Tuesday, 21 July 2020

قرض ادا نہ کرنا کتنا سنگین جرم ہے

قرض ادا نہ کرنا کتنا سنگین جرم ہے!
 
آج معاشرہ میں اکثر یہ شکایت سن کو ملتی رہتی ہے۔ کہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لٸے دوسروں سے قرض لے لیتے ہیں اور وقت پر واپس نہیں کرتے۔ ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں۔ اپنی ضروریات پوری کرتے رہتے ہیں اور قرض دینے والے کی نہ یہ کہ ضرورت کا خیال نہیں کرتے بلکہ ان کو اذیت میں مبتلا کرتے ہیں ۔۔ یہ شریعت کی نظر میں بھی مذموم ہے۔ آخرت میں خسارے کا بھی باعث ہے۔ اور دنیا میں بے برکتی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ قرض دہندہ کی نظر میں خود کو کمتر تصور کرتا رہتا ہے جب تک اس سے نجات حاصل نہ کرلے۔ اور کبھی کبھی تو قرض اور لین دین کی وجہ سے برسوں پرانے تعلقات تک خراب ہوجاتے ہیں۔ اور آدمی اپنی نظریں چھپاتا اور قرض دہندہ کے خوف سے راستے تبدیل کرتا پھرتا ہے۔ اللہ تعالی ہر شخص کو قرض کے بوجھ۔ اس کی ذلت اور اس کی سنگین سے محفوظ ومامون فرماۓ۔ قرض لے کر ادانہ کرنا کتنا سنگین ہے. آپ اس کا انداز اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کتنا مقدس عمل ہے کہ شہید کا خون زمین پر گرنے سے پہلے عنداللہ مقبول اور اس کی روح جنت میں پہنچ جاتی ہے۔ مگر کوٸی شخص جو دوسرے کے قرض لٸے ہوۓ ہو اور میدان کارزار میں شہید بھی ہوجاۓ تو اس کی روح کو جنت میں جگہ نہیں ملتی۔ بلکہ قرض اداء ہونے تک جنت کے دروازے پر محبوس رہتی ہے۔ اسے جنت میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا. ایک حدیث میں ہے:
”عن سعد بن الاطول أن أخاہ مات وترک ثلاث مأة درھم۔وترک عیالا قال: فأردت أن أنفقھا علی عیالہ۔ قال: فقال النبی صلي الله عليه وسلم ”إن أخاک محبوس بدینہ۔ فاذھب۔فاقض دینہ۔فذھبت فقضیت عنہ ۔۔۔“۔ وفیہ عبدالملک ابوجعفر ذکرہ ابن حبان فی ”الثقات“ وباقی رجال الإسناد علی شرط الشیخین۔ وصحح اسنادہ البوصیری۔فی ”الزواٸد۔ورقة ١٥٦۔ أخرجہ البیہق (جلد ١٠۔ ص ١٤٣)۔
اور مسند احمد کی روایت میں ہے:
”قال روسول اللہ ﷺ۔: رأیت صاحبکم محبوسا علی باب الجنة“ (احمد۔ جلد۔٤۔ ص۔١٣٦۔ابن۔ماجہ۔رقم الحدیث۔ ٢٤٣٣۔ ابن سعد ج۔٧۔ ص۔ ٥٧)۔
قرض لینے کا جواز یقینا ہے۔ اور انسان کو ضرورتیں بھی پیش آتی ہیں۔ جو بسااوقات ناگزیر ہوتی ہیں۔ اور انسان اپنی اور گھروالوں کی معاشی یا معالجاتی مجبوری میں تلملا اٹھتا ہے۔ اور قرض نہ لے تو افراد خانہ کی جان تک پہ بن آتی ہے ۔۔ اسی لٸےشریعت نے ایسے ضرورت مندوں کو گھریلو یا کاروباری ضرورت میں سودی قرض تک لینے کی اجازت دی۔ اگر قرض حسن نہ مل سکے۔
”یجوزللمحتاج الاستقراض بالربح“۔ ”وقدفصل لکم ما حرم علیکم إلا مااضطررتم إلیہ“ [سورہ انعام۔ ١١٩۔}
سے مستنبط بہت مشہوراصول ہے۔۔ اور قرض خواہ اگر قلاش اور مزید مفلس ہوجاۓ تو اس کے ساتھ ہمدردی کرنے اور فارغ البال ہونے تک۔ اسے مہلت دیٸے جانے جیسی اخلاقی رواداری کی بھی تعلیم اسلام نے دی ہے۔
”وإکان ذوعسرةفنظرة إلی میسرة۔ وأن تصدقوا خیرلکم إن کنتم تعلمون“ (سورہ بقرہ۔١٨٠) 
{اور اگر کوٸی تنگی والا ہو تو اسے آسانی میسرہونے تک مہلت دو اور اسے صدقہ کرکے چھوڑ ہی دو تمارے لٸے اس سے بتر بات اور کیا ہوگی۔ اگر تمہیں علم ہو}
مگر بات اس وقت سنگینی کے داٸرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ جب قرض خواہ دینے میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ یا دینا نہیں چاہتا۔ اور قرض دہندہ کو اذیت دیتا ہے۔ اور اگر اسی درمیان انتقال کرگیا تو اس کا بوجھ یا تو اپنے مفلس ورثہ پر چھوڑ جاتا ہے جو ذلت بھی اٹھاتے ہیں اور پریشان بھی ہوتے ہیں ۔۔ یا پھر اپنےاوپر بندہ حق کا لے کر دنیا سے جاتا ہے۔ جسے روزقیامت کماٸی ہوٸی نیکیوں سے۔ ایک مفلس کی طرح چکانا ہوگا جہاں خود ایک ایک نیکی کا انسان محتاج ہوگا۔ اور قرض چاہے شخصی ہو یا کسی ادارے اور بینک کا ہو اداٸیگی کے حکم میں سب برابرہے اور حقوق العباد کے زمرے میں ہے۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو اپنے دین کی حقوق واخلاق پر مبنی تعلیمات کو اپنانے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین۔
احمد نادر القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_21.html?m=1

No comments:

Post a Comment