالات میں اپنے علاقے میں جانوروں کی قربانی دینا ممکن نہیں ہو تو وہ دوسرے مسلمانوں کے تعاون سے دوسرے علاقوں میں قربانی کروالیں، قربانی اس سے ساقط نہیں ہوگی جب تک یہ امکان موجود ہے۔
سوال:
اگر کہیں قربانی معاشرتی یا قانونی طور پر ناممکن ہوجائے تو پھر مسلمانوں کے پاس متبادل کیا ہیں؟
جواب:
اگر کسی پر قربانی واجب لیکن وہ قانونی یا معاشرتی پریشانیوں کی وجہ سے قربانی نہ کرسکا تو اسے قربانی کے ایام کے بعد ایک سال کے متوسط درجے کے چھوٹے جانور جیسے بکری وغیرہ کی قیمت صدقہ کرنا ہوگا۔
وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها۔ (ردالمحتار: 6/320)
سوال:
بہت سے مالدار مسلمان اپنے آباء و اجداد کے نام سے نفلی قربانی کیا کرتے تھے، لیکن موجودہ حالات میں جب کہ بہت سے غریب لوگ دانے دانے کے محتاج ہیں، تو موجودہ صورتحال میں ان کے لئے نفلی قربانی کرنا بہتر ہے یا لوگوں کو کھانے پینے کی چیزیں مہیا کروانا بہتر ہے؟
جواب:
نفلی قربانی ایک قسم کا صدقہ ہے اور عام دنوں میں بہترین صدقہ وہ ہے جس سے غریب لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہو۔ لہذا اگر مالدار مسلمان اپنے آباؤ اجداد کے ایصال کے لئے قربانی کى بجائے غریبوں کى بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کی مالی مدد کرتے ہیں تو یہ بھی درست ہے، بلکہ موجودہ حالات میں یہ بہتر معلوم ہوتا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ: "بہترین صدقہ بھوکوں کا پیٹ بھرنا ہے."،
"افضل الصدقة ان تشبع كبدا جائعا"۔ (البيهقي في شعب الإيمان)
سوال:
ایام تشریق کب سے کب تک ہیں اور مسلمانوں کو ان ایام میں کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
9 ذِی الحجہ سے 13 ذِی الحجہ تک، پانچ دن ایام تشریق کہلاتے ہیں۔
9 ذوالحجہ کی فجر کی نماز سے لے کر 13 ذوالحجہ کی عصر کی نماز تک (23 نمازوں میں) ہر فرض نماز کے بعد مردوں کے لئے بآوازِ بلند اور عورتوں کے لئے آہستہ آواز سے ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، نماز تنہا پڑھے یا جماعت سے۔
تکبیرات تشریق یہ ہیں:
"اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَآ اِلٰہ الَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ اَکْبَر، اللّٰہُ اَکْبَر، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔"
سوال:
یوم عرفہ کا روزہ کب رکھنا ہے اور اس کی فضیلت کیا ہے؟
جواب:
9 ذی الحجہ کو یومِ عرفہ کہتے ہیں۔ احادیث میں یومِ عرفہ کے روزے کی غیرمعمولی فضیلت بیان کی گئی ہے. حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
''صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ''. (مسلم: 1162)
ترجمہ: مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا۔
سوال:
قربانی کا وقت کب شروع ہوتا ہے اور کب تک رہتا ہے؟
جواب:
جن شہروں یا بستیوں میں نماز جمعہ وعیدین کی نماز پڑھنا واجب ہے، وہاں عید کی نماز سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ اگر کسی نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کردی تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے، البتہ چھوٹے گاؤں جہاں جمعہ و عیدین کی نمازیں نہیں ہوتیں وہاں لوگ 10 ذی الحجہ کی صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں، قربانی کا آخری وقت 12 ذی الحجہ کی مغرب تک ہے، لیکن 10 ذی الحجہ کو قربانی کرنا افضل ہے۔
قال النبی صلی الله علیه وسلم: "من ذبح قبل الصلوته فانما هو لحم قدمه لاهله لیس من النسک فی شئی“
(مسلم ج 2، حدیث نمبر 1551)
سوال:
کیا قربانی کے جانور وزن کرکے بیچنا جائز ہے؟
جواب:
قربانی کے جانور وزن سے خریدنا و بیچنا جائز ہے۔
سوال:
ذی الحجہ کے مہینے میں کب سے کب تک بال و ناخن نہیں کاٹنا جاہیے؟
جواب:
قربانی کرنے والوں کے لئے مستحب یہ ہے کہ ایک ذی الحجہ سے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک نہ اپنے جسم کے بال کاٹے اور نہ ناخن۔ البتہ اگر زیرناف اور بغل کے بالوں پر چالیس روز کا عرصہ گزرچکا ہو تو ان بالوں کی صفائی کرنا واجب ہے۔
سوال:
کس طرح کے عیب والے جانور کی قربانی درست نہیں ہوتی؟
جواب:
قربانی میں تندرست و موٹے جانور کو ذبح کرنا چاہئے، عیب دار جانور کی قربانی نہیں کرنا چاہیے البتہ اگر عیب بہت کم ہو تو اس کی قربانی درست ہے گو بہتر نہیں، جس جانور میں کوئی بڑا عیب ہو اس کی قربانی جائز نہیں لہذا وہ جانور جس کے سینگ جڑ سے اُکھڑ گئے ہوں جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اس کی قربانی دُرست نہیں، اسی طرح اندھے، کانے اور لنگڑے جانور کی قربانی دُرست نہیں، اسی طرح ایسا مریض اور لاغر جانور جو قربانی کی جگہ تک اپنے پیروں پر نہ جاسکے اس کی قربانی بھی جائز نہیں۔ جس جانور کا تہائی سے زیادہ کان یا دُم کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں۔ اسی طرح جس جانور کے کان پیدائشی طور پر بالکل نہ ہوں، اس کی قربانی دُرست نہیں۔
سوال:
عیدالاضحى کی نماز کے بارے میں بھی بتائیں کہ موجودہ حالات میں کس طرح ادا کی جائے کریں۔
جواب:
عید کی نماز وجب ہے، عید کی نماز صحیح ہونے لئے وہی سارے شرائط ہیں جو جمعہ کے ہیں سوائے خطبہ کے کہ یہ عید میں سنت ہے جبکہ جمعہ میں واجب۔
لہذا اگر عید تک مسجدیں عوام کے لئے نہیں کھلتی ہیں تو عید کی نماز بھی گھر پر ہی ادا کریں، اور امام کے علاوہ تین لوگ ہوں تو عید نماز پڑھ لیں لیکن اگر جماعت سے پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر مستحب یہ ہے کہ چاشت کی نماز چار رکعت تنہا تنہا پڑھ لیں۔ فإن عجز صلى أربعاً كالضحى۔ (ردالمحتار)
عید کی نماز کا وقت آفتاب کے بلند ہوجانے کے بعد یعنی جب فجر کے بعد مکروہ وقت ختم ہوتا ہے اس وقت شروع ہوتا ہے اور زوال سے پہلے تک وقت رہتا ہے۔
عید کی نماز کا طریقہ:
عید کی نماز کا طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے، پھر ہاتھ اُٹھا کر تین تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ چھوڑ دے، تیسری تکبیر کے بعد بغیرکسی ہاتھ چھوڑے ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لے، مقتدی بھی ایسا ہی کریں۔ پھر امام اعوذباللہ و بسم اللہ کے بعد بلندآواز سے قرات کرے۔ قرات کے بعد حسبِ معمول رکوع و سجود کیے جائیں۔ دوسری رکعت میں پہلے امام قرات کرے، قرات کے بعد تین مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر تکبیریں کہے اور ہاتھ چھوڑ دے، مقتدی بھی امام کے ساتھ ایسا ہی کریں اور چوتھی مرتبہ امام ہاتھ اُٹھائے بغیر تکبیر کہتے ہوئے رکوع کرے، مقتدی بھی ایسا ہی کریں، اس طرح دو رکعت نماز مکمل کی جائے گی۔
نماز کے بعد امام خطبہ دے۔
خطبہ زبانی یاد نہ ہو تو کتاب یا موبائل اسکرین میں دیکھ کر پڑھ لے اور اگر خطبہ لکھا ہوا بھی نہ ملے تو پہلے خطبے میں سورہ فاتحہ جبکہ دوسرے خطبے میں درود شریف پڑھ لے۔
(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها". (ردالمحتار: 2 / 166)
عیدالأضحى کا خطبه
پہلا خطبہ:
"اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰه أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ ۞ اَلْحَمْدُ
للهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ۞ وَأَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ وَأَشْهَدُ أَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞ اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰه أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ۞
أَمَّا بَعْدُ! فَاعْلَمُوْا أَنَّ یَوْمَکُمْ هٰذَا یَوْمُ عِیْدٍ، لِلّٰهِ عَلَیْکُمْ فِیْهِ عَوَائِدُ الْاِحْسَانِ، وَرَجَاءُ نَیْلِ الدَّرَجَاتِ وَالْعَفْوِ وَالْغُفْرَانِ ۞ وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ لِکُلِِّ قَوْمٍ عِیْدًا وَّهٰذَا عِیْدُنَا ۞ اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞
وَقَدْ قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ قَالَ سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ قَالُوا فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ ۞ اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ، قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۞ بَارَکَ اللهُ لَنَا وَلَکُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَنَفَعَنَا وَإِیَّاکُمْ بِالْآیَاتِ وَالذِّکْرِ الْحَکِیْمِ. أَسْتَغْفِرُ اللهَ لِيْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَاسْتَغْفِرُوْهُ إِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُِ.
دوسرا خطبہ:
" اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ، اَللّٰهُ أَکْبَرْ،اَللّٰه أَکْبَرْ ۞ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهٗ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ أَعْمَالِنَا مَن یَّهدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهٗ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِيَ لَهٗ ۞ اَللهُ أَکْبَرْ اَللهُ أَکْبَرْ لَآ إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ وَنَشْهَدُ أَنْ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ.
اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ وَصَلِّ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ.
قَالَ النَّبِیُّ صَلی اللہُ عَلیہِ و آلہ وَسلَم : أَرْحَمُ أُمَّتِيْ بِأُمَّتِيْ أَبُوْبَکْرٍ، وَأَشَدُّهُم فِيْ أَمْرِ اللهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَیَاءً عُثْمَانُ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِیٌّ ۞ فَاذْکُرُوا اللهَ یَذْکُرْکُمْ وَادْعُوْهُ یَسْتَجِبْ لَکُمْ، وَلَذِکْرُ اللهِ تَعَالٰی أَعْلٰی وَأَوْلٰی وَأَعَزُّ وَأَجَلُّ وَأَتَمُّ وَأَهَمُّ وَأَعْظَمُ وَأَکْبَرُ۞
نوٹ حکومت کی طرف سے قانونا چھوٹے جانور کی قربانی کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لہذا بلڈنگ کی سوسائٹی کسی کو بھی قربانی کرنے سے نہ روکے، البتہ فاصلے کے ساتھ قربانی کا اہتمام کریں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔
کتبہ:
جسیم الدین قاسمی
مفتی آن لائن دارالافتاء، مرکزالمعارف، ممبئی
29 ذی القعدہ، 1440
20 جولائی، 2020
بحکم
مفتی عزیزالرحمن فتحپوری
(مفتی اعظم مہاراشٹر)
تائیدکنندگان:
مفتی سعیدالرحمن فاروقی صدر مفتی دارالعلوم امدادیہ، مفتی سید حذیفہ قاسمی بھیونڈی، مفتی محمد آزاد بیگ صدر مفتی معراج العلوم چیتا کیمپ، مفتی محمد اشفاق دارالعلوم امدادیہ، مفتی جنید پالنپوری مسجد نور قلابہ، مفتی حارث پالنپوری، جوگیشوری، مفتی حسیب الرحمٰن فتح پوری، مفتی محمد انصار قاسمی دارالعلوم منہاج السنہ مالونی ملاڈ
No comments:
Post a Comment