Sunday 5 July 2020

حضرت رائے پوری قدس سرہ کے صوفی جی مولانا افتخارالحسن صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت رائے پوری قدس سرہ کے صوفی جی مولانا افتخارالحسن صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ

مؤرخہ 2 جون 2019 بوقت شام سوشل میڈیا پر گردش کررہی اس خبر نے اچانک حیرت میں ڈال دیا تھا کہ برصغیر کے مشہور عالم دین، یادگار اسلاف اور حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہٗ کے خلیفہ ومجاز حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی دنیائے فانی کو خیرباد کہہ کر مالک حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا مرحوم علماء ربانیین کے سلسلے کی زریں کڑی تھے۔ آپ کے اس طرح رخصت ہوجانے سے امت کو جو نقصان اور صدمہ پہنچا اس کی تلافی مشکل ہے۔ آپ کے دم سے جو ایک روحانی دنیا قائم تھی وہ اب ویران ہوچکی ہے۔ آپ کی وفات ایک عہد کا خاتمہ اورموت العالم موت العالم کا مصداق شمار کی جائے گی۔
سب جانتے ہیں کہ اس دورمیں ہمیں روحانی سہاروں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، اور روحانی سہارے اگر نہ رہیں تو امت بے شمار خیروبرکات سے محروم ہوجاتی ہے۔ آپ کے اس طرح مالک حقیقی کی طرف کوچ کرجانے سے امت بہت ساری برکات اوررحمتوں سے محروم ہوگئی۔
حضرت مولانا افتخارالحسن صاحب کاندھلوی قدس سرہٗ بزرگوں کے خاندان سے تھے اور انہیں کی حسنِ تربیت کا عکس جمیل تھے۔ اسی لئے آپ نے ہمیشہ اپنے بزرگوں اوراکابر کی طرح صلاح و فلاح سے معمور تقویٰ والی زندگی اختیار فرمائی۔ شریعت کی پابندی اوراتباع سنت آپ کی شناخت تھی اسی کا اثر تھا کہ ربّ ذوالجلال نے آپ کو بہت بافیض عالم بنایا تھا۔
مولانا مرحوم کاندھلہ کے مشہور بزرگ حضرت مولانا مفتی الٰہی بخش قدس سرہٗ کے خاندان سے ہیں، حضرت مفتی الٰہی بخش قدس سرہٗ سے آپ کا سلسہ نسب ساتویں نمبر پے جاکر ملتا ہے۔ آپ کے والد بزرگوار بھی ایک عالم دین تھے اور صاحبِ علم وعمل کی حیثیت سے مشہور تھے۔ مولانا رؤف الحسن ان کا نام تھا اس لئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اسم بامسمیٰ تھے۔ ظاہر وباطن دونوں لحاظ سے وہ خوبصورت تھے جب کہ رأفت و شفقت میں تو وہ اپنی مثال آپ تھے ہی۔ مولانا افتخارالحسن صاحب قدس سرہٗ کے دادا محترم جناب ضیاء الحسن صاحب ابن محمد صادق جناب نورالحسن کے فرزند تھے جو عالی مقام حضرت ابوالحسن ابن مولانا مفتی بخش کے فرزند تھے۔
مولانا افتخارالحسن صاحب قدس سرہٗ کے والد محترم مولانا رؤف الحسن صاحب نے یکے بعد دیگرے دو شادیاں کیں، جس سے آٹھ بچے ہوئے۔ پانچ لڑکے اورتین لڑکیاں۔ پہلی اہلیہ محترمہ کے بطن سے تین صاحبزادے حضرت مولانا نجم الحسن ؒ مولانا احتشام الحسنؒ خلیفہ ورفیق خاص حضرت مولانا محمد الیاس صاحب قدس سرہٗ اورحکیم قمرالحسنؒ ہوئے۔ انہیں زوجہ محترمہ کے بطن ِمبارک سے تین صاحبزادیاں جویریہ خاتونؒ زوجہ حضرت مولانا محمد الیاس ؒ بانی تبلیغی تحریک، امۃ المتین زوجہ حضرت مولانا محمد زکریا 
رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث مظاہرالعلوم سہارنپور اور امۃ الدیان زوجہ حضرت مولانا ظہیرالحسن صاحب شہید۔

دوسری اہلیہ سے حضرت مولانا اظہارالحسن صاحب اور حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن صاحب قدس سرہٗ متولد ہوئے۔ اس اعتبار سے آپ حضرت مولانا الیاس صاحب قدس سرہٗ اورحضرت مولانا محمد زکریا قدس سرہٗ کے برادر نسبتی ہوئے۔
آپ کی فراغت 1948 میں مدرسہ مظاہرعلوم سے ہوئی۔ آپ مظاہرعلوم کے قابل ترین فضلاء میں سے تھے۔ دورانِ تعلیم محنتی اور ذہین طلبہ میں آپ کا شمار تھا۔اپنے تمام اساتذہ کے آپ معتمد تھے۔ اسی کے ساتھ نیکی صلاح و تقوی اور اورادووظائف کی پابندی میں آپ ضرب المثل تھے. اسی کا اثر تھا کہ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری 
رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے بہت کم عمری میں ہی اجازت وخلافت سے نوازا دیا گیا تھا۔ آپ کے شیخ حضرت رائے پوری قدس سرہٗ آپ کو صوفی جی کے نام سے یاد فرماتے تھے، جس کا کئی جگہوں پر حضرت شیخ الحدیث قدس سرہٗ نے اپنی آپ بیتی میں بھی صوفی افتخار کے نام سے ذکرکیا ہے۔

مولانا مرحوم علم و عمل دونوں میں یکتا تھے۔ خصوصاً علم تفسیر میں آپ کو درک کامل حاصل تھا۔ تقریباً 52 سال تک کاندھلے کی جامع مسجد اور پھر اپنے محلے کی مسجد میں بعد فجر ایک ڈیڑھ گھنٹے تفسیر کرنے کا معمول رہا۔ اس دوران آپ نے مکمل قرآن کریم کی تفسیر کے پانچ دورمکمل فرمائے۔ آخری دورغالباً 1992 یا 1993 میں ہوا جس میں ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا۔ کاندھلہ کی عیدگاہ لوگوں کے ہجوم سے بھرگئی۔ اس اجتماع میں ہندوستان کی مایہ ناز علمی وروحانی ہستیاں بھی تشریف لائیں۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی شرکت فرمائی۔

اس اجلاس کے متعلق مولانا ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی آپ بیتی میں تحریر فرماتے ہیں کہ ”ایسی نورانی مجلس میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی.“ آپ کے یہاں روزانہ ایک روحانی مجلس بھی منعقد ہوتی۔ جس کے روحانی و بابرکت اثرات دورتک دیکھنے میں آئے۔ آپ کی یہ مجلس بڑی پراثر عرفان وایقان سے لبریز ہونے کے ساتھ علمی رنگ میں بھی رنگی ہوئی ہوتی تھی۔ بعض مرتبہ کسی آیت کی تفسیر شروع فرماتے اور کئی دن تک مسلسل فرماتے رہتے۔ آپ کی مجلس میں حاضر ہونے والے اہل علم کا تأثر تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سامنے ہے۔ روحانیت کا ایک بحرناپیدا کنار ہے۔

آپ کی مجلس کے حاضرباش بعض اہل علم نے بتایاکہ سورہ بقرہ کی آیت ”واذ قال ربک للملٰئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفہ“ کی تفسیر میں سارے دن تک کلام فرماتے رہے۔ اس تفسیر کا بعض حصہ ”تقاریر تفسیر قرآن مجید“ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔
آپ علمی گہرائی رکھنے والے عظیم مفسر اعلیٰ درجے کے صوفی اور کامل زاہد ومتقی انسان تھے۔ بزرگوں کی یادگار، اکابر کی روایات کے محافظ اوراسلاف دیوبند کے اقدار کے حامل تھے۔ بہت ساری نسبتوں کے حامل اورکئی طرح کے کمالات سے آراستہ ہونے کے باوجود انتہاء درجے کے متواضع اورسادہ انسان تھے۔ آپ کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا تھا جن کی علمی ودینی خدمات سے تاریخ اسلام کے بے شمار باب روشن ہیں۔ بالخصوص آپ کا اس دور میں وجود مسعود بہت ہی قیمتی تھا۔کیوں کہ آپ صالحین کا نمونہ اوران کا خوبصورت پرتو تھے۔ برصغیر ہندوپاک کی تاریخ میں 300 برس پر محیط اس خانوادہ کی اسلامی اور اصلاحی تحریک اور دینی خدمات جلی حروف میں درج ہیں۔ اس مبارک خاندان کے علمی ورثہ کے امین تھے حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب قدس سرہٗ جس طرح آپ علوم متداولہ میں ماہر تھے اسی طرح آپ راہ طریقت میں بھی یکتا تھے۔ بلکہ راہ ِ طریقت میں آپ کی خدمات کا سلسلہ وسیع تر اورفزوں تر ہے۔ دنیا بھر میں آپ کے سلسلے سے وابستہ ہزاروں لوگ تھے۔ جنہوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی اور آپ کے بتائے ہوئے اصلاحی طریقوں کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو احسان و نور کی کیفیات سے معمور کررہے تھے۔ اوران شاء اللہ کرتے رہیں گے۔ آپ کے خلفاء کی تعداد 50 سے متجاوز ہے۔
حضرت مولانا مرحوم میں وہ تمام صفات وعادات اور خصوصیات تھیں جو ایک عالم ربانی میں ہونی چاہیں۔ علماء نے زاہد کی تین علامات لکھیں ہیں۔
(۱) جو اس کے پاس موجود ہے اس پر خوش نہ ہو اورجو چند موجود نہیں ہے اس پر رنجیدہ نہ ہو
(۲) مادح اورذام اس کو یکساں نظر آئیں۔
(۳) حق تعالیٰ سے انس و محبت ہو اورطاعات میں لذت محسوس کرے۔

یہ تینوں علامات حضرت مولانا افتخارالحسن صاحب قدس سرہٗ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ موجود پر وہ اتراتے نہیں تھے اور جو چیز نہیں اس پر کبھی رنجیدہ نہیں ہوتے۔ اسی طرح ماد ح وذام ان کی نگاہ میں برابر تھے۔ وہ سب کو معاف کرنے کے عادی تھے۔ اور جہاں تک بات ہے ان کی حب فی اللہ کی تو وہ ان کے انگ انگ اور روئیں روئیں سے مترشح تھی. ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی کے لئے وقف تھا۔ دعا ہے کہ اللہ حضرت والا کو علیین میں جگہ عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وادخلہ فسیح جناتہ

مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347

https://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_5.html






No comments:

Post a Comment